مختصر جواب:
مفصل جواب:
قیام عاشورا کے ممتاز ہونے کی وجہ چند نکتے ہیں جو تاریخ کے دوسرے مشابہ حوادث میں موجود نہیں تھے یا اس حد تک نہیں تھے ، یا ان تمام امتیازات کو اپنی ایک جگہ میں حاصل نہیں کرسکے ۔
اس قیام کے برجستہ ترین اہم نکات یہ ہیں :
١۔ خالص الہی اہداف و مقاصد
امام حسین (علیہ السلام) کے قیام میں نیت اور مقصد کا عنصر بہت زیادہ ممتاز ہے ، آپ نے صرف اور صرف خدا کی مرضی اور دین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا اور آپ کے قیام میں دنیوی اور جاہ طلبی کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا تھا ،اس دعوی پر تاریخ کربلا کی ایک ایک جگہ گواہ ہے ،اس وجہ سے امام (علیہ السلام) نے اس قیام میں ہمیشہ اپنے الہی وظیفہ کو انجام دیا اور نتیجہ کو خدا پر چھوڑ دیا ۔ امام حسین (علیہ السلام) کے کلمات ،سیرت اور عمل میں یہ حقیقت باربار نظر آتی ہے (اس کتاب میں اس بات کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا گیا ہے ) ۔
٢۔ حجت خدا کا ظاہری مسلمانوں کے ہاتھوں سے شہید ہونا
اس حادثہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس واقعہ میں نہ صرف ایک مومن اور حق طلب انسان بلکہ ایسے امام معصوم کو دردناک طریقہ سے شہید کیا گیا ہے جس کو اصحاب کساء کی پانچویں فرد اور فاطمہ زہرا (علیہا السلام) بنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فرزند سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی امت تصور کرتے تھے ۔
امام حسین (علیہ السلام) کو ان تمام معنوی عظمتوں اور خاندانی حسب و نسب کے باوجود قتل کرنا اس زمانہ میں کوئی آسان کام نہیں تھا جس کو تاریخ فراموش کردے ۔
اگر چہ ہر مومن انسان اور محترم شخصیت کو قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے ، لیکن یقینا ایسے شخص کو قتل کرنا جو زمین پر خدا کی حجت اور اپنے زمانہ کا امام ہو اور ظلم و ستم سے جنگ کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہو ، اوروہ بھی اس غلط طریقہ سے قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے جس کو آسانی کے ساتھ فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
محتشم کاشانی نے کتنے اچھے اشعار کہے ہیں :
ترسم جزای قاتل او چون رقم زنند
یک بارہ بر جریدہ رحمت قلم زنند
ترسم کزین گناہ ، شفیعان روز حشر
دارند شرم ، کز گنہ خلق دم زنند
امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد زمین و آسمان کی تبدیلی اور فرشتوں کے گریہ کے متعلق جو روایتیں شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں وہ اس حقیقت پر بہترین گواہ ہیں (١) ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہوں ، ظاہری طور پر نماز پڑھتے ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوں وہ لوگ اپنے جگر گوشہ رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے (٢) اور بہت ہی بے رحمی کے ساتھ تقوی اور ایمان کے نمونہ کو شہید کردیا اوران کی ناموس کی ہتک حرمت کی ۔
٣۔ امام کے اصحاب
اگر چہ کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ جو گروہ شہید ہوا وہ بہت چھوٹا سا گروہ تھا لیکن جب ہم ان کی زندگی اور ان کے اعمال و گفتار کی طرف سرسری نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مومن، وفادار، فداکار اور پاک دل تھے ، اس حقیقت کی واضح دلیل امام حسین (علیہ السلام) کے وہ کلمات ہیں جو آپ نے شب عاشور اپنے اصحاب کے درمیان فرمائے :
""فانی لا اعلم اصحابا اولی و لا خیرا من اصحابی ، ولا اھل بیت ابر و لا اوصل من اھل بیتی "" ۔ میں نے اپنے اصحاب سے بہتر کسی شخص کے اصحاب کو نہیں دیکھا ہے، نیک اور رشتہ داری کے وظیفہ پر پابند اہل بیت ،اپنے اہل بیت کے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتا (٣) ۔
٤۔ عاشورا والوں کا ذلت کوقبول نہ کرنا
امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ موجود اصحاب ، مختلف اوصاف میں ممتاز تھے ،لیکن ان کے اندر جو ایک بلند ترین خصوصیت پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی ذلت کوقبول نہیں کیا ۔
دشمن نے بہت زیادہ کوشش کی کہ ان کو اپنے سامنے تسلیم ہونے پرمجبور کریں یا یزید کی خلافت کی تائید میں ان سے کچھ سن سکیں، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ، وہ اسی حسرت ویاس میں باقی رہے کہ امام حسین (علیہ السلام) اپنی پشیمانی یا ضعف کے سلسلہ میں کچھ بیان کریں ۔
""ھیھات منا الذلة"" (٤) کا نعرہ ، اسی طرح باقی رہنے والا کلام ""واللہ لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ، و لا افر فرار العبید "" ۔ خدا کی قسم میں تمہارے ساتھ ذلت کا ہاتھ نہیں ملائوں گا اور غلاموں کی طرح فرار بھی نہیں کروں گا (٥) ہمیشہ تاریخ کے صفحہ پر چمکتا رہے گا !
ابن ا بی الحدید معتزلی نے اپنی کتاب میں (نہج البلاغہ کے ٥١ ویں خطبہ کی تشریح کی مناسبت سے)ایک بحث کو ""اُباة الضیم و اخبارھم"" (ظلم و ستم کو قبول نہ کرنے والوں کی تاریخ) کے عنوان سے بیان کیا ہے اور تاریخ اسلام میں ظلم کو قبول نہ کرنے والوں کے نام بیان کئے ہیں ،اس نے اس بحث کی ابتداء میں لکھا ہے :
"" سید اھل الاباء الذی علم الناس الحمیة و الموت تحت ظلال السیوف ، اختیارا لہ علی الدنیة، ابوعبداللہ الحسین بن علی بن ابی طالب علیھما السلام، عرض علیہ الامان و اصحابہ فانف من الذل "" ۔
دنیا کے ظلم و ستم کو قبول نہ کرنے والوں میں جس شخص نے غیرت اور تلواروں کے سایہ میں ذلت و خواری کے اوپر موت کو انتخاب کرنے کیلئے لوگوں کو جو سبق دیا وہ حسین بن علی (علیہما السلام) ہیں ،ان کو اور ان کے اصحاب کو امان دی گئی لیکن انہوں نے ذلت کو قبول نہیں کیا (٦) ۔
نہ صرف امام حسین (علیہ السلام) بلکہ آپ کے و ہ تمام اصحاب جو ٦١ ہجری میں عاشور کے روز شہید ہوئے ، عزت نفس کے بہت بلند درجہ پر فائز تھے ، اس حقیقت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شمر نے حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے لئے امان نامہ بھیجا تو آپ نے اس کو قبول نہیں کیا (٧) ۔
دشمن نے ان کے جسم کو مثلہ اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن ان کی عزت ، سربلندی اور روحی عظمت کو کم نہ کرسکا ، عرب کے شاعر نے اس حقیقت کو کس طرح اپنے شعر میں نظم کیا ہے :
قد غیر الطعن منھم کل جارحة
الا المکارم فی امن من الغیر
(نیزہ اور شمشیر کی ) ضربتوں نے ان کے تمام بدن کوتبدیل کردیا لیکن ان کی روحی عظمت اور بزرگواری کو کبھی بھی تبدیل نہیں کرسکے ۔
مختلف ابعاد میں مظلومیت
امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کی مظلومیت ایک پہلو سے نہیں تھی بلکہ کربلا کے واقعہ میں ہر پہلو سے مظلومیت نظر آتی ہے : امام (علیہ السلام) کو دعوت دے کر بلانا اور پھر آپ کے ساتھ بے وفائی کرنا ، مہمان کو قتل کرنا ، آپ پر ، آپ کے اصحاب، عورتوں، بچوں اور اہل بیت پر پانی بند کرنا ، ٧٢ افراد کے مقابلہ میں تیس ہزار فوج کا جنگ کرنا ، شیر خوار بچے کو قتل کرنا ، بچوں اور عورتوں پر حملہ کرنا ، خیموں کو آگ لگانا ، شہدا کے لاشوں کو پائمال کرنا ، سروں کو نیزوں پر رکھنا ، شہداء کے لاشوں کو دفن کرنے سے منع کرنا ، آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کرکے مختلف شہروں میں گھومانا یہ سب واقعہ کربلا کی خصوصیتیں ہیں جو اس کو اس کے مشابہ دوسرے حوادث سے جدا کرتی ہیں ۔
اس روز اہل بیت (علیہم السلام) کی مظلومیت کے تمام پہلو اس طرح واقع ہوئے کہ کبھی کبھی بے رحم دشمن بھی رونے لگتا تھا ، ایک جگہ حضرت زینب کبری (علیہا السلام) نے عمر بن سعد کو مخاطب کرکے فرمایا :
"" یا عمر بن سعد ! یقتل ابوعبداللہ و انت تنظر الیہ"" ۔ اے عمر سعد ! ابوعبداللہ کو قتل کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے ؟!
اس وقت عمر سعد کی آنکھوں سے آنسوئوں جاری ہوکر اس کے ناپاک چہرہ پر گرنے لگے اور اس نے شرم کی وجہ سے اپنا منہ جناب زینب (علیہ السلام) کی طرف سے موڑ لیا (٨) ۔
جرمن کے موسیوماربین کے بقول : امام حسین (علیہ السلام) پر اپنے جد امجد کے دین کو احیاء کرنے میں جو مصائب پڑے ان مصائب نے آپ کو تمام گزشتہ شہداء سے برتر کردیا اور گزشتہ زمانہ میں کبھی کسی پر ایسے مصائب نہیں پڑے ... دنیا کی پوری تاریخ میں اس طرح کے مصائب صرف امام حسین (علیہ السلام) سے مخصوص ہیں (٩) ۔
٦۔ اثر اندازی کی طاقت
اس بزرگ شجاعت کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ آپ کی اس شہادت نے تمام عام مسلمانوں بلکہ دنیا کی پوری تاریخ کے آزاد افراد کی فکروں پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے ۔
بہت ہی جرائت کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قیام عاشورا کا یہ پہلو پوری تاریخ میں بے نظیر ہے ۔ یعنی پوری دنیا میں ایسا قیام اور انقلاب نہیں مل سکتا جو ازاد فکر لوگوں کے لئے اس قدر نمونہ عمل اور ظالموں کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب قرار پائے ، وہ بھی اس وقت سے لے کر آج تک سب میں ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک عجیب جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے : یہ ا نقلاب زمان اور مکان سے زیادہوسیع انقلاب ہے ،انقلاب عاشورا کا اثر ورسوخ طول و عرض اور عمق میں بہت ہی تعجب خیز ہے ۔
یقینا بہت کم انقلاب (امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کی طرح) ملیں گے جو شکست کے روز ہی سے فاتح اور کامیاب ہوں اور مغلوب ہونے کے دن ہی سے غالب ہوجائیں اور جس وقت سے دشمن دیکھتا ہے کہ ہمارے مخالفوں کا کام ختم ہوگیا اسی دن وہ دشمن مر جاتا ہو ۔
توماس کارلایل (١٠) لکھتا ہے : کربلا کی ٹریجڈی سے جو بہترین سبق حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب ، خداوند عالم پر بہت محکم ایمان رکھتے تھے ، انہوں نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ جس جگہ حق باطل کے سامنے روبرو ہوتا ہے تو کثرت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور تعداد کی کمی کے باوجود امام حسین کی فتح میرے لئے تعجب کا باعث ہے (١١) ۔
ان پاک سرشرت افراد کو قتل کرنے سے نہ صرف ابوسفیان کے بیٹوں کی حکومت کے استوار ہونے میں مدد ملی بلکہ اس کے نابود ہونے میں عجلت کا باعث بنی اور وہ تیزی کے ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہوگئے ۔
لوگوں کے اعتراضات اور عاشورا کے بعد خونی انقلابوں کے قائم ہونااس خونی انقلاب اور عاشورا کی حقیقی کامیابی کی طاقت کو بیان کرتے ہیں (اس کتاب کے پانچویں حصہ میں اس متعلق تفصیل سے بحث کریں گے ) ۔
مصر کا معاصر مصنف عباس محمود عقاد (١٢) نے لکھا ہے :اس روز کربلا کے واقعہ میں یزید کو اپنے مدمقابل پر مطلق فاتح اور کامیاب دیکھتے ہیں اور اس روز حسین (علیہ السلام) کو مغلوب اور شکست کھانے والے سمجھتے ہیں لیکن بہت کم مدت کے بعد بہت ہی تعجب خیز حالت کے ساتھ یہ علامتیں اور نشانیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ترازو کے پلّوں میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے ، یہاں تک کہ جھکا ہوا پلّہ آسمان کے اوپر دکھائی دیتا ہے اور اٹھا ہوا پلّہ زمین کے اندر دکھائی دیتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ حقیقت اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ نفع اور نقصان اٹھانے والے پلّوں کو تشخیص دینے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے (١٣) ۔
اس غم انگیز حادثہ کی تاثیر اور اثر و رسوخ کا دوسرا منظر یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعدآپ کے چاہنے والے لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال ماہ محرم خصوصا ٩ اور ١٠محرم کو آپ کی اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری قائم کرتے ہیں اور آپ کی عزت و عظمت کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ، زحمتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں ، بچے ،جوان، بوڑھے ، مرد اور عورتیں بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی عزاداری قائم کرتے ہیں ۔
دشمنت کشت ، ولی نور تو خاموش نگشت
آری آن جلوہ کہ فانی نشود ، نور خدا ست
اس قیام کے برجستہ ترین اہم نکات یہ ہیں :
١۔ خالص الہی اہداف و مقاصد
امام حسین (علیہ السلام) کے قیام میں نیت اور مقصد کا عنصر بہت زیادہ ممتاز ہے ، آپ نے صرف اور صرف خدا کی مرضی اور دین کو زندہ کرنے کے لئے قیام کیا اور آپ کے قیام میں دنیوی اور جاہ طلبی کا کوئی عنصر نہیں پایا جاتا تھا ،اس دعوی پر تاریخ کربلا کی ایک ایک جگہ گواہ ہے ،اس وجہ سے امام (علیہ السلام) نے اس قیام میں ہمیشہ اپنے الہی وظیفہ کو انجام دیا اور نتیجہ کو خدا پر چھوڑ دیا ۔ امام حسین (علیہ السلام) کے کلمات ،سیرت اور عمل میں یہ حقیقت باربار نظر آتی ہے (اس کتاب میں اس بات کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا گیا ہے ) ۔
٢۔ حجت خدا کا ظاہری مسلمانوں کے ہاتھوں سے شہید ہونا
اس حادثہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس واقعہ میں نہ صرف ایک مومن اور حق طلب انسان بلکہ ایسے امام معصوم کو دردناک طریقہ سے شہید کیا گیا ہے جس کو اصحاب کساء کی پانچویں فرد اور فاطمہ زہرا (علیہا السلام) بنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فرزند سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی امت تصور کرتے تھے ۔
امام حسین (علیہ السلام) کو ان تمام معنوی عظمتوں اور خاندانی حسب و نسب کے باوجود قتل کرنا اس زمانہ میں کوئی آسان کام نہیں تھا جس کو تاریخ فراموش کردے ۔
اگر چہ ہر مومن انسان اور محترم شخصیت کو قتل کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے ، لیکن یقینا ایسے شخص کو قتل کرنا جو زمین پر خدا کی حجت اور اپنے زمانہ کا امام ہو اور ظلم و ستم سے جنگ کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہو ، اوروہ بھی اس غلط طریقہ سے قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے جس کو آسانی کے ساتھ فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
محتشم کاشانی نے کتنے اچھے اشعار کہے ہیں :
ترسم جزای قاتل او چون رقم زنند
یک بارہ بر جریدہ رحمت قلم زنند
ترسم کزین گناہ ، شفیعان روز حشر
دارند شرم ، کز گنہ خلق دم زنند
امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد زمین و آسمان کی تبدیلی اور فرشتوں کے گریہ کے متعلق جو روایتیں شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں وہ اس حقیقت پر بہترین گواہ ہیں (١) ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہوں ، ظاہری طور پر نماز پڑھتے ہوں اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوں وہ لوگ اپنے جگر گوشہ رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے (٢) اور بہت ہی بے رحمی کے ساتھ تقوی اور ایمان کے نمونہ کو شہید کردیا اوران کی ناموس کی ہتک حرمت کی ۔
٣۔ امام کے اصحاب
اگر چہ کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ جو گروہ شہید ہوا وہ بہت چھوٹا سا گروہ تھا لیکن جب ہم ان کی زندگی اور ان کے اعمال و گفتار کی طرف سرسری نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مومن، وفادار، فداکار اور پاک دل تھے ، اس حقیقت کی واضح دلیل امام حسین (علیہ السلام) کے وہ کلمات ہیں جو آپ نے شب عاشور اپنے اصحاب کے درمیان فرمائے :
""فانی لا اعلم اصحابا اولی و لا خیرا من اصحابی ، ولا اھل بیت ابر و لا اوصل من اھل بیتی "" ۔ میں نے اپنے اصحاب سے بہتر کسی شخص کے اصحاب کو نہیں دیکھا ہے، نیک اور رشتہ داری کے وظیفہ پر پابند اہل بیت ،اپنے اہل بیت کے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتا (٣) ۔
٤۔ عاشورا والوں کا ذلت کوقبول نہ کرنا
امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ موجود اصحاب ، مختلف اوصاف میں ممتاز تھے ،لیکن ان کے اندر جو ایک بلند ترین خصوصیت پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی ذلت کوقبول نہیں کیا ۔
دشمن نے بہت زیادہ کوشش کی کہ ان کو اپنے سامنے تسلیم ہونے پرمجبور کریں یا یزید کی خلافت کی تائید میں ان سے کچھ سن سکیں، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ، وہ اسی حسرت ویاس میں باقی رہے کہ امام حسین (علیہ السلام) اپنی پشیمانی یا ضعف کے سلسلہ میں کچھ بیان کریں ۔
""ھیھات منا الذلة"" (٤) کا نعرہ ، اسی طرح باقی رہنے والا کلام ""واللہ لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ، و لا افر فرار العبید "" ۔ خدا کی قسم میں تمہارے ساتھ ذلت کا ہاتھ نہیں ملائوں گا اور غلاموں کی طرح فرار بھی نہیں کروں گا (٥) ہمیشہ تاریخ کے صفحہ پر چمکتا رہے گا !
ابن ا بی الحدید معتزلی نے اپنی کتاب میں (نہج البلاغہ کے ٥١ ویں خطبہ کی تشریح کی مناسبت سے)ایک بحث کو ""اُباة الضیم و اخبارھم"" (ظلم و ستم کو قبول نہ کرنے والوں کی تاریخ) کے عنوان سے بیان کیا ہے اور تاریخ اسلام میں ظلم کو قبول نہ کرنے والوں کے نام بیان کئے ہیں ،اس نے اس بحث کی ابتداء میں لکھا ہے :
"" سید اھل الاباء الذی علم الناس الحمیة و الموت تحت ظلال السیوف ، اختیارا لہ علی الدنیة، ابوعبداللہ الحسین بن علی بن ابی طالب علیھما السلام، عرض علیہ الامان و اصحابہ فانف من الذل "" ۔
دنیا کے ظلم و ستم کو قبول نہ کرنے والوں میں جس شخص نے غیرت اور تلواروں کے سایہ میں ذلت و خواری کے اوپر موت کو انتخاب کرنے کیلئے لوگوں کو جو سبق دیا وہ حسین بن علی (علیہما السلام) ہیں ،ان کو اور ان کے اصحاب کو امان دی گئی لیکن انہوں نے ذلت کو قبول نہیں کیا (٦) ۔
نہ صرف امام حسین (علیہ السلام) بلکہ آپ کے و ہ تمام اصحاب جو ٦١ ہجری میں عاشور کے روز شہید ہوئے ، عزت نفس کے بہت بلند درجہ پر فائز تھے ، اس حقیقت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شمر نے حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے لئے امان نامہ بھیجا تو آپ نے اس کو قبول نہیں کیا (٧) ۔
دشمن نے ان کے جسم کو مثلہ اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن ان کی عزت ، سربلندی اور روحی عظمت کو کم نہ کرسکا ، عرب کے شاعر نے اس حقیقت کو کس طرح اپنے شعر میں نظم کیا ہے :
قد غیر الطعن منھم کل جارحة
الا المکارم فی امن من الغیر
(نیزہ اور شمشیر کی ) ضربتوں نے ان کے تمام بدن کوتبدیل کردیا لیکن ان کی روحی عظمت اور بزرگواری کو کبھی بھی تبدیل نہیں کرسکے ۔
مختلف ابعاد میں مظلومیت
امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کی مظلومیت ایک پہلو سے نہیں تھی بلکہ کربلا کے واقعہ میں ہر پہلو سے مظلومیت نظر آتی ہے : امام (علیہ السلام) کو دعوت دے کر بلانا اور پھر آپ کے ساتھ بے وفائی کرنا ، مہمان کو قتل کرنا ، آپ پر ، آپ کے اصحاب، عورتوں، بچوں اور اہل بیت پر پانی بند کرنا ، ٧٢ افراد کے مقابلہ میں تیس ہزار فوج کا جنگ کرنا ، شیر خوار بچے کو قتل کرنا ، بچوں اور عورتوں پر حملہ کرنا ، خیموں کو آگ لگانا ، شہدا کے لاشوں کو پائمال کرنا ، سروں کو نیزوں پر رکھنا ، شہداء کے لاشوں کو دفن کرنے سے منع کرنا ، آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کرکے مختلف شہروں میں گھومانا یہ سب واقعہ کربلا کی خصوصیتیں ہیں جو اس کو اس کے مشابہ دوسرے حوادث سے جدا کرتی ہیں ۔
اس روز اہل بیت (علیہم السلام) کی مظلومیت کے تمام پہلو اس طرح واقع ہوئے کہ کبھی کبھی بے رحم دشمن بھی رونے لگتا تھا ، ایک جگہ حضرت زینب کبری (علیہا السلام) نے عمر بن سعد کو مخاطب کرکے فرمایا :
"" یا عمر بن سعد ! یقتل ابوعبداللہ و انت تنظر الیہ"" ۔ اے عمر سعد ! ابوعبداللہ کو قتل کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے ؟!
اس وقت عمر سعد کی آنکھوں سے آنسوئوں جاری ہوکر اس کے ناپاک چہرہ پر گرنے لگے اور اس نے شرم کی وجہ سے اپنا منہ جناب زینب (علیہ السلام) کی طرف سے موڑ لیا (٨) ۔
جرمن کے موسیوماربین کے بقول : امام حسین (علیہ السلام) پر اپنے جد امجد کے دین کو احیاء کرنے میں جو مصائب پڑے ان مصائب نے آپ کو تمام گزشتہ شہداء سے برتر کردیا اور گزشتہ زمانہ میں کبھی کسی پر ایسے مصائب نہیں پڑے ... دنیا کی پوری تاریخ میں اس طرح کے مصائب صرف امام حسین (علیہ السلام) سے مخصوص ہیں (٩) ۔
٦۔ اثر اندازی کی طاقت
اس بزرگ شجاعت کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ آپ کی اس شہادت نے تمام عام مسلمانوں بلکہ دنیا کی پوری تاریخ کے آزاد افراد کی فکروں پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے ۔
بہت ہی جرائت کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قیام عاشورا کا یہ پہلو پوری تاریخ میں بے نظیر ہے ۔ یعنی پوری دنیا میں ایسا قیام اور انقلاب نہیں مل سکتا جو ازاد فکر لوگوں کے لئے اس قدر نمونہ عمل اور ظالموں کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب قرار پائے ، وہ بھی اس وقت سے لے کر آج تک سب میں ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک عجیب جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے : یہ ا نقلاب زمان اور مکان سے زیادہوسیع انقلاب ہے ،انقلاب عاشورا کا اثر ورسوخ طول و عرض اور عمق میں بہت ہی تعجب خیز ہے ۔
یقینا بہت کم انقلاب (امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کی طرح) ملیں گے جو شکست کے روز ہی سے فاتح اور کامیاب ہوں اور مغلوب ہونے کے دن ہی سے غالب ہوجائیں اور جس وقت سے دشمن دیکھتا ہے کہ ہمارے مخالفوں کا کام ختم ہوگیا اسی دن وہ دشمن مر جاتا ہو ۔
توماس کارلایل (١٠) لکھتا ہے : کربلا کی ٹریجڈی سے جو بہترین سبق حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب ، خداوند عالم پر بہت محکم ایمان رکھتے تھے ، انہوں نے اپنے عمل سے واضح کردیا کہ جس جگہ حق باطل کے سامنے روبرو ہوتا ہے تو کثرت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور تعداد کی کمی کے باوجود امام حسین کی فتح میرے لئے تعجب کا باعث ہے (١١) ۔
ان پاک سرشرت افراد کو قتل کرنے سے نہ صرف ابوسفیان کے بیٹوں کی حکومت کے استوار ہونے میں مدد ملی بلکہ اس کے نابود ہونے میں عجلت کا باعث بنی اور وہ تیزی کے ساتھ اپنی نابودی کی طرف گامزن ہوگئے ۔
لوگوں کے اعتراضات اور عاشورا کے بعد خونی انقلابوں کے قائم ہونااس خونی انقلاب اور عاشورا کی حقیقی کامیابی کی طاقت کو بیان کرتے ہیں (اس کتاب کے پانچویں حصہ میں اس متعلق تفصیل سے بحث کریں گے ) ۔
مصر کا معاصر مصنف عباس محمود عقاد (١٢) نے لکھا ہے :اس روز کربلا کے واقعہ میں یزید کو اپنے مدمقابل پر مطلق فاتح اور کامیاب دیکھتے ہیں اور اس روز حسین (علیہ السلام) کو مغلوب اور شکست کھانے والے سمجھتے ہیں لیکن بہت کم مدت کے بعد بہت ہی تعجب خیز حالت کے ساتھ یہ علامتیں اور نشانیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ترازو کے پلّوں میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے ، یہاں تک کہ جھکا ہوا پلّہ آسمان کے اوپر دکھائی دیتا ہے اور اٹھا ہوا پلّہ زمین کے اندر دکھائی دیتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ حقیقت اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ نفع اور نقصان اٹھانے والے پلّوں کو تشخیص دینے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے (١٣) ۔
اس غم انگیز حادثہ کی تاثیر اور اثر و رسوخ کا دوسرا منظر یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعدآپ کے چاہنے والے لاکھوں اور کروڑوں افراد ہر سال ماہ محرم خصوصا ٩ اور ١٠محرم کو آپ کی اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری قائم کرتے ہیں اور آپ کی عزت و عظمت کو بیان کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ، زحمتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں ، بچے ،جوان، بوڑھے ، مرد اور عورتیں بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی عزاداری قائم کرتے ہیں ۔
دشمنت کشت ، ولی نور تو خاموش نگشت
آری آن جلوہ کہ فانی نشود ، نور خدا ست
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.