مختصر جواب:
مفصل جواب:
ابن تیمیہ کہتا ہے : جملہ «اللھم وال من ولاہ ، و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ« ، اہل حدیث کا علم رکھنے والوں کے نزدیک جھوٹ ہے (١) ۔
جواب : اولا : ابن تیمیہ نے اس حدیث کے جھوٹا ہونے پر حدیث کا علم رکھنے والوں کے متفق ہونے کا دعوی کس طرح کیا ، جبکہ اہل سنت کے بزرگ محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جیسے :
احمد بن حنبل (٢) ۔ نسائی (٢) ۔ ابن ابی شیبة (٣) ۔ ابن حبان (٤) ۔ طبرانی (٥) ۔ بزار (٦) ۔ ضیاء مقدسی (٧) ۔ حاکم نیشاپوری (٨) ۔ ابن ابی عاصم (٩) ۔ ابن ماجہ (١٠) ۔
ثانیا : ابن حبان ، حاکم نیشاپوری اور ضیاء مقدسی جیسے علماء نے صحیح سند کے ساتھ اس حدیث کے ذیل کو نقل کیا ہے یا اس کی سند کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔
ثالثا : ناصر الدین ا لبانی نے حدیث غدیر کو اس کے ذیل کے ساتھ کتاب «سلسلة الاحادیث الصحیحہ« میں نقل کیا ہے اور اس کی مختلف طرق سے تصحیح کی ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے : جب تم نے یہ بات جان لی تو یہ بھی سمجھ لو کہ اس حدیث کے متعلق قلم کو آزاد چھوڑنے اور اس حدیث کو صحیح بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حدیث غدیر کے ذیل کو تضعیف قرار دیا ہے اور اس نے خیال کیا کہ یہ جھوٹ ہے اور میری نظر میں یہ اس کے مبالغات میں سے ایک مبالغہ ہے جو احادیث کی تضیعف کرنے کی جلدبازی کی وجہ سے ہے ، اس نے حدیث کے طرق کو جمع کرنے اور اس میں غوروفکر کرنے سے پہلے یہ فیصلہ دیدیا (١١) ۔
یہی وجہ ہے کہ ابن حجر نے «لسان المیزان« میں ابن مطہر حلی (رحمة اللہ علیہ) کی سوانح حیات میں کہا ہے : میں نے ابن تیمیہ کو دیکھا کہ جب وہ ابن مطہر حلی کی نقل کردہ احادیث کا جواب دیتا ہے تو اس پر زبردست حملہ کرتا ہے اگر چہ ان میں سے اکثر و بیشتر جعلی اور غلط روایتیں ہیں !! جب کہ اس نے احادیث کا جواب دینے میں ان صحیح احادیث کو بھی ضعیف قرار دیدیا جن کو اس نے اپنی کتاب لکھتے وقت نقل کی تھیں اور ان کو صحیح بتایا تھا ، کیونکہ اس نے اپنی معلومات کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہی چیزوں پر اکتفاء کیا جو اس کے سینہ میں تھیں، جبکہ انسان بہت زیادہ بھولنے والا ہے ، اس نے رافضیوں کی توہین میں مبالغہ سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے وہ علی کی تنقیص کرتا ہے ، لیکن اس سوانح حیات میں ان سب کو واضح کرنے کی گنجائش نہیں ہے (١٢) (١٣) ۔
جواب : اولا : ابن تیمیہ نے اس حدیث کے جھوٹا ہونے پر حدیث کا علم رکھنے والوں کے متفق ہونے کا دعوی کس طرح کیا ، جبکہ اہل سنت کے بزرگ محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جیسے :
احمد بن حنبل (٢) ۔ نسائی (٢) ۔ ابن ابی شیبة (٣) ۔ ابن حبان (٤) ۔ طبرانی (٥) ۔ بزار (٦) ۔ ضیاء مقدسی (٧) ۔ حاکم نیشاپوری (٨) ۔ ابن ابی عاصم (٩) ۔ ابن ماجہ (١٠) ۔
ثانیا : ابن حبان ، حاکم نیشاپوری اور ضیاء مقدسی جیسے علماء نے صحیح سند کے ساتھ اس حدیث کے ذیل کو نقل کیا ہے یا اس کی سند کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔
ثالثا : ناصر الدین ا لبانی نے حدیث غدیر کو اس کے ذیل کے ساتھ کتاب «سلسلة الاحادیث الصحیحہ« میں نقل کیا ہے اور اس کی مختلف طرق سے تصحیح کی ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے : جب تم نے یہ بات جان لی تو یہ بھی سمجھ لو کہ اس حدیث کے متعلق قلم کو آزاد چھوڑنے اور اس حدیث کو صحیح بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حدیث غدیر کے ذیل کو تضعیف قرار دیا ہے اور اس نے خیال کیا کہ یہ جھوٹ ہے اور میری نظر میں یہ اس کے مبالغات میں سے ایک مبالغہ ہے جو احادیث کی تضیعف کرنے کی جلدبازی کی وجہ سے ہے ، اس نے حدیث کے طرق کو جمع کرنے اور اس میں غوروفکر کرنے سے پہلے یہ فیصلہ دیدیا (١١) ۔
یہی وجہ ہے کہ ابن حجر نے «لسان المیزان« میں ابن مطہر حلی (رحمة اللہ علیہ) کی سوانح حیات میں کہا ہے : میں نے ابن تیمیہ کو دیکھا کہ جب وہ ابن مطہر حلی کی نقل کردہ احادیث کا جواب دیتا ہے تو اس پر زبردست حملہ کرتا ہے اگر چہ ان میں سے اکثر و بیشتر جعلی اور غلط روایتیں ہیں !! جب کہ اس نے احادیث کا جواب دینے میں ان صحیح احادیث کو بھی ضعیف قرار دیدیا جن کو اس نے اپنی کتاب لکھتے وقت نقل کی تھیں اور ان کو صحیح بتایا تھا ، کیونکہ اس نے اپنی معلومات کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہی چیزوں پر اکتفاء کیا جو اس کے سینہ میں تھیں، جبکہ انسان بہت زیادہ بھولنے والا ہے ، اس نے رافضیوں کی توہین میں مبالغہ سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے وہ علی کی تنقیص کرتا ہے ، لیکن اس سوانح حیات میں ان سب کو واضح کرنے کی گنجائش نہیں ہے (١٢) (١٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.