چوپاؤں کے مختلف فوائد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 82- 85سوره مؤمن/ آیه 79- 81

ان آیات میں ایک بار پھر قدرت خداورانسان کے بار ے میں اس کی وسیع نعمتوں کاذکر کیاگیاہے اوران نعمات کے ایک حصے کومفصل طور پر بیان کیاگیا ہے تاکہ ایک تو لوگ اس کی عظمت سے خوب آشنا ہوجائیں اور دوسرے ان میںاحساس تشکر اجاگر ہوجو معرفت الہٰی کاایک ذریعہ ہے ۔
ارشاد فر مایاگیاہے : خدا تووہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے ہیں تاکہ ان پرسواری کرو اوران سے غذا حاصل کرو ۔
(اللَّہُ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَنْعامَ لِتَرْکَبُوا مِنْہا وَ مِنْہا تَاٴْکُلُونَ) ۔
کچھ جا نور تووہ ہیں جوصرف خوراک کا کام دیتے ہیں جیسے ،بھیڑ بکریاں،اور کچھ وہ ہیںجو سواری کا کام بھی دیتے ہیں اورخوراک کا بھی جیسے اونٹ کہ جونسواری کے لحاظ سے خشک اور جلتے صحراؤں کاجہاز بھی اور لوگوں کی غذا کاذریعہ بھی ۔
” انعام “ ” نَعَم “ (بروزن قَلَم) کی جمع ہے جودراصل ”اونٹ “ کیلئے استعمال ہوتاتھا لیکن بعد میں اس نے مفہوم کے لحاظ سے اس قدر وسعت اختیار کر کہ اونٹ،گائے او رگوسفند کے لےے بھی بولاجانے لگا . یہ لفط نعمت سے لیاگیا ہے . کیونکہ انسان کے لیے خداکی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت چوپائے ہیں . حتٰی کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ آواز سے کئی گناہ تیز ہو ائی جہاز اور تیز رفتار زمینی ذرائع آمد ورفت ایجاد ہوچکے ہیں پھربھی بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پر صرف اورصرف انہی جانوروں سے استفادہ کیا جاناممکن ہے . ریتلے صحراؤن سے جدید ذرائع آمد و رفت کاعبور نہایت مشکل ہے.پہاڑوں کی بعض تنگ و تاریک گز ر گاہوں سے اب بھی صرف جانور وں کے ذ ریعے ہی گز ر ناممکن ہوتاہے ۔
اصولی طور پر جانوروں کی خصوصی،خاص کرسد ھائے جانے کے لیے تسلیم کا مادہ اور قا بلیت خدا کی عظیم نشانیوں سے خودایک نشانی ہے جب کہ بعض جانور تو انسان سے کئی گناہ طاقتور ہوتے ہیں ۔
ہم ایسے چھوٹے چھوٹے اور کم جثہ جانوروں کوبھی جانتے ہیں جوانسانوں سے وحشت رکھنے کی وجہ سے سخت خطرناک ہوتے ہیں . جبکہ بڑے بڑے اونٹوں کی قطاروں کی باگ ڈور اگرایک معصوم بچے کے ہاتھ میں دے دی جائے تو .
می بر وہر جاکر خا طر خواہ اوست
اس کے علاوہ ان جانور وں سے اوربھی کئی خاطر خواہ فوائد حاصل کئے جاتے ہیں جیساکہ بعد کی آیت میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :اوراس کے علاوہ تمہارے لئے اور بھی کئی فوائد ہیں (و لکم فیھا منافع )۔
تم ان کے دودھ ، اون، چمڑے اور دوسرےاجراء سے استفادہ کرتے ہو حتٰی کہ ان کے فضلے تک کو زراعت کے کام میں لاتے ہو. المختصر ان جانوروں کے تمام وجود کی کوئی چیزبھی بے فائدہ اورناقابل مصرف ہیں بلکہ ان کاسارے کا سارا وجود مفید اور سود مندہوتاہے حتٰی کہ بعض مواقع پر کئی دواؤں کاخام مواد بھی انہی سے لیاجاتاہے ۔
(دھیان رہے کہ لفظ ” منافع“ کونکرہ لا یا جانااس کی اہمیت کوبیان کرنے کے لیے ہے )۔
پھر فر مایاگیاہے : ان کی تخلیق کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ تم ان پرسوار ہوکردل خواہ مقاصد تک جاپہنچو(وَ لِتَبْلُغُوا عَلَیْہا حاجَةً فی صُدُورِکُمْ )۔
بعض مفسرین نے اس جملے سے جانوروں کے ذریعے مال کی نقل وحرکت مراد لی ہے کیونکہ اس سے پہلے کہ جملے میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیاگیا . لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ” حاجَةً فی صُدُورِکُم“ ( جوحاجت تم دل میں رکھتے ہو ) سے مراد تفریح ،ہجرت،وسیاحت،مقابلہ بازی بلکہ وشوکت اورٹھاٹھ باٹھ جیسے ذاتی اورشخصی فوائد مراد ہوں ۔
چونکہ مسافرت کے ان تمام وسائل کاخشکی سے تعلق ہوتاہے ، لہذا آیت کے آخر میں فر مایاگیاہے : ان چوپاؤں اور کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں (وَ عَلَیْہا وَ عَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُون) (۱)۔

” علیھا “ (ان جانوروں پر ) کی تعبیر باوجود یکہ اس سے پہلے اس بار ے میں گفتگو ہوچکی ہے یہاں ” فلک“ (کشتیوں ) کے ذکرکے لیے مقدمہ کی حیثیت سے ہے یعنی خدا وند عالم نے صحراؤں اور در یاؤں میں سفر اور مال کی نقل وحمل کے ذ رائع تمہارے اختیار میں دے دیئے ہیں ،تاکہ تم آسانی کے ساتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکو ۔
بحری جہازوں اور کشتیوں میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ اپنے تمام بوجھ اور ثقل کے باوجود پانی پر تیر تی رہتی ہیں اور ہواؤں کوایسے مقررہ رخ پرچلایاکہ ہمیشہ ان سے کسی نہ کسی معین راستے کے لیے استفادہ کرکے مقصد کی طرف جایاجا سکتاہے ۔
اسی سلسلے کی آخر ی آیت میں تاکید کے طور پر اور ہر ایک سے اقرار حاصل کرنے کے لیے فرمایاگیاہے : ” خداہمیشہ اپنی نشانیاں تم کودکھلاتاہے ،تم ہی بتاؤ کہ خدا کی کس کس آیت کا انکار کرو گے (وَ یُریکُمْ آیاتِہِ فَاٴَیَّ آیاتِ اللَّہِ تُنْکِرُون)۔
کیاتم ” آفاق “ میں اس کی آیات کاانکار کرو گے یا” انفس“ میں؟ آیاتم مٹی سے اپنی تخلیق ، پھر جنین کے مراحل طے کر نے اورولادت کے بعد مراحل کاانکار کرو گے یاموت وحیات کا ؟
آیا زمین و آسمان میں خدا کی آیات کاا نکار کرو گے یا روز شب کی آفرینش کا ؟ یاجانوروں اور چو پاؤںجیسے وسائل زندگی کی تخلیق کا ؟ غرخ ” جدھردیکھتاہوں ادھر تو ہی تو ہے “ . اندھی ہوجائیں وہ آنکھیں جواسے نہ دیکھ سکیں “ ۔
سچ مچ جب کہ اس کی آیات اور نشانیاں ہرایک کے لیے واضح ہیں توپھر کئی لوگ انکار کاراستہ کیوں اپناتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب عظیم مفسرطبرسی نے ان الفاظ میں دیاہے :
ممکن ہے کہ اس نکار کے تین اسباب ہیں ؟
۱ ۔ خواہشاتِ نفسانی کی اتباع :
یہ اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان بے بنیاد شکوک و شبہات کی وجہ سے حق کے چہرے کو چھپادیتاہے اور وہ اپنی ان نفسانی خواہشات کوہمیشہ اپنائے رہتاہے ، کیونکہ حق کی قبولیت تواسے محدود کر دیتی ہے ایک تو اس کے لیے فرائض کاتعین کرتی ہے اور دوسرے اسے کچھ حدود کا پابند تیارہوتے ہیں اور نہ ہی کسی حد کے اندر رہ کر مقید ہوتا چاہتے . لہذا وہ انکارِ حق پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں ہرچند کہ اس کے دلائل اور براہین روشن اور آشکار ہی کیو ں ن ہوں ۔
۲۔ دوسرے لوگوں ، خاص کرباپ داد ا کی اندھی تقلید :
یہ بھی حق کے چہرہ پرپردہ ڈال دیتی ہے ۔
۳۔ تحقیق کئے بغیر غلط فیصلہ :
اورسابقہ غلط عقائد جو ذہن میں راسخ ہوچکے ہیں وہ بھی آیات حق کے بار ے میں غیر جانبدارتحقیق اور مطالعے مانع ہو تے ہیں لہذا انسان حق کا ادراک کرنے سے عاجز ہوتاہے ۔
 ۱۔ جانوروں کے فوائد کے بار ے میں ہم تفسیر تمونہ کی گیار ہوں جلد (سورہ ٴ نحل کے ذیل میں ) تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں ۔
سوره مؤمن/ آیه 82- 85سوره مؤمن/ آیه 79- 81
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma