مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس روحانی دعوت اور دینی مساعدت کی کتاب و سنت نے تشویق و ترغیب دلائی ہے شعر و نظم کے ذریعہ مذہب کے لئے جہاد ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی رائج تھا ،معاشرہ کے لوگوں کے دل اہل بیت کے شعراء کے اشعار سے نرم ہوجاتے تھے اور وہ ان کو بہت ہی آرام سے سنتے تھے اور متاثر ہوتے تھے ۔
شعراء بہت دور و دراز سے اپنے مذہبی اشعار لے کر ائمہ کی خدمت میں آتے تھے اور ائمہ بھی ان کا بہت اچھا استقبال کرتے تھے ،خوشروئی کے ساتھ ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے اور شعرخوانی کاجلسہ تشکیل دیتے تھے ،ان کے لئے دعاء کرتے تھے ، مختلف قسم کے تحفے اور ہدیے ان کو عطا کرتے تھے اور اگر ان کے اشعار میں کوئی نقص ہوتا تھا تو ان کی ہدایت کرتے تھے ،اسی وجہ سے اس زمانہ میں شعر اور شعراء نے بہت زیادہ رشد کیا اور بہت سے علوم و فنون ان سے متاثر ہوئے ۔
حامیان دین (اہل بیت وحی (علیہم السلام) کے نزدیک شعر اور شعراء کی بہت زیادہ اہمیت تھی ،یہاں تک کہ شعر پڑھنے کی مجلس قائم کرنے ،اس میں شرکت کرنے اور ان کوسننے کے لئے اپنے وقت کو صرف کرنے کو عبادت شمار کیا گیا ہے اور کبھی کبھی ان کو دعاء اور عبادت پر مقدم کیا گیا ہے جیسا کہ جب ایام تشریق میں منی میں کمیت کے وارد ہونے پر ان کے ہاشمیات کو سننے کے متعلق امام صادق (علیہ السلام) کے قول اور رفتار سے معلوم ہوتا ہے ، اس نے امام (علیہ السلام) سے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں اجازت دیجئے تاکہ میں کچھ اشعار پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا : یہ ایام بہت بزرگ ایام ہیں ۔
انہوں نے عرض کیا : یہ اشعار آپ کی شان میں ہیں ، جس وقت امام (علیہ السلام) نے یہ سنا تو اپنے ساتھیوں کے پاس کسی کو بھیجا اوران کو اپنے پاس بلایا اور کمیت سے فرمایا : پڑھو ، اور انہوں نے ”لامیہ ہاشمیات“ کو پڑھا ، آپ نے ان کے لئے دعاء کی ،ایک ہزار دینار اور کچھ کپڑے ان کو ہدیہ کئے ۔
اجتماعی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ائمہ علیہم السلام مذہبی شاعر کی ذاتی خصوصیات اور کاموںسے چشم پوشی کرتے تھے اور اگر ان سے کوئی نازیبا حرکت دیکھتے جس سے آپ کو رنج و غم ہوتا تھا تو جب تک آپ دیکھتے تھے کہ وہ امت کی مصلحت کے متعلق قدم اٹھا رہا ہے اور ولایت کا پابند ہے اور اس کے ذریعہ حق آشکار ہورہا ہے اور جب تک آپ وہ ثابت نہیں ہوجاتا تھا (۱) اس وقت تک ان کو اپنی بزرگواری کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے تھے ، ان کے غلط کاموں کی خدا سے مغفرت کی دعاء کرتے تھے اوراپنی باتوں سے اہل دین کی محبت اور عواطف کو ان کے لئے جلب کرتے تھے ۔
آپ فرماتے تھے : ”لا یکبر علی اللہ ان یغفر الذنوب لمحبنا و مادحنا“ ۔ (خداوند عالم کے لئے سخت اور ناگوار نہیں ہے کہ وہ ہمارے دوستوں اور ہماری تعریف کرنے والوں کو معاف کردے) (۲) ۔ ” ایعز علی اللہ ان یغفر الذنوب لحب علی ؟!“ (۳) (کیا خداوند عالم کے لئے سخت ہے کہ وہ علی کے چاہنے والوں کے گناہوں کو بخش دے) ۔ ”فما ذنب علی اللہ ان یغفرہ لآل علی ، ان محب علی لاتزل لہ قدم الا تثبت لہ اخری“ (۴) (خدا کیلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان کو آل علی کی وجہ سے بخش دے ،یقینا علی کے چاہنے والوں کے ایک پیر میں اگر لغزش نہیں آجاتی ہے تو دوسرا پیر ثابت ہوجاتا ہے ۔ اور معاشرہ کی مصلحت اسی میں ثابت ہے ، ہماری موت و زندگی اسی پر ثابت ہے ۔ (۵) ۔
شعراء بہت دور و دراز سے اپنے مذہبی اشعار لے کر ائمہ کی خدمت میں آتے تھے اور ائمہ بھی ان کا بہت اچھا استقبال کرتے تھے ،خوشروئی کے ساتھ ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے اور شعرخوانی کاجلسہ تشکیل دیتے تھے ،ان کے لئے دعاء کرتے تھے ، مختلف قسم کے تحفے اور ہدیے ان کو عطا کرتے تھے اور اگر ان کے اشعار میں کوئی نقص ہوتا تھا تو ان کی ہدایت کرتے تھے ،اسی وجہ سے اس زمانہ میں شعر اور شعراء نے بہت زیادہ رشد کیا اور بہت سے علوم و فنون ان سے متاثر ہوئے ۔
حامیان دین (اہل بیت وحی (علیہم السلام) کے نزدیک شعر اور شعراء کی بہت زیادہ اہمیت تھی ،یہاں تک کہ شعر پڑھنے کی مجلس قائم کرنے ،اس میں شرکت کرنے اور ان کوسننے کے لئے اپنے وقت کو صرف کرنے کو عبادت شمار کیا گیا ہے اور کبھی کبھی ان کو دعاء اور عبادت پر مقدم کیا گیا ہے جیسا کہ جب ایام تشریق میں منی میں کمیت کے وارد ہونے پر ان کے ہاشمیات کو سننے کے متعلق امام صادق (علیہ السلام) کے قول اور رفتار سے معلوم ہوتا ہے ، اس نے امام (علیہ السلام) سے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں اجازت دیجئے تاکہ میں کچھ اشعار پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا : یہ ایام بہت بزرگ ایام ہیں ۔
انہوں نے عرض کیا : یہ اشعار آپ کی شان میں ہیں ، جس وقت امام (علیہ السلام) نے یہ سنا تو اپنے ساتھیوں کے پاس کسی کو بھیجا اوران کو اپنے پاس بلایا اور کمیت سے فرمایا : پڑھو ، اور انہوں نے ”لامیہ ہاشمیات“ کو پڑھا ، آپ نے ان کے لئے دعاء کی ،ایک ہزار دینار اور کچھ کپڑے ان کو ہدیہ کئے ۔
اجتماعی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ائمہ علیہم السلام مذہبی شاعر کی ذاتی خصوصیات اور کاموںسے چشم پوشی کرتے تھے اور اگر ان سے کوئی نازیبا حرکت دیکھتے جس سے آپ کو رنج و غم ہوتا تھا تو جب تک آپ دیکھتے تھے کہ وہ امت کی مصلحت کے متعلق قدم اٹھا رہا ہے اور ولایت کا پابند ہے اور اس کے ذریعہ حق آشکار ہورہا ہے اور جب تک آپ وہ ثابت نہیں ہوجاتا تھا (۱) اس وقت تک ان کو اپنی بزرگواری کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے تھے ، ان کے غلط کاموں کی خدا سے مغفرت کی دعاء کرتے تھے اوراپنی باتوں سے اہل دین کی محبت اور عواطف کو ان کے لئے جلب کرتے تھے ۔
آپ فرماتے تھے : ”لا یکبر علی اللہ ان یغفر الذنوب لمحبنا و مادحنا“ ۔ (خداوند عالم کے لئے سخت اور ناگوار نہیں ہے کہ وہ ہمارے دوستوں اور ہماری تعریف کرنے والوں کو معاف کردے) (۲) ۔ ” ایعز علی اللہ ان یغفر الذنوب لحب علی ؟!“ (۳) (کیا خداوند عالم کے لئے سخت ہے کہ وہ علی کے چاہنے والوں کے گناہوں کو بخش دے) ۔ ”فما ذنب علی اللہ ان یغفرہ لآل علی ، ان محب علی لاتزل لہ قدم الا تثبت لہ اخری“ (۴) (خدا کیلئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان کو آل علی کی وجہ سے بخش دے ،یقینا علی کے چاہنے والوں کے ایک پیر میں اگر لغزش نہیں آجاتی ہے تو دوسرا پیر ثابت ہوجاتا ہے ۔ اور معاشرہ کی مصلحت اسی میں ثابت ہے ، ہماری موت و زندگی اسی پر ثابت ہے ۔ (۵) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.