مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : طبرانی نے جو روایت بارہ خلفاء کے مصادیق کے لئے بیان کی ہے کیا وہ روایت قابل قبول ہے؟
جواب : طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن عمرو سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے: ابوبکرصدیق وہ میرے بعد بہت کم مدت تک حکومت کریں گے اور پھر عمر بن خطاب....(۱) ۔
ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں :
اولا : یہ حدیث سند کے اعتبار سے غلط ہے کیونکہ اس کے رجال میں عبداللہ بن صالح ہے جس کو ذھبی نے ”تذکرہ“ میں حجت نہیں سمجھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں: عبداللہ بن صالح بہت سی احادیث کے منکر ہیں، عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے ان کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے کہا : عبداللہ بن صالح شروع میں صحیح تھے لیکن بعد میں اپنے عقیدے میں فاسد ہوگئے تھے ۔
صالح بن محمد کہتے ہیں: میری نظر میں وہ حدیث کو نقل کرنے میں جھوٹ بولتے تھے ۔ احمد بن صالح کہتے ہیں : وہ متہم ہیں ۔ نسائی کہتے ہیں : وہ ثقہ نہیں ہیں، ان پر بہت سے اعتراض ہیں، ابن حبان کہتے ہیں: وہ منکر الحدیث ہے ۔
اس حدیث کے راویوں میں سے ایک لیث بن سعد ہے جس پر منصور عباسی ، ظالم و جابر بادشاہ اور آگ بھڑکانے والا عباسی بادشاہ اعتماد کرتا تھا اور اس نے اہل مصر کے دلوں سے اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کم کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے ۔
ثانیا : اس حدیث میں تینوں خلفاء میں سے عثمان کی ایسی تعبیرات کے ساتھ تعریف کی ہے جو خارجی واقعیت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں ۔
ثالثا : دوسری روایات میں مراجعہ کرنے سے جو کہ اہل سنت کی روایات میں بھی موجود ہیں ، استفادہ ہوتا ہے کہ یہ بارہ خلفاء ، رسول خدا کی ذریت میں سے ہیں ان روایات میں صریح طور پر ان کے نام بیان ہوئے ہیں ۔
حموینی نے ”فرائد السمطین“ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک یہودی شخص جس کا نام نعثل تھا ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا محمد !میں آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں جو ایک مدت سے میرے سینہ میں چھپا ہوا ہے ، اگرآپ نے اس کا جواب دیدیا تو ایمان لے آؤں گا ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سے فرمایا: اے ابوعمارہ سوال کرو ۔ اس نے یہ سوال کیا: مجھے اپنے وصی کے بارے میں خبر دو کہ وہ کون ہیں؟ کیونکہ تمام انبیاء کا کوئی نہ کوئی وصی رہا ہے اور یقینا ہمارے نبی موسی بن عمران نے یوشع بن نون کو وصیت کی تھی ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ” یقینا میرے وصی علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد میرے دو نواسے حسن اور حسین ہیں، اور ان دونوں کے بعد حسین کے صلب سے نو امام پے در پے ہوں گے ۔
اس نے عرض کیا: یا محمد ! ان کے نام مجھے بتاؤ۔
حضرت نے فرمایا: حسین کے بعد ان کے بیٹے علی ، ان کے بعد ان کے بیٹے محمد، ان کے بعد ان کے بیٹے جعفر، ان کے بعدان کے بیٹے موسی، ان کے بعد ان کے بیٹے علی ان کے بعد ان کے بیٹے محمد، ان کے بعد ان کے بیٹے علی، ان کے بعد ان کے بیٹے حسن اور ان کے بعد ان کے بیٹے حجت ، محمد مہدی امام ہوں گے، یہ بارہ افراد ہوں گے (۲) ۔ (۳) ۔
__________________
۱۔ المعجم الکبیر، ج۱، ص ۷، ح ۱۲۔
۲۔ المعجم الکبیر، ج۱، ص ۷، ح ۱۲۔
۳۔ علی اصغر رضوانی،امام شناسی و پاسخ بہ شبھات (۲)، ص ۲۸۱۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.