مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال :عمروعاص کون تھا؟
جواب : عمرو عاص بن وائل بن ہاشم کا شمار عرب کے پانچ سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔ فتنے اسی پر شروع ہوتے ہیں اور اسی پر ختم ہوجاتے ہیں ،یہ شرارت اور فتنہ انگیزی میںمشہور ہے ، اس کے فریب اور دھوکے بہت سی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں، تاریخ اور سیرت کی کتابوں نے اس کے آثار کو بیان کیا ہے ، اگر ظلم و ستم ، فساد اور بربادی کے متعلق بات کرنا چاہو تو عمروعاص کے بارے میں بات کرسکتے ہو اور جو بھی کہو گے وہ کم نہیں ہوگا ، جی ہاں یہ پست اور نطفہ نا تحقیق اسی انہی کلمات کے لایق ہے (۱) ۔ بہر حال ہم اس کی زندگی کے حالات کو مختلف وجوہات کی بناء پر بیان کریں گے ۔
عمرو عاص کا حسب و نسب
اس کا باپ وہی ہے جس کو قرآن مجید نے صریح طور پر” ابتر“ کہا ہے : ”ان شانئک ھو الابتر“ (۲) ۔ (جان لو) یقیناآپ کا دشمن نسل بریدہ اور ابتر ہے!۔ اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین اور علماء کا نظریہ یہی ہے (۳) ۔
اگر چہ بعض تفاسیر میں اس آیت سے مصداق عمروعاص کا باپ، ابوجہل، ابولہب، عقبہ، بن ابی معیط اور دوسرے افراد بھی بیان کئے گئے ہیں، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحیح قول وہی ہے جس کو فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے ، انہوں نے کہا ہے: جن کے نام اوپر بیان کئے گئے ہیں ان سب نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو برا کہا ہے لیکن عاص بن وائل (عمرو عاص کے باپ) نے سب سے زیادہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی توہین کی ہے ، اس بناء پر یہ آیہ کریمہ ان سب کو شامل ہے ، لیکن آیت میں جو حقارت اور پستی بیان ہوئی ہے وہ خاص تاکید کے ساتھ اس لعین سے مخصوص ہے ، اسی وجہ سے مفسرین کے درمیان مشہور ہوگیا ہے کہ اس آیت سے مراد عاص بن وائل ہے ۔
بزرگ تابعی سلیم بن قیس ہلالی نے اپنی کتاب میں روایت کی ہے :
اس آیت سے مراد عاص بن وائل ہے ، اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سرزنش کی ہے ، جب آپ کے بیٹے ابراہیم کاانتقال ہوا تو اس نے کہا : محمد ابتر ہوگئے ہیں اور اب ان کی کوئی نسل نہیں ہے (۴) ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے : عاص بن وائل سے جس بچے کو بھی نسبت دی گئی ہے چاہے وہ عمروعاص ہو یا کوئی دوسرا بچہ وہ حلال زادہ نہیں ہے اور عمروعاص کی فضیلت حسب و نسب کے اعتبار سے یہیں سے معلوم ہوجاتی ہے ، اس کے علاوہ اس کی ماں ”لیلای عنزیہ جلانیہ“ ہے ۔
اس کی ماں لیلا مکہ میں مشہور ترین بدکارہ تھی ، وہ بدکاری کے لئے سب سے کم پیسہ لیتی تھی ، اس نے جب عمروعاص کو جنم دیا تو پانچ لوگوں نے جنہوں نے اس سے ہمبستری کی تھی عمروعاص کا باپ ہونے کا دعوی کیا ، لیکن چونکہ عمروعاص ، عاص سے زیادہ مشابہ تھا اور یہ لیلا کو پیسہ بھی زیادہ دیتا تھا اس لئے لیلا نے اس کو عاص سے نسبت دی اور عمرو کو عاص سے ملحق کردیا ۔ اروی بنت حارث بن عبدالمطلب جس وقت معاویہ کے پاس گئیں تو آپ نے یہ داستان بیان کی (۵) ۔
حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے ایک مجلس میں جس میں معاویہ اور دوسرے لوگ موجود تھے، عمروعاص سے فرمایا: اما انت یا بن العاص فان امرک مشترک ، وضعتک امک مجھولا من عھر و سفاح، فتحاکم فیک اربعة من قریش، فغلب علیک جزارھا ، الامھم حسبا، و اخبثھم منصبا، ثم قام ابوک فقال : انا شانی محمد الابتر، فانزل اللہ فیہ ما انزل۔ لیکن تو ے عاص کے بیٹے ! تیرا حسب و نسب مشترک ہے ، تیری ماں نے زنا اور دوسروں کے ساتھ ناجائز طریقہ سے ہمبستری کے ذریعہ تجھے جنم دیا ، قریش(۶) سے چار لوگوں نے تیرے باپ ہونے کا دعوی کیا تھااور آخر کار جانوروں کی کھال اتارنے والا اور دنیا کا سب سے پست اور ذلیل انسان تیرا باپ بن گیااس کے بعد تیرا باپ کھڑا ہوا اور کہا : میں وہ ہوں جو محمد کے بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سرزنش کرتا ہوں ۔ اور خداوند عالم نے اس کے سلسلہ میں یہ آیت نازل فرمائی (۷) ۔
ابوعبیدہ معمر بن مثنی (متوفی ۲۰۹۔۲۱۱) نے کتاب الانساب میں روایت کی ہے:
عمرو کی ولادت کے روز عمرو کے متعلق دو آدمی آپس میں لڑرہے تھے : ابوسفیان اور عاص بن وائل۔ سب نے کہا تم چپ رہو اور اس کے متعلق اس کی ماں کو فیصلہ کرنے دو،اس کی ماں نے کہا : یہ بچہ عاص بن وائل کا ہے ۔ ابوسفیان نے کہا : مجھے شک نہیں ہے کہ میں نے خود اس بچہ اس کی ماں کے رحم میں رکھا ہے لیکن اس کی ماں نے قبول نہیں کیا اور عاص کا انتخاب کیا ۔ جب اس سے کہا گیا: ابوسفیان کا حسب و نسب اس سے شریف ہے ! اس نے جواب دیا : عاص بن وائل ، پیسہ اور خرچ اس سے زیادہ دیتا ہے اور ابوسفیان بخیل ہے (۸) ۔ مورخین کی نظر میں صحیح قول یہ ہے کہ وہ شب عیدفطر (۴۳) میں پیدا ہوا اور تقریبا ۹۰ سال زندہ رہا ، عجلی نے اس کی عمر ۹۹ سال لکھی ہے ۔
یعقوبی نے اپنی تاریخ (۹) میں لکھا ہے :
جب عمرو کی موت کا وقت نزدیک ہوا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا: ”لود ابوک انہ کان مات فی غزاة ذات السلاسل، انی قد دخلت فی امور لا ادری ما حجتی عنداللہ فیھا ۔ ثم نظر الی مالہ فرای کثرتہ ، فقال : یا لیتہ کان بعرا، یا لیتنی مت قبل ھذا الیوم بثلاثین سنة، اصلحت لمعاویة دنیاہ و افسدت دینی، آثرت دنیا یوترکت آخرتی ، عمی علی رشدی حتی حضرتی اجلی، کانی بمعاویة قد حوی مالی و اساء فیکم خلافتی“۔ کاش کہ تمہارا باپ جنگ ذات السلاسل (۱۰) میں مرگیا ہوتا میں نے ایسے غلط کام انجام دئیے کہ نہیں معلوم خدا کے نزدیک میں کیا عذر پیش کروں ۔ اس کے بعد اس نے اپنے بہت زیادہ مال کی طرف نظر کی اور کہا : اے کاش میرا یہ مال و دولت اونٹ کی لید ہوتی ، اے کاش تیس سال پہلے مرگیا ہوتا ۔ میں نے معاویہ کی دنیا آباد کی اور اپنے دین کو فاسد کرلیا ،دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ، اپنی ہدایت سے اندھا ہوگیا تھا اب جب کہ میری موت کا وقت نزدیک آگیا ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ معاویہ میرے مال ودولت کو مجھ سے چھین رہا ہے اور میرے بعد تم لوگوں کے ساتھ غلط سلوک کرے گا(۱۱) ۔
۱۔ ”فالبغل نغل و ھو لذلک اھل“ عربی کا ایک محاورہ ہے اس شخص کے لئے جس کا باپ بہت ہی زیادہ خراب ، ناپاک اور بدکردار ہو ۔ ”بغل“ کے معنی گدھے اور خچرکے ہیں، یعنی گدھے اورخچر کی اولاد۔ ”نغل“ کے معنی فساد کے ہیں ۔ ”فلان نغل“ یعنی اس کا حسب و نسب خراب اور وہ زنازادہ ہے ۔ ( مجمع الامثال ، ج ۱، ص ۱۸۵، شمارہ ۵۳۳۔
۲۔ سورہ کوثر، آیت ۳۔
۳۔ رجوع کریں: طبقات ابن سعد ، ج ۱، ص ۱۱۵ (ج ۱، ص ۱۳۳) ۔ والمعارف ابن قتیبہ ، ص ۱۲۴ (ص ۲۸۵) ۔ تاریخ ابن عساکر، ج ۷، ص ۳۳۰ (ج ۱۳، ص ۴۹۳) ۔ مختصر تاریخ دمشق ، ج ۱۹، ص ۲۳۲۔
۴۔ کتاب سلیم بن قیس ، ج ۲، ص ۷۳۷ ، ح ۲۲۔
۵۔ بلاغات النساء ، ج ۲۲، ص ۴۳۔ العقد الفرید، ج ۱، ص ۱۶۴ (ج ۱، ص ۲۲۵) ۔ روض المناظر، ج ۸، ص ۴، ج ۱، ص ۲۲۹۔ (۶۰ ہجری کے واقعات) ۔ ثمرات الاوراق ج ۱، ص ۱۳۲ (ص ۱۵۲) ۔ دائرة المعارف، فرید وجدی ج ۱، ص ۲۱۵۔ جمھرة الخطب ج ۲ ، ص ۳۶۳ (ج ۲ ص ۳۸۲)، شمارہ ۳۷۰) ۔
۶۔ کلبی اور سبط بن جوزی کے کلام (تذکرة الخواص ، ص ۲۰۱) میں پانچ افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔
۷۔ اس مختصر حدیث کو اس گفتگو سے لیا گیا ہے جس میں حضرت امام حسن بن علی (علیہما السلام) عمرو عاص، ولید بن عقبہ ، عتبہ بن ابی سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کے درمیان معاویہ کی مجلس میں بہت زیادہ بدگوئی ہوئی تھی ۔ اس حدیث کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج ۲، ص ۱۰۱ (ج ۶ ، ص ۲۹۱خطبہ ۸۳) میں زبیر بن بکار کی کتاب مفاخرات سے نقل کیا ہے ۔ سبط بن جوزی نے التذکرہ ص ۱۱۴ (ص ۲۰۱) میں اس کو بیان کیا ہے ۔
۸۔ شرح ابن ابی الحدید ج ۲، ص ۱۰۱، (ج ۶، ص ۲۸۵، خطبہ ۸۳) ۔
۹۔ تاریخ یعقوبی ج ۲، ص ۱۹۸ (ج ۲، ص ۲۲۲) ۔
۱۰۔ آٹھویں ہجری میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک گروہ کو عمروعاص کی سربراہی میں جنگ ذات السلاسل کے لئے بھیجا ،اس کے بعد ایک گروہ کو جس میں ابوبکر اور عمر بھی موجود تھے ابوعبیدہ کی سرکردگی میں عمروعاص کی مدد کے لئے بھیجا ، سب کے سب عمروعاص کے پرچم کے نیچے جمع ہوگئے لیکن کوئی کام انجام نہ دے سکے ۔ اس کے بعد کئی مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسروں کی سرکردگی میں لشکر بھیجے لیکن سب ناکام رہے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو جنگ ذات السلاسل کے لئے بھیجا اور آپ نے دشمن کے لشکر کو شکست دی جس کے بعد سورہ عادیات نازل ہوا ۔
اس جنگ کو ذات السلاسل اس لئے کہتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے دشمن کو بہت بری شکست دی ، بعض کو قتل کردیا اور ایک گروہ کو اسیر کرلیا اور اسیروں کو رسی سے اس طرح باندھا جیسے طوق و زنجیر(سلاسل) میں باندھا ہو (رجوع کریں: کنزالعمال، ج ۱۰ ص ۵۶۴۔ شرح مسلم، نووی ج ۱۵، ص ۱۵۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۶، ص ۴۱ و ۴۲۔ تفسیر مجمع البیان ج ۱۰، ص ۴۲۲۔ بحارالانوار ج ۲۱، ص ۶۶) ۔
۱۱۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر ، ص ۱۶۹۔
رجال ۔ عمرو عاص
عمروعاص کا اسلام قبول کرنا
سوال : عمروعاص کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ کیا ہے؟
جواب : تاریخ میں عمرو عاص کی زندگی کے تمام نشیب و فراز کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اسنے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کیا بلکہ وہ صرف مسلمان ہونے کو ظاہر کرتا تھا اور اس ریاکاری کی وجہ وہ واقعہ ہے جو حبشہ میں اس کے ساتھ پیش آیا ۔ عمروعاص ، عمارہ بن ولید کے ساتھ جعفر اور ان کے ساتھیوں کو پکڑنے کیلئے جن کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حبشہ بھیجاتھا، حبشہ میں داخل ہوا اور وہاں پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت ، آپ کی ترقی اور اسلام کے پھیلنے کی خبریں اس کو ملی ۔ دوسری طرف حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اس کی درخواست کو رد کرتے ہوئے کہا : کیا تم مجھ سے چاہتے ہو کہ میں اس شخص کے بھیجے ہوئے انسان کو جس پر اکبر (جبرئیل) کی ناموس نازل ہوتی ہے جس طرح حضرت موسی پر نازل ہوتی تھی ، تیرے حوالہ کردوں تاکہ تو اس کو قتل کردے؟ عمرو نے پوچھا: اے بادشاہ کیا وہ واقعا ایسے ہی ہیں؟ بادشاہ نے جواب دیا تھا: تجھ پر خدا کی لعنت ہو اے عمرو! میری بات کو قبول کرتے ہوئے ان کی اطاعت کر! خدا کی قسم یقینا وہ برحق ہیں، اور یقینا وہ اپنے تمام مخالفین پر غالب ہوں گے جس طرح حضرت موسی (علیہ السلام) ، فرعون اور اس کے لشکر پر غالب آگئے تھے (۱) ۔
یہ تمام باتیں عمرو کو مجبور کرتی تھیں کہ اسلام کو ظاہر کرکے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نزدیک ہوجائے ، اسی وجہ سے وہ حبشہ سے مکہ واپس آیا کیونکہ اس کو عہدہ کا لالچ تھا ، یا وہ چاہتا تھا کہ اسلام کے بعد عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے ، یا وہ چاہتا تھا کہ مشرکین پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حکومت آنے کے بعد الہی عذاب سے محفوظ رہے ، خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے عمروعاص کو اس کی پوری زندگی میں اسلام ظاہر کرتے ہوئے دیکھا اور یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ وہ اس مدت میں بھی بغیر کسی تبدیلی کے ویسا ہی تھا جیسے اس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بدگوئی میں ستر بیت کا قصیدہ کہا تھا ، امیر المومنین علی (علیہ السلام) نے اس کے متعلق فرمایا : ”متی ما کان للفاسقین ولیا، وللمسلمین عدوا ؟ و ھل یشبہ الا امہ التی دفعت بہ“ (۲) ۔ عمروعا ص کس وقت فاسقوں کی مدد کرنے والا اور مسلمانوں کا دشمن نہیں رہا؟کیا وہ اپنی ماں کے علاوہ کسی اور سے مشابہ ہے؟!
وہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے اس کلام کا مصداق ہے : ” والذی فلق الحبة وبراٴ النسمة، ما اسلموا و لکن استسلموا ، و اسروا الکفر، فلما وجدوا اعوانا ، رجعوا الی عدواتھم منا“ (۳) ۔ اس خدا کی قسم جو زمین میں دانہ کو پیدا کرتا ہے اور مخلوق کو خلق کرتا ہے ، انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ یہ اسلام لانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ، اپنے کفر کو چھپاتے ہیں اور جب ان کو مدد کرنے والے مل جاتے ہیں تو پھر کھلے عام ہماری دشمنی کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
ابن ابی الحدید نے ”نہج البلاغہ کی شرح“ (۴) میں لکھا ہے :
ہمارے استاد ابوالقاسم بلخی (رحمة اللہ علیہ) نے عمروعاص اور معاویہ کی گفتگو کو نقل کیا ہے وہ اس طرح تحلیل کرتے تھے : جس وقت معاویہ نے عمروعاص سے کہا: اے ابوعبداللہ ! مجھے پسند نہیں ہے کہ لوگ تیرے بارے میں کہیں کہ تو نے دنیوی اہداف کی وجہ سے اسلام قبول کیا ہے ۔ عمروعاص نے جواب دیا : اے معاویہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ! یہ گفتگو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عمروعاص کافر تھا اوراس کی بات کے معنی یہ ہیں کہ ان باتوں کو چھوڑ دو جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ آخرت حق ہے اور اس کو دنیا کے قلیل سامان کے سامنے مت بیچو ، سب خرافات ہے ۔ عمروعاص اپنی پوری زندگی میں ملحد وکافر تھا اور اس نے کبھی بھی اپنے کفر و الحاد میں شک نہیں کیااو رمعاویہ بھی اسی کے جیسا تھا ۔
ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ لکھا ہے : ہمارے استاد ابوعبداللہ کہتے تھے : جو لوگ سب سے پہلے ارجاء محض کے قائل ہوئے وہ معاویہ اور عمروعاص تھے ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ ان کو نقصان نہیں پہنچائے گا ، اسی وجہ سے معاویہ نے اس شخص کے جواب میں کہا تھا جس نے کہا : اے معاویہ کیا تو جانتا ہے کہ تو نے کس سے جنگ کی ہے اور تو نے کس گناہ کا ارتکاب کیا ہے، معاویہ نے جواب دیا : میں خداوند عالم کے اس قول” ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا“ پراطمینان رکھتا ہوں ۔
اسی طرح ابن ابی الحدید نے دوسری جگہ لکھا ہے :
معاویہ ، فاسق، بے دین او راسلام سے منحرف تھا ،اس کا یارو مددگار عمروعاص بھی اسی کے جیسا تھا اور شام کے تمام پست ، ذلیل، تندخو اورمغرور لوگ جو ان دونوں کی پیروی کرتے تھے وہ سب ان دونوں کی طرح تھے وہ سب لوگ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ جنگ کرنا جائز اور ان کو قتل کرنا حلال ہے اس کے باوجود ان دونوں کی پیروی کرتے تھے ۔
اس متعلق معتبر کتابوں میں بہت سے مطالب بیان ہوئے ہیں جو عمروعاص کی حقیقت کو قارئین کے سامنے واضح کردیتے ہیں اور اس کے تمام نواقص و عیوب کو ظاہر کردیتے ہیں (۶)، (۷) ۔
۱۔ سیرہ ابن ہشام 3: 319 (3/289 ) اور بہت سی دوسری کتابیں جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سیرت اور تاریخ کے سلسلہ میں لکھی گئی ہیں ۔
۲۔ تذکرة خواصّ الاُمّة: 56 (ص 97); السیرة الحلبیّة (3/20) اور دوسری کتابیں ۔
۳۔ مراجعہ کریں : وقعة صفّین، ابن مزاحم: 110.
۴۔ شرح نهج البلاغه 1: 137 و 114; و 2: 179 (2/65، خطبه 26; 6/321 و 325، خطبه 83; 7/58، خطبه 92).
۵۔ سورہ زمر ، آیت ۵۳۔
۶۔ مولف نے عربی محاورہ ”تخبرہ یعجرہ و بجرہ “ (اس کی کمر اور پیٹ کی ٹیڑھی رگوں کی خبر دیتا ہے) سے استفادہ کیا ہے ، یہ محاورہ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جس میں تمام عیوب پائے جاتے ہیں ۔ (مجمع الأمثال 1/420، شماره 1258).
۷۔ شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 171.
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.