جس وقت امام حسین (علیہ السلام) یزید کی بیعت کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور آپ نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو ایک چھوٹا لیکن بہت اہم وصیت نامہ تیار کیا اور اس کو اپنے بھائی محمد حنفیہ (۱) کے سپرد کیا اور ان کو مدینہ میں اپنے نمائندہ کے طور پر مقرر کیا تاکہ اس شہر کے حالات پر نظر رکھیں اور ضروری خبروں کو امام (علیہ السلام) تک پہنچائیں، امام (علیہ السلام) نے اس خط میںتحریر فرمایا :
” انی لم اخرج اشرا ، و لا بطرا، ولا مفسدا ، ولا ظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی“۔ میں نے ہوا و ہوس کی وجہ سے قیام نہیں کیا اور دوسروں پر ظلم و فساد کا ارادہ بھی نہیں ہے (اور دنیا کے عہدوں ، مقام اور مال دنیا کو بھی پسند نہیں کرتا) بلکہ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے (۲)
دوسری جگہ پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” اللھم انک تعلم انہ لم یکن ما کان منا تنافسا فی سلطان و لا التماسا من فضول الحطام ، و لکن لنری المعالم من دینک ، و نظھر الاصلاح فی بلادک“۔ خدایا تو بہتر جانتا ہے کہ ہمارا انقلاب اور قیام حکومت حاصل کرنے اور دنیا کے مال و دولت کے لئے نہیں ہے ،بلکہ مقصد یہ ہے کہ تیرے دین کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاؤں اور شہروں میں اصلاحات کا آغاز کروں (۳) ۔
اس بناء پر امام حسین (علیہ السلام) کے قیام عاشوراکا پہلا مقصد اصلاح امت ہے ،اس موضوع کی اس اہمیت کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید میں مذکورہ اصلاح کو بطور خلاصہ بیان کریں :