تقیّہ کا حُکم تکلیفی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
اسلام کی سپر تقیہ
احاد یث تقیَّةتقیّہ کے لغوی اور اصطلا حی معنیٰ

تقیّہ کا حُکم تکلیفی


اصحاب آئمہ(علیه السلام) کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ تقیّہ کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ۔حرام ۔ مستحب ۔مکروہ ۔ اورمباح ۔ہماری تحقیق بھی اس کی تائید کر تی ہے ۔
ہم اپنی کتاب کا آغاز جو ازتقیّہ سے کرتے ہیں . ااس کے بعد اس کی حرست اور پھر استحباب و کراہت کو بیان کریں اس میں کو ئی شک نہیں کہ بعض موقو ں پر تقیّہ جائز ہے جس کی دلیل اجماع وآیات قرآن کے علا وہ احادیث متواتر ہ اور عقل سلیم ہیں ہم آیات کا ذکر کرتے ہیں ........چنانچہ سورة آل عمران میں ارشاد ربّ العزت ہے ۔لایتخذ المئو منون الکا فرین او لیاء من د ون المئو منین ومن یفل ذالک فلیس من اللہ فی شئی الّا ان تتقو منہم تقاة ویحذ رکم اللّہ فقہ والی اللّہ المصیر ۔ آیت ص ۲۸
ترجمہ :۔
مومن مومنو ں کو چھوڑ کر کافروں کو ولی نہ بنائیں جو بھی ایسا کرے گا اس کا خداسے کوئی رابط نہ ہو گا ۔لیکن اگر ان سے خطرہ لا حق ہو تو ایسا کر سکتے ہیں (یعنی تقیّہ کرتے ہوئے ان کو دوست بناسکتے ہیں ۔اور ان سے مدد لے سکتے ہیں ...) ۔
اسی طرح کی ایک اور آیت ہے جس میں ارشاد ہے ”یاایھاالذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودة و قد کفروا بما جائکم من الحق“(2) ۔
اس آیت میں بھی کا فروں کو ولی بناکر ان کے ساتھ رشتئہ مودت بر قرار کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔
اسی قسم کی بات ایک اور آیت میں ہے ۔ لاتجد و اقوماً یومنون بااللّہ والیوم الآخرلو ارٰد ن من حاراللّہ ورسولہ(3) ۔
ترجمہ :۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والی کوئی بھی قوم ان کے دشمنوں سے مودّت نہیں رکھ سکتی.....اس میں یہا ں تک ذکر کرنے کے بعد تقیّہ کی حالت کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ یعنی تقیّہ کی حالت میں ان کو ولی بنانا اور ان سے مودّت رکھنا جائز ہے ۔ اگر چہ حکم اوّلی کے تحت ایسا کرنا حرام ہے ... اس میں کوئی شک نہی ہے کہ لفظ تقاة سے مراد تقیّہ ہے ۔اور تقیّہ اور تقاة دونو ں ایک ہی معنی رکھتے ہیں ۔ بلکہ” حسن “ اور” مجاہد “کی قرائتوں میں ”تقاة “ کے بجائے تقیّہ ہے .. . امین لا سلام طبرسی مجمع البیان میں آیت کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفّار غلبہ رکھتے ہوں اور اہل ایمان مغلوب ہو ں اور کفّار کے ساتھ حسن معاشرت اور موا فقت نہ رکھنے کی صورت میں مو منو ں کو خوف لا حق ہو تو تقیّہ کر تے ہوئے زبانی طور پر اظہار موّد ت ومدارات جائز ہے لیکن ولی اعتقاد نہیں ہو نا چاہیئے ... چنانچہ اگر انسان کو جان کا خطرہ ہو تو آیت اس وقت دین میں تقیّہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے ۔ اسی پر اصحاب تشیع ضرورت کے وقت ہر طرح کے اقوال میں تقیّہ کو جائز قراردیتے ہیں اور کبھی لطف دخیر خواہی کے عنوان سے تقیّہ اقوال میں واجب ہو تا ہے ۔ اور افعال میں اگر تقیّہ قتل مومن اور اور دین میں فساد کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے(4) ۔
شیخ الطائذ حضرت شیخ طو سی ۺ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں۔ ” جان کے خوف پر تقیّہ ہمارے نزدیک واجب ہے ۔اگر چہ ا ظہار حق کا جواز بھی روایت میں آیا ہے ...چنانچہ حسن روایت کرتے ہیں ۔کہ مسیائمہ کذّاب نے حضرت رسالت (علیه السلام)کے دو صحابیوں کو گرفتار کیا ۔ایک سے پوچھا گیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد (علیه السلام)اللہ کے رسول (علیه السلام) ہیں اس نے کہا ”ہاں “ ۔ مسیائمہ نے کہا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول (علیه السلام)ہوں ۔؟
”صحابی نے کہا ہاں“ ۔
مسیلئہ کذ ا ب نے دوسرے شخص کو بلا یا اور اس سے پوچھا ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔؟“ اس شخص کہا ”ہاں “ مسیلئہ کذُاب نے پوچھا ” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہو ں ۔؟ ”صحابی نے کہا میں بہرا ہو ں “ مسلئہ کذاب نے تین مر تبہ اس سے پوچھا مگر صحابی نے وی جواب دیا ۔ تب مسیلئہ کذُاب نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا ...خبر رحمت دو عالم تک پہونچی آنحضرت نے فرمایا مقتول نے صدق دل یقین پر عمل کرکے فضیلت کا مقام حاصل کیا ہے جو اس کے لئے مبارک ہے ... رہ گیا دوسرا شخص تو ا س نے اللہ کی دی ہوئی چھوٹ سے استفادہ کیا ہے لہذا وہ معذو ر ہے ۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ تقیّة چھوٹ ہے واجب کہ اظہا ر حق فضیلت ہے حالانکہ ہماری احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقیّہ واجب ہے اور اس کی مخالفت خطا ہے ۔
یہ تھے شیخ الطائفہ ۔ لیکن ہم اپنے قارئین کو عنقریب بتائیں گے کہ بعض موقعو ں پر تقیّہ واجب ہے اور بعض پر جائز ہے ۔ کچھ موارد ایسے ہیں کہ جہاں تقیّہ مستحب ہے جب کہ کچھ موارد ہیں ترک تقیّہ اور ظہار حق ضروری ہے اور چونکہ تمام روایات ایک ہی مور کے لئے نہیں ہیں لہذا ان میں تعارض نہیں جو شیخ طوسی کی عبارت سے ظاہر ہو رہا ہے...۔
مختصر یہ کہ آ یت بطور اجمال جو از تقیّہ پر دلالت کرتی ہے ،بلکہ آیت میں عنوان تقیّہ بطور واضح مذکور ہے ۔اس لئے کہ تقیّہ اورتقاة کے ہی ایک معنی ہیں اور آپ ملا حظ فرماچکے ہیں کہ ایک سے زیادہ قاریوں نے ” تقاة “ کی جگہ تقیّہ کی قرائت کی ہے ۔
اس قبیل کی ایک آیت سورة نحل میں ہے ۔من کفر بااللّہ بعد ایمانہ الّا من قلبہ مطمئن باالّایمان ولکن من شرح باالکفر صد راً فعلیم غضب من اللّہ ولہم عذاب عظیم (۱۰۶)اس آیت کے شان نزول میں مفسّروں نے جن امور کو ذکر کیا ہے وہ آپس میں قریب المعنیٰ ہیں اگر چہ اشخاص واماکن میں اختلاف ہے ۔
بعض تفسیروں میں ہے کہ مذکورہ آیت حضرت عماّران کے والد یاسر اور والدہ سمیمہ اور حبیب و بلال اور کی شان میں نازل ہوئی ہے کفّار نے ان حضرات کی قید کر کے سخت اذییتں دیں اور ان کو اسلام اور رسول خدا سے بیزاری اور کلئمہ کفر جا ری کرنے پر مجبور کیا تو حضر ت عماّر (علیه السلام) کے والد نے صاف انکار کردیا اور اسلام میں پہلے دو شہید ہونے کا شرف حاصل کیا ۔
حضرت عماّر نے زبان سے وہ کیا جو کفّا چاہتے تھے لیکن ان کا دل مطمئن تھا ۔اسی درمیان لوگوں نے حضور کو بتایا کہ عمّار کافر ہو گئے ۔تو پیمبرنے فرمایا کہ عمّار ۻ سراپا ایمان ہیں ۔اور ایمان اس کے گوشت خون میں مخلوط ہے اتنے میں دیکھا کہ عماّر روتے ہوئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے آنحضرت نے پوچھا ۔تمہارے پیچھے کیا خبریں ہیں ۔؟ عرض کی یارسو ل ا للہ شرہی شر ہے مجھے مجبور کیا گیا کہ میں آپ سے بیزاری ظاہر کروں اور ان کے خداؤں کی تعریف کروں...آنحضرت نے عماّر کے آنسوں پوچھے اور فرمایا اگر دوبارہ مجبور کریں تو وہی کہو جو وہ چاہیں ...اسی پر آیت نازل ہوئی ۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے یہ کہ آیت ابو جہل کے بھائی عیّاش بن ابو رہعیہ اور ابی جندل وغیرہ کی شان میں اس اوقت نازل ہوئی جب مشرکین نے ان کو وہ کہنے پر مجبو ر کیا اجو وہ چاہتے تھے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ہجرت اختیار کی اور جھارمیںحصّیہ لیا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔
کچھ مفسرین کا بیا ن ہے کہ مکّہ کے کچھ لوگ ایمان سے مشرک ہو کر جب وہ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستہ میں قریش نے ان کو اظہار کفر پر مجبور کیا تو ان کے مجبور ی میں ایسا کرنے پر آیت نازل ہوئی ۔
لیکن ان میں پہلا قول زیادہ مشہور ہے ...آیت کریمہ ضرورت کے وقت بطور تقیّہ اظہار کفر کے جواز پر دلالت کرتی ہے جب انسان کا قصد کفرنہ ہو ۔ اگر چہ آیت مقام اکراہ میں نازل ہوئی ہے ۔اور تقیّہ میں اکراہ معتبر نہیں ہے ۔ بلکہ بغیر اکراہ کے بھی تقیّة جائز ہے لیکن اگروقت کی جائے تو اکراہ اور تقیّہ کے ملاک میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے کہ دو نوں کا ملاک ترک مہم کے ذریعہ ضرراہم کا ازالہ ہے۔
یہ توتھا آیت کے عنوان کے اعتبار سے ۔ یہ اعتبار دیگر اگر چہ مفاد آیت کفر و ایمان سے متعلق ہے لیکن حکم آیت ان دونو ں کے علاوہ میں بدرجئہ اولیٰ جاری ہے اس لئے کہ جب سخروایمان جیسے بنیادی مسئلہ میں تقیّہ جائز ہے تو دیگر مسئلہ میں شرائط کی موجود گی میں قطعی طور پر واجائز ہے ...۔
چنانچہ محقق بیضاری آیت کی تفسیر فرماتے ہیں ۱۔مجبوری میں آیت کلام کفر کے جواز پر دلالت کرتی ہے اگر چہ دین کے اعزاز کی خاطر اس سے پر ہیز کرنا افضل ہے ۔جیسا کہ حضرت عمّار کے والدین نے کیا ہے پھرانھوں نے حسن سے مروی گذشتہ روایت نقل کی ہے جو ان دو افراد کے بارے میں ہے جن کو مسیلمہ نے گرفتار کرکے اپنی نبوّت کی جھوٹی گوہی دلوانی چاہی تھی ایک نے انکار کیا حضور نے فرما یا کہ پہلے نے پرور دگار عالم کی رخصت سے فائدہ اٹھایا جبکہ دوسرے نے حق کو بر ملا کیا اور وہ اسے مبارک ہو ۔
اسی طرح کی آیت سورئہ غافر میں ہے جس میں مومن ِ آل فرعون کا ذکر کیا ہے ۔“
وقال رجل مومن ٌ من آل فرعون یکتم ایمانہ اتّقتلون رجلان ان یقول ربیّ اللّہ وقد جائکم باالبیّنات من ربکم .سورئہ غافر آئت ۸۶ ۔
یہ آیت اور اس کے بعد والی وآیت مو من آل فر عون کاقصّہ اور اپنی قوم کے سامنے ان کے احتجاج کو بیان کرتی ہے ، جس کو قرآن نے رضا وقبولیت کی زبان میں پیش کیا ہے ......یہاں تک کہ ”یکم ایمانہ “کو بھی اسی انداز میں نقل کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جان کا خطرہ لا حق ہو تو کتمان ایمان جائز ہے بیشک کتمان ایمان صرف ایمان کے ظاہر نہ کرنے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ایمان کے خلاف بھی بولناپڑتا ہے ۔ خصوصاً ایسے موقو پر جب کتمان ایمان کا زمانہ موئمن آل فرعون کی طرح طولانی ہے ۔ اس وقت کفّار کے ساتھ اعمال میں شریک او ر موئمنوں کے مخصوص اعمال تر ک کئے بغیر ممکن نہیں کہ انسان ایمان کو پو شیدہ رکھ سکے ..۔
بہر حال یہ کہنا کتمان ایمان کا مطلب حق کے خلاف کچھ کہے بغیر حق کا ظاہر کرنہ کرنا ہے تو یہ صرف زبانی دعوٰ ہوگا خاص طور سے ابن عبّاس کی نقل کے مطابق اس وقت آل فرعون میں مومن آل فرعون جن کو حضرت موسیٰ نے مومن بنایا تھا اور فرعون کی بیوی کے بغیر کوئی مومن تھا ہی نہیں ...اب اگر کوئی شخص ایسے موقع پر خلاف ایمان عمل بجالائے تو اسے تقیّہ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت بطور اجمال اس پر دلالت کرتی ہے...چنانچہ طبرسی نے امام جعفر سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا ۔”التقیّة ودین آبائی ولا دین لمن لا تقیّةلہ والتقیّة ترس اللّہ لی الارض لان ّ مومن آل فرعون لواظہر الاسلام لقتل “(5) ۔
تر جمہ
تقیّہ میرااور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے ۔ جس کے پاس تقیّہ نہیں اس کے پاس دین نہیں ۔ یہ زمیں پر اللہ کی سپر ہے چنانچہ مومن آل فرعون اگر اسلام کو ظاہر کر دیتے تو قتل کر دیئے جاتے... مذکورہ بیان سے یہ نتجیہ نکاتا ہے کہ تینو ں آیتیں جان کے خطرے کے وقت واضح طورپر تقیّہ کو واجب قرار دیتی ہیں روایات جو ہم انشااللہ ذکر کریں گے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ موارد تقیّہ بھی فقط وہی نہیں جو گذشتہ آیتوں میں بیان ہوئے بلکہ عمل اصحاب اکہف اور شیخ الانبیا ء حضرت ابراہیم کا بت توڑنے کے بعد اپنی قوم کے سامنے جواب احضرت یوسف کی اپنے بھائی کو اپنے پاس روکتے وقت بھائیوںسے گفتگو وغیرہ سب کچھ تقیّہ پر مبنی تھا جس کے بارے میں ہم عنقریب عرض کریں گے کہ تقیّہ صرف جان کے خطرے کے وقت حق کو چھپانے اور اس کے خلاف بولنے کا نام ہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے مصالح کی بنا پر بھی اگر حق کو چھپایا جائے تو اسے تقیّہ کہتے ہیں .......بہر کیف یہ تھا تقیّہ کے جائز ہونے کے بارے میں قرآن کریم کا جلی اور روشن فیصلہ ہے ۔
۱۔ ادئل المقالات،ص۹۶۔

2 ۔ سورہ ممتحنہ ص ۱
3۔سورة مجادلہ آیت ۲۲۔
4۔ مجمع البیان جلد ۲ ص ۴۳۰۔
5۔مجمع بیان جلد ۸ صہ۵۳۱۔
احاد یث تقیَّةتقیّہ کے لغوی اور اصطلا حی معنیٰ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma