مختصر جواب:
مفصل جواب:
ابن تیمیہ کہتا ہے : و حدیث (انا مدینة العلم و علی بابھا) اضعف و اوھی ، و لھذا انما یعد فی الموضوعات و ان رواہ الترمذی و ذکرہ ابن الجوزی ، و بین ان سائر طرقہ موضوعة ، والکذب یعرف من نفس المتن« (١) ۔ یہ حدیث (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں ) بہت ضعیف اور سست ہے ، لہذا اس کا شمار جعلی احادیثوں میں ہوتا ہے ، اگر چہ اس کو ترمذی نے روایت کی ہے ، لیکن ابن جوزی نے اس کو ذکر کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس کے تمام طُرُق جعلی ہیں اور اس کا جھوٹا ہونا خود اس کے متن سے معلوم ہوجاتا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے : حافظ سیوطی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے : قلت : حدیث علی اخرجہ الترمذی و الحاکم ، وحدیث ابن عباس اخرجہ الحاکم والطبرانی ، و حدیث جابر اخرجہ الحاکم .... والحاصل انہ ینتھی بطرقہ الی درجة الحسن المحتج بہ ، و لا یکون ضعیفا فضلا عن ان یکون موضوعا ...(٢) ۔ میں کہتا ہوں : حدیث علی (علیہ السلام) کو ترمذی او رحاکم نے نقل کیا اور حدیث ابن عباس کو حاکم
اور طبرانی نے اور حدیث جابر کو حاکم نے نقل کیا ہے .... اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے تمام طُرُق کے ساتھ درجہ حسن تک پہنچتی ہے اور یہ استدلال کے قابل ہے ، لہذا ضعیف نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو جعلی کہا جائے ۔
ابن حجر نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے : و ھذا الحدیث لہ طرق کثیرة فی مستدرک الحاکم اقل احوالھا ان یکون للحدیث اصل، فلا ینبغی ان یطلق القول علیہ بالوضع (٣) ۔ مستدرک حاکم میں اس حدیث کے بہت سے طُرُق بیان ہوئے ہیں جس کا سب سے کم حال یہ ہے کہ یہ حدیث اصلی ہے ، لہذا اس کے اوپر وضع اور جعل کا نام رکھنا صحیح نہیں ہے (٤) ۔
اس کا جواب یہ ہے : حافظ سیوطی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے : قلت : حدیث علی اخرجہ الترمذی و الحاکم ، وحدیث ابن عباس اخرجہ الحاکم والطبرانی ، و حدیث جابر اخرجہ الحاکم .... والحاصل انہ ینتھی بطرقہ الی درجة الحسن المحتج بہ ، و لا یکون ضعیفا فضلا عن ان یکون موضوعا ...(٢) ۔ میں کہتا ہوں : حدیث علی (علیہ السلام) کو ترمذی او رحاکم نے نقل کیا اور حدیث ابن عباس کو حاکم
اور طبرانی نے اور حدیث جابر کو حاکم نے نقل کیا ہے .... اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے تمام طُرُق کے ساتھ درجہ حسن تک پہنچتی ہے اور یہ استدلال کے قابل ہے ، لہذا ضعیف نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو جعلی کہا جائے ۔
ابن حجر نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے : و ھذا الحدیث لہ طرق کثیرة فی مستدرک الحاکم اقل احوالھا ان یکون للحدیث اصل، فلا ینبغی ان یطلق القول علیہ بالوضع (٣) ۔ مستدرک حاکم میں اس حدیث کے بہت سے طُرُق بیان ہوئے ہیں جس کا سب سے کم حال یہ ہے کہ یہ حدیث اصلی ہے ، لہذا اس کے اوپر وضع اور جعل کا نام رکھنا صحیح نہیں ہے (٤) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.