مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوال : خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟
جواب : لغت کی کتابوں میں بیان ہوا ہے : ” خلف فلان فلانا فی اھلہ ، اذا قام بموْونتھم“ فلاں شخص اس کے خاندان میں سے اس کا جانشین ہوگیا“۔ یہ لفظ اس وقت بولاجاتا ہے جو اس کے وظایف کو انجام دینے کا اہل ہو ۔ اور خلیفہ اس اس شخص پر ا طلاق ہوتا ہے جو کسی کا جانشین ہو تاکہ اس کے اوامر کو انجام دے سکے، اور خلافت ، غیر کی نیابت کے معنی میں ہے یا اس کے غایب ہونے ، یا اس کے مرجانے یا اس کے عاجز ہونے کی وجہ سے اپنا جانشین بنائے (۱) ۔
قرآن و حدیث میں لفظ خلیفہ اگر تنہا استعمال ہو تو اس کے معنی الہی خلافت کے سمجھے جاتے ہیں، خداوند عالم فرماتا ہے : ” انی جاعل فی الارض خلیفة“ (۲) بیشک میں زمین پر اپنا خلیفہ بناؤں گا“ دوسری جگہ فرماتا ہے : ” یا داؤد انا جعلناک خلیفة فی الارض“ (۳) اے داؤد یقینا ہم زمین پر تمہیں اپنا خلیفہ بنائیں گے ۔
شارع اور متشرعہ کی تعبیر میں لفظ خلافت کو ایک خاص قداست حاصل ہے ، ان کی اصطلاح میں لفظ خلافت میںجلال وجمال اور عظمت پائی جاتی ہے ،دینی اصطلاح میں رسول خد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا خلیفہ اس شخص کو کہتے ہیں جو خیر ، عدل اور انسانی حیثیت کی بنیاد پر حکم کرے کیونکہ اس کی حکومت وسلطنت خداوندعالم کی حکومت و سلطنت سے مربوط ہے ۔ خلیفہ ، خداوندعالم کے بنائے ہوئے قانوں کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ہے ،حق، عدل سے دفاع کرنا اس کی ذمہ داری ہے ،نفوس کی تہذیب اور کتاب و سنت پر عمل کرنا اس کی ذمہ داری ہے ، جو بھی اس طور طریقہ سے خارج ہوگا وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا ،لفظ امیر،حاکم اور سلطان کے برخلاف کہ یہ معنی ان الفاظ میں نہیں پائے جاتے ۔
اسی وجہ سے مذہب امامیہ کاعقیدہ یہ ہے : خلافت،الہی عہدہ ہے اور یہ خداوندعالم کی نیابت ہے جو خداوندعالم کی طرف سے بنائے بغیر ممکن نہیںہے ،اس بات پر عقل کے علاوہ قرآن کریم اور احادیث شریف شاہد ہیں، خداوندعالم فرماتا ہے : ”انی جاعل فی الارض خلیفة“ ۔ ”یاداؤداناجلناک خلیفة فی الارض“۔ حضرت موسی (علیہ السلام) سے خطاب کرکے فرماتا ہے : ” و جعلناھم ائمة“ ۔ ان آیات میں خداوندعالم،امامت اور خلافت کی قراردینے کی نسبت اپنی طرف دے رہا ہے اوراپنا حق بتارہا ہے ۔
ابن ہشام نے نقل کیا ہے : ” بنی عام بن صعصہ ، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی خدمت میںپہنچے توآنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کو خداوندعالم کیطرف دعوت دی اور اپنی رسالت کوان کے سامنے پیش کیا ۔ بحیرہ بن فراس نامی ایک شخص نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : ہمیںیہ بتاؤکہ اگر ہم اسلام پر تمہاری بیعت کرلیں اور پھر تم اپنے دشمنوںپرغالب ہوجاؤ تو کیا تمہارے بعد خلافت میں ہمارا کوئی حق ہوگا؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : خلافت ،امامت اورجانشینی خداوندعالم کے ہاتھ میںہے اور وہ جس کو چاہتا ہے اس کو عطا کردیتا ہے (۴) ۔
یہ بات کہ لفظ خلیفہ جب بھی قرآن اور احادیث میں بغیراضافت کے استعمال ہوتا ہے تو اس مرادخلافت الہی ہوتی ہے ، اس بات پر دوسری روایتیں بھی دلالت کرتی ہیں، کیونکہ بعض شیعہ اوراہل سنت کی احادیث میں امام مہدی (علیہ السلام) کے سلسلہ میںملتا ہے: ” انہ خلیفةاللہ“ (۵) یقینامہدی ، خداوندعالم کے خلیفہ ہیں“(۶) ۔
___________________
۱۔ کتاب العین، مادہ خلف، جمھرة اللغة، ج ۴،ص۲۶۵۔ لسان العرب ، ج ۹، ص ۸۲۔ مفردات راغب، ص ۱۵۶۔
۲۔ سورہ بقرة ، آیت ۳۰۔
۳۔ سورہ ص،آیت ۲۶۔
۴۔ سیرةابن ہشام،ج۲، ص ۳۲۔ تاریخ طبری، ج۲، ص ۸۴۔ سیرت حلبی، ج ۲،ص ۳۔
۵۔ سنن ابن ماجہ، ج۲،ص۵۱۹۔ مسند احمد ، ج۵، ص ۲۷۷۔
۶۔ علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات(۲) ، ص ۲۶۹۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.