مختصر جواب:
مفصل جواب:
معاویہ کے مرنے کے بعد ، کوفہ کے بزرگ حضرات نے سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہو کر امام علیہ السلام کو ایک خط لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ ہمارے قیام کی رہبری کو قبول فرمائیں ہم قیام کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔
خط کا مضمون جس میں شیعوں کے چار بزرگ حضرات یعنی سلیمان بن صرد،مسیب بن نجبہ، رفاعة بن شداد اور حبیب بن مظاہر اور شیعوں کے دوسرے گروہوں کے نام تھے، یہ تھا:
خدا وندعالم کی حمد کرتاہوں جس نے ظالم او رکینہ توز دشمن(معاویہ)کو نیست ونابود کیا وہ معاویہ جوامت کی رضایت کے بغیر ان پر مسلط ہوگیا تھا اوران کے اموال کو غصب کر لیا تھا اور اچھے لوگوں کوقتل کرکے برے لوگوں کو بروئے کار لے آیا تھا ۔
اب ہمارا کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، ہمارے پاس آجاؤ! اس امید کے ساتھ خدا وند آپ کی برکتوں سے ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔
نعمان بن بشیر(والی کوفہ)دار الامارة میں ہے اور ہم اس کے ساتھ نماز جمعہ اور اس کے پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں(اس کی کوئی توجہ نہیں کرتے)اور اگر ہمیں خبر مل جائے کہ آپ ہمارے پاس آرہے ہیں تو ہم اس کو کوفہ سے باہر نکال کرشام واپس بھیجدیں گے (١) ۔
کوفہ کے لوگوں کے متعدد خط آنے کے بعد جس میں لکھا تھاکہ ہم آپ کی رہبری قبو ل کرنے کو تیار ہیں، آپ نے ان کے خط کا جواب لکھااور پھر اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ کے لئے روانہ کردیا، امام نے اس طرح خط لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ من الحسین بن علی الی الملاء من المومنین والمسلمین۔ اما بعد : فان ھانئا وسعیدا قدما علی بکتبکم (و کانا آخر من قدم علی من رسلکم) و قد فھمت کل الذی اقتصصتم و ذکرتم و مقالة جلکم : انہ لیس علینا امام فاقبل لعل اللہ ان یجمعنا بک علی الھدی و الحق۔ و قد بعثت الیکم اخی و ابن عمی و ثقتی من اھل بیتی مسلم بن عقیل و امرتہ ان یکتب الی بحالکم و امرکم و رایکم۔
فان کتب الی: انہ قد اجمع رای ملئکم و ذوی الفضل و الحجی منکم علی مثل ما قدمت علی بہ رسلکم و قرات فی کتبکم اقدم علیکم و شیکا ان شاء اللہ۔ فلعمری ما الامام الا العامل بالکتاب والآخذ بالقسط والدائن بالحق و الحابس نفسہ علی ذات اللہ والسلام۔
شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے ۔ حسین بن علی کی طرفسے مسلمین ومؤمنین کے بزرگوں کے نام! ہانی ا ور سعید تمہارے خطوں کے ساتھ میرے پاس آئے (اور یہ دونوں وہ لوگ ہیں جو سب سے بعد میں تمہاری طرف سے خط لے کر آئے)تمہارے تمام خطوں کا مضمون (خلاصتا)یہ تھا: ہمارا کوئی راہنما اور پیشوا نہیں ہے ، ہمارے پاس آجاؤ!امید ہے کہ خدا وند تمہارے ذریعہ سے حق کی طرف ہماری ہدایت کردے ۔ اب میں اپنے بھائی، چچاکے بیٹے اور مورد اطمینان شخص مسلم بن عقیل کو جو میرے خاندان سے ہے تمہاری طرف بھیج رہا ہوں، میں نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے فکر و ارادہ اور تمہارے پروگرام کو مجھے مفصل تحریر کرے ۔
جب بھی اس نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے بزرگ اور عقل مند حضرات نے جو خطوط میں لکھا تھا وہ صحیح ہے، بہت جلد میں تمہاری طرف آؤں گا انشاء اللہ تعالی ۔ (خط کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ)خدا کی قسم! امام ورہبر فقط وہ شخص ہو سکتاہے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے اور عدل وانصاف کو قائم کرے، دین حق کو قبول کرتا ہو اور خود کو خدا کی راہ میں وقف کررکھا ہو(٢) ۔
یہ خط بخوبی اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیام کی راہ میں اموی ظالم حکومت کو ختم کرنے اور اسلامی حکومت تشکیل دینے کے لئے قدم اٹھایا ہے اسی وجہ سے وہاں کے حالات کو دیکھنے کے لئے پہلے اپنا مطمئن نمائندہ وہاں بھیجتے ہیں تاکہ وہ حقیقت حال سے آگا ہ ہو اور فوج کو اکھٹا کر کے شیعوں کی آمادگی کو دکھتے ہوئے قدم بڑھائے ۔
امام کے خط کا آخری جملہ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ امام علیہ السلام ، امامت ،خلافت اور رہبری کے مستحق تھے اور شام کے حاکم میں (جو کہ نہ کتاب خدا پر عمل کرتا تھا اور نہ عدل و انصاف سے کام لیتا تھا اور نہ ہی خود کو خدا کی راہ میں وقف سمجھتا تھا ) یہ لیاقت نہیں ہے اور یہ خود اس بات پر قرینہ ہے کہ امام علیہ ، مسلمانوں کی امامت و خلافت کو قبول اور عدل کو قائم کرنے کا ارادہ کرچکے تھے ۔
اسی طرح امام علیہ السلام، مسلم کے ہاتھ جو خط بھیجتے ہیں اس میں فوج کو اکھٹاکرنے اور شیعوں کی آمادگی پر تاکید کرتے ہیں اس خط میں لکھتے ہیں:
… وادع الناس الی طاعتی، و اخذلھم عن آل ابی سفیان، فان رایت الناس مجتمعین علی بیعتی فعجل لی بالخیر، حتی اعمل علی حسب ذلک ان شاء اللہ تعالی ۔ (جب کوفہ پہنچ جاؤ) تو لوگوں کو میری پیروی کے لئے دعوت دو اور لوگوں کو ابی سفیان کی حمایت سے منع کرو، اگر سب لوگوں نے مل کر میری بیعت کرلی تو مجھے خبر دینا تاکہ میں اس کے مطابق عمل کروں(٣) ۔
لوگوں کو ابوسفیان کی حمایت سے دور کرنا، لوگوں کو امام علیہ السلام کی اطاعت کی دعوت دینا اور ان کو متحد کرکے امام کی بیعت لینا یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ امام اسلامی حکومت کو تشکیل دینے کے لئے کرر ہے ہیں۔
مسلم کے کوفہ میں داخل ہونے اورلوگوں سے بیعت لینے اور ان سے امام کی حمایت لینے کے بعد جب آپ کے بھیجے ہوئے سفیروں نے آپ کو خط لکھے تو آپ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے (٤) ۔
امام علیہ السلام، ابن عباس سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و ھذہ کتب اھل الکوفہ و رسلھم، وقد وجب علی اجابتھم و قام لھم العذر علی عنداللہ سبحانہ۔ یہ کوفیوں کے خط اور ان کے قاصد ہیں میرے اوپر واجب ہے کہ میں ان کی دعوت پر لبیک کہوں کیونکہ حجت الہی میرے اوپر ختم ہوچکی ہے (٥) ۔
اسی طرح عبداللہ بن زبیر سے فرمایا:
اتتنی بیعة اربعین الفا یحلفون لی بالطلاق والعتاق من اھل الکوفة۔ کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں کی بیعت جنہوں نے اپنی طلاق اور عتاق (6) کی وفاداری میں قسم کھائی ہے، میرے پاس پہنچی ہیں(7) ۔
امام علیہ السلام نے جب عبداللہ بن مطیع سے ملاقات کی(جب اس نے آپ کے مکہ سے جانے کی وجہ پوچھی)تو وضاحت کے ساتھ فرمایا:
ان اھل الکوفة کتبوا الی یسالوننی ان اقدم علیھم لما رجوا من احیاء معالم الحق و امامتة البدع۔ کوفہ کے لوگوں نے خط لکھے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں ان کے پاس جاؤں، اس امید کے ساتھ کہ(حکومت اسلامی تشکیل دینے کے ذریعہ)حق کی نشانیوں کو زندہ اور بدعتوں کو نابود کیا جاسکے (8) ۔(9).
خط کا مضمون جس میں شیعوں کے چار بزرگ حضرات یعنی سلیمان بن صرد،مسیب بن نجبہ، رفاعة بن شداد اور حبیب بن مظاہر اور شیعوں کے دوسرے گروہوں کے نام تھے، یہ تھا:
خدا وندعالم کی حمد کرتاہوں جس نے ظالم او رکینہ توز دشمن(معاویہ)کو نیست ونابود کیا وہ معاویہ جوامت کی رضایت کے بغیر ان پر مسلط ہوگیا تھا اوران کے اموال کو غصب کر لیا تھا اور اچھے لوگوں کوقتل کرکے برے لوگوں کو بروئے کار لے آیا تھا ۔
اب ہمارا کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، ہمارے پاس آجاؤ! اس امید کے ساتھ خدا وند آپ کی برکتوں سے ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔
نعمان بن بشیر(والی کوفہ)دار الامارة میں ہے اور ہم اس کے ساتھ نماز جمعہ اور اس کے پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں(اس کی کوئی توجہ نہیں کرتے)اور اگر ہمیں خبر مل جائے کہ آپ ہمارے پاس آرہے ہیں تو ہم اس کو کوفہ سے باہر نکال کرشام واپس بھیجدیں گے (١) ۔
کوفہ کے لوگوں کے متعدد خط آنے کے بعد جس میں لکھا تھاکہ ہم آپ کی رہبری قبو ل کرنے کو تیار ہیں، آپ نے ان کے خط کا جواب لکھااور پھر اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ کے لئے روانہ کردیا، امام نے اس طرح خط لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ من الحسین بن علی الی الملاء من المومنین والمسلمین۔ اما بعد : فان ھانئا وسعیدا قدما علی بکتبکم (و کانا آخر من قدم علی من رسلکم) و قد فھمت کل الذی اقتصصتم و ذکرتم و مقالة جلکم : انہ لیس علینا امام فاقبل لعل اللہ ان یجمعنا بک علی الھدی و الحق۔ و قد بعثت الیکم اخی و ابن عمی و ثقتی من اھل بیتی مسلم بن عقیل و امرتہ ان یکتب الی بحالکم و امرکم و رایکم۔
فان کتب الی: انہ قد اجمع رای ملئکم و ذوی الفضل و الحجی منکم علی مثل ما قدمت علی بہ رسلکم و قرات فی کتبکم اقدم علیکم و شیکا ان شاء اللہ۔ فلعمری ما الامام الا العامل بالکتاب والآخذ بالقسط والدائن بالحق و الحابس نفسہ علی ذات اللہ والسلام۔
شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے ۔ حسین بن علی کی طرفسے مسلمین ومؤمنین کے بزرگوں کے نام! ہانی ا ور سعید تمہارے خطوں کے ساتھ میرے پاس آئے (اور یہ دونوں وہ لوگ ہیں جو سب سے بعد میں تمہاری طرف سے خط لے کر آئے)تمہارے تمام خطوں کا مضمون (خلاصتا)یہ تھا: ہمارا کوئی راہنما اور پیشوا نہیں ہے ، ہمارے پاس آجاؤ!امید ہے کہ خدا وند تمہارے ذریعہ سے حق کی طرف ہماری ہدایت کردے ۔ اب میں اپنے بھائی، چچاکے بیٹے اور مورد اطمینان شخص مسلم بن عقیل کو جو میرے خاندان سے ہے تمہاری طرف بھیج رہا ہوں، میں نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہارے فکر و ارادہ اور تمہارے پروگرام کو مجھے مفصل تحریر کرے ۔
جب بھی اس نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے بزرگ اور عقل مند حضرات نے جو خطوط میں لکھا تھا وہ صحیح ہے، بہت جلد میں تمہاری طرف آؤں گا انشاء اللہ تعالی ۔ (خط کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ)خدا کی قسم! امام ورہبر فقط وہ شخص ہو سکتاہے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے اور عدل وانصاف کو قائم کرے، دین حق کو قبول کرتا ہو اور خود کو خدا کی راہ میں وقف کررکھا ہو(٢) ۔
یہ خط بخوبی اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیام کی راہ میں اموی ظالم حکومت کو ختم کرنے اور اسلامی حکومت تشکیل دینے کے لئے قدم اٹھایا ہے اسی وجہ سے وہاں کے حالات کو دیکھنے کے لئے پہلے اپنا مطمئن نمائندہ وہاں بھیجتے ہیں تاکہ وہ حقیقت حال سے آگا ہ ہو اور فوج کو اکھٹا کر کے شیعوں کی آمادگی کو دکھتے ہوئے قدم بڑھائے ۔
امام کے خط کا آخری جملہ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ امام علیہ السلام ، امامت ،خلافت اور رہبری کے مستحق تھے اور شام کے حاکم میں (جو کہ نہ کتاب خدا پر عمل کرتا تھا اور نہ عدل و انصاف سے کام لیتا تھا اور نہ ہی خود کو خدا کی راہ میں وقف سمجھتا تھا ) یہ لیاقت نہیں ہے اور یہ خود اس بات پر قرینہ ہے کہ امام علیہ ، مسلمانوں کی امامت و خلافت کو قبول اور عدل کو قائم کرنے کا ارادہ کرچکے تھے ۔
اسی طرح امام علیہ السلام، مسلم کے ہاتھ جو خط بھیجتے ہیں اس میں فوج کو اکھٹاکرنے اور شیعوں کی آمادگی پر تاکید کرتے ہیں اس خط میں لکھتے ہیں:
… وادع الناس الی طاعتی، و اخذلھم عن آل ابی سفیان، فان رایت الناس مجتمعین علی بیعتی فعجل لی بالخیر، حتی اعمل علی حسب ذلک ان شاء اللہ تعالی ۔ (جب کوفہ پہنچ جاؤ) تو لوگوں کو میری پیروی کے لئے دعوت دو اور لوگوں کو ابی سفیان کی حمایت سے منع کرو، اگر سب لوگوں نے مل کر میری بیعت کرلی تو مجھے خبر دینا تاکہ میں اس کے مطابق عمل کروں(٣) ۔
لوگوں کو ابوسفیان کی حمایت سے دور کرنا، لوگوں کو امام علیہ السلام کی اطاعت کی دعوت دینا اور ان کو متحد کرکے امام کی بیعت لینا یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ امام اسلامی حکومت کو تشکیل دینے کے لئے کرر ہے ہیں۔
مسلم کے کوفہ میں داخل ہونے اورلوگوں سے بیعت لینے اور ان سے امام کی حمایت لینے کے بعد جب آپ کے بھیجے ہوئے سفیروں نے آپ کو خط لکھے تو آپ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے (٤) ۔
امام علیہ السلام، ابن عباس سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و ھذہ کتب اھل الکوفہ و رسلھم، وقد وجب علی اجابتھم و قام لھم العذر علی عنداللہ سبحانہ۔ یہ کوفیوں کے خط اور ان کے قاصد ہیں میرے اوپر واجب ہے کہ میں ان کی دعوت پر لبیک کہوں کیونکہ حجت الہی میرے اوپر ختم ہوچکی ہے (٥) ۔
اسی طرح عبداللہ بن زبیر سے فرمایا:
اتتنی بیعة اربعین الفا یحلفون لی بالطلاق والعتاق من اھل الکوفة۔ کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں کی بیعت جنہوں نے اپنی طلاق اور عتاق (6) کی وفاداری میں قسم کھائی ہے، میرے پاس پہنچی ہیں(7) ۔
امام علیہ السلام نے جب عبداللہ بن مطیع سے ملاقات کی(جب اس نے آپ کے مکہ سے جانے کی وجہ پوچھی)تو وضاحت کے ساتھ فرمایا:
ان اھل الکوفة کتبوا الی یسالوننی ان اقدم علیھم لما رجوا من احیاء معالم الحق و امامتة البدع۔ کوفہ کے لوگوں نے خط لکھے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں ان کے پاس جاؤں، اس امید کے ساتھ کہ(حکومت اسلامی تشکیل دینے کے ذریعہ)حق کی نشانیوں کو زندہ اور بدعتوں کو نابود کیا جاسکے (8) ۔(9).
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.