ہم مومنین کی مدد کرتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 56- 59سوره مؤمن/ آیه 51- 55

چونکہ گزشتہ آیات میں جہنمیوں کے باہمی احتجاج اور گفتگو کاتذ کرہ تھا کہ وہ وہاں پرنہ تو ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے اور نہ ہی کوئی دوسران کی مدد کوآئے گا . پھر ان سے قبل کی آیات میں مومن آ ل فرعون جیسے مرد مجاہداور بطل حریت کی داستان اوراسے خداکی حمایت حاصل ہونے کاذکر تھا ،لہذا زیرتفسیر آیات میں ایک قاعدہ کلیہ کے تحتددنیا و آکر ت میں ابنیاء اور مومنین کی نصرت کابیان ہے ۔
ارشاد فرمایاگیاہے : یقینا ہم اپنے رسولوں کی اوران لوگوں کی دنیاوی زندگی میں بھی اور جس دن تمام گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے اس دن بھی مددکریں گے ( إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذینَ آمَنُوا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ یَوْمَ یَقُومُ الْاٴَشْہادُ )۔
ایسی بے دریغ حمایت جس کی مختلف طرح سے تاکیدکی گئی ہے . ایسی حمایت جوغیر مشرو ط ہوگی . اسی لیے تو اس کے پیچھے پیچھے مختلف کا میابیاں بھی ہیں . یعنی دلائل وگفتگو میں کامیابی ، جنگوں میں کامیابی ،مخالفین پرعذاب بھیج کر انہیں نیست و نابود کردینے کی صورت میں کامیابی اور غیبی امداد بھیج کر دل کوتقویت پہنچانے اور روح کوطاقتور بنانے کی صورت میں کامیابی ۔
اس مقام پر ہم ” روزقیامت “ کے بار ے میں ایک نئی تعبیر دیکھ رہے ہیں اوروہ ہے ” یوم یقوم الاشھاد “ ( جس دن گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے )۔
” اشھاد “ ” شاھد “ یا ” شھید “ کی جمع ہے ( جس طرح ”اصحاب “ صاحب کی اور” اشراف “ شریف کی جمع ہے ) اور ہر صورت میں گواہ کے معنی میں ہے اور یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ گواہ کون ہیں ؟ اس بار ے میں مختلف اقوال ہیں جن کوایک جااکٹھا کیاجاسکتاہے ۔
۱۔ اس سے مراد انسان کے اعمال پر نگران فرشتے ہیں ۔
۲۔ اس سے مرادانبیاء ہیں جواپنی امتوں کے گواہ ہیں ۔
۳۔ اس سے مراد فرشتے ، انبیاء اور مومنین ہیں جو مومنین کے اعمال کے گواہ ہیں ۔
لیکن یہ احتمال کہ انسان کے اعضاء بھی اس فہرست میں شامل ہیں بعید معلوم ہوتاہے کیونکہ لفظ ” اشھاد“ اگرچہ وسیع معانی کاحامل ہے لیکن ” یوم یقوم الاشھاد“ ( جس دن گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے ) کی تعبیر اس سے مناسب نہیں رکھتی ۔
یہ تعبیر ایک دلچسپ نکتے کی طرف اشارہ کررہی ہے اور یہ کہنا چاہتی ہے کہ قیامت کادن وہ دن ہوگاجس میں تمام مخلوق اکٹھی ہوگی اوراس عظیم اجتماع میں گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے اوراس مقام کی رسوائی بدترین رسوائی ہوگی جبکہ عزت افزائی اور کامیابی بھی بلند ترین مرتبہ کی ہوگی . ہم اس دن ابنیاء ومرسلین اور مومنین کی مدد کریں گے اور اس عظیم اجتماع میں ان کی عزت و آبرو میں چار چاند لگادیں گے ۔
لیکن اس دن رسوائی اور بدبختی کافروں اورظالموں کاحصّہ ہوگی جیساکہ بعد کی آیت میں فرمایاگیا ہے : جس دن کہ ظالموں کی عذر خواہی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی بلکہ خدا کی لعنت ان کے لیے مخصوص ہوگی اور بُراگھر ( اورٹھکانا ) بھی انہی کے لیے ہوگا (یَوْمَ لا یَنْفَعُ الظَّالِمینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَ لَہُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَہُمْ سُوء ُ الدَّارِ )۔
ایک توگواہوں کے سامنے عذر خواہی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی بلکہ اس عظیم اور عدیم النظیر اجتماع میں ذلت و رسوائی ان کامقد ر ہوگی ۔
دوسرے وہ خدا کی رحمت سے دور ہوں گے کیونکہ لعنت کامعنی رحمت سے دوری ہے اورلعنت ان کادامن پکڑلے گی ۔
اور تیسرے جسمانی لحاظ سے بھی وہ زبر دست شکنجے اور عذاب میں گرفتا ر ہوں گے اور آتش جہنم میں ان کے لیے بدترین ٹھکاناہوگا ۔

ایک سوال اوراس کا جواب

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتاہے اور وہ یہ کہ اگر خدا وندعالم نے اپنے انبیاء اور مومنین کے ساتھ کامیابی کا وعدہ کیاہے اور وہ بھی بڑی تاکید کے ساتھ ،توپھر تاریخ میں ہمیں بے ایمان کفار کے ہاتھوں بہت سے انبیاء اورمومن کے قتل کیوں دکھائی دیتے ہیں ، وہ بعض اوقات مشکلات میں کیوں پھنس جاتے تھے یافوجی شکست کاسامنا کیوں کرتے تھے ،تو کیا خداوند عالم وعدہ خلافی کرتاہے ؟
اس کاجواب ایک نکتے پرغور کرنے سے اچھی طرح واضح ہوجاتاہ کہ وہ یہ کہ بہت سے لوگوں کو سوچ کامعیار اور پیمانہ بہت محدود ہوتاہے اور وہ کامیابی کے مفہوم کواپنے اسی محدود معیار کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کسی کی کامیابی کاراز اسی میں سمجھتے ہیں کہ دشمن کوشکست دے کرچند روزہ دنیاوی حکومت کواپنے قبضہ ٴ قدرت میں لے لیاجائے ۔
وہ مقصد میں کامیابی اور مکتب کی بالا دستی کو کامیابی ہی نہیں سمجھتے اور نہ ہی اسے کسی کھاتے میں شمار کرتے ہیں وہ کسی مجاہد شہیدکے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ اوراسوہ بن جانے کوکوئی اہمیّت ہی نہیں دیتے . وہ کائنات کے حریت پسند وں کے نزدیک کسی عزت وسربلند ی اورخالق ِ اکبر کی رضا کے حصول کو توکوئی چیز ہی نہیں سمجھتے ۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس محدود سوچ کے حامل افراد کے لیے تو اس سوال کاکوئی جواب نہیں ہے ، لیکن اگرسوچ کوبلند اور افق فکری وسیع کیاجائے اورحقیقی اقدار کومد نظر رکھاجائے تو پھر اس آیت کے حقیقی مفہوم کی تہ تک پہنچ جائیں گے ۔
اس مقام پر سیّد قطب نے اپنی ” فی ظلال القراٰن “ میں ایک بہترین بات کہی ہے جو ہمارے مد عا کی بہترین شاہد ہے . وہ کر بلا کے ہیر وحضرت امام حسین علیہ السلام کی مثال کوپیش ِ نظر رکھ کرکہتے ہیں :
” حسین رضوان اللہ علیہ نے اس عظیم میدان اور درد ناک منظر میں شربت شہادت نوش فرمایا آیا یہ فتح تھی یاشکست ؟ چھوٹی سوچ اور ظاہری صورت میں توشکست تھی ، لیکن خالص حقیقت اور وسیع سوچ کے لحاظ سے بہت بڑی کامیابی تھی ۔
روئے زمین کے انسانوں کے پاس دل ہرشہید کے لیے لرز جاتے ہیں ، ان میں عشق ومحبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، دلوں میں غیرت اور فدا کاری جذبہ پیدا ہوتاہے جیساکہ حسین ( رضوان اللہ علیہ ) نے یہی کچھ کیا ۔
یہ ایک ایسی بات ہے جس پر مسلمانوں کے تمام فرقے خواہ وہ شیعہ ہوں یاسنّی متفق ہیں بلکہ غیر مسلمین کی بھی بہت بڑی تعداد کااس پر اتفاق ہے ۔
بہت سے ایسے شہدا ء ہیں کہ اگر ہزار سال تک بھی زندہ رہتے تووہ اپنے عقیدے اور مکتب فکرکی اس قدر نصر ت کرسکتے ، نہ ہی ان تمام عظیم انسانی اقدار کودلوں میں یاد گار کے طور پر چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہزار وں لوگوں کواپنی آخری باتوں سے اس قدر آگاہ اوربیدار کرسکتے جتنا انھوں نے اپنے مقدس خون کے ذریعہ کیاہے ! جی ہاں وہ آخری باتیں اوعرخطبات جوانہوں نے اپنے خون کے ذریعے قلم بند کئے ہیں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی جذبہ اور تحرک عطاکرتے رہیں گے بلکہ وہ ہرزمانے میں اس طرح سے تاثیر آفریں رہیں گے کہ پوری تاریخ پرچھا ئے رہیں گے ( ۱)۔
سید قطب کوباتوں پر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہتے ہیں او ر وہ یہ ک ہم شیعہ ہرسال ماہ محرم میں اپنی آنکھوں کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا میں شہید ہونے والے ان کے دوسرے رفقاء کار کی زندگی کے آثار دیکھتے ہیں ۔
کس طرح وہ عظیم تحریکوں کاسبب بن جاتے ہیں ؟
ہم نے عاشوراء ِ محرم کے ایام میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے ظلم و استبداد اوراستعمار کے ایوانوں کی چولیں ہلا کررکھ دیں ۔
ہم نے یہ بھی دیکھاہے کہ اس ایثار پیشہ اور فداکار نسل کہ جس نے اپنی فداکا ری اور ایثا ر گری کادرس مکتب حسین علیہ السلام اورآپ علیہ السلام ہی کی یاد گار مجالس سے لیاتھا ، نے کس طرح خالی ہاتھوں کے ساتھ دنیا کے طاقتور ترین جابر بادشاہ کوتخت سے نیچے اتار پھینکا ۔
جی ہاں ہم نے یہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خون حسین علیہ السلام کس طرح ان کی رگوں میں دوڑ ااور انہوں نے دنیا والوں کی قیاس آرائیوں کوکس طرح غلط ثابت کردیا ۔
یہ حسین علیہ السلام اوران کے اعوان وانصار کی کا میابی نہیں تو اور کیا ہے کہ تیرہ سوسال گزر نے کے باوجود اپنی طاقت کالو ہامنوا لیا ۔


ایک اور سوال کا جواب

 
یہاں پرایک اور سوال بھی پیدا ہوتاہے اور وہ یہ کہ مندرجہ بالاآیات کہتی ہے ” قیامت کے دن ظالموں کو معذرت طلبی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی “ جب کہ سورہ مرسلات کی آیت ۳۶ میں ہے ۔
” اس دن انہیں عذر خواہی کی بالکل اجازت ہی نہیں دی جائے گی “ ۔
ولا یئو ذن لھم فیعتذ رون
یہ ددونوں آیات آپس میں کیسے ہیں آہنگ ہوسکتی ہیں ؟
جواب کے لیے دونکتوں کی طرف توجہ کرناچاہیئے ۔
پہلایہ کہ بروز قیامت کچھ مرحلے ہوں گے جن کے حالا ت اورکوالف ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے کہیں پر زبان کا م کرناچھوڑ دے گی اورہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء وجوراح بولنے لگیں گے اور گواہی دیں گے . لیکن دوسر ے مرحلوں میں زبان کھول دی جائے گی اورانسان بولنے لگے گا . ( جیسا کہ سورہ یٰس کی ۶۵ ویں آ یت پہلی صورت حال کی اور زیر بحث سورت کی گزشتہ آیات جو جہنمیوں کی کی گفتگو اوراحتجاج کے بار ے میں گفتگو کررہی ہیں دوسری صورت حال کے بار ے میں اسی مد عاپر شاہد ہیں )۔
دوسرانکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان بات تو کرتاہے لیکن اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا اوروہ بالکل فضول ہوتی ہے ایسے موقع پر گویااس نے کوئی بات ہی نہیں کی . بنا بریں ” انہیں عذر خواہی کی اجازت نہیں دی جائے “ والاجملہ بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ ان کی معذرت طلبی بے سود ہوگی ۔۔
پھرقرآن مجید انبیاء کی امداد اورحمایت الہٰی کے زیر سایہ ان کی دشمنوں پر کامیابی کاایک نمونہ پیش کرتے ہوئے کہتاہے : ہم نے موسٰی کوہدایت عطاکی اوربنی اسرائیل کوآسمانی کتاب (تورت ) کا وارث بنایا (وَ لَقَدْ آتَیْنا مُوسَی الْہُدی وَ اٴَوْرَثْنا بَنی إِسْرائیلَ الْکِتاب)۔
جوہدایت خداوند عالم نے جناب موسٰی علیہ السلام کو فرمائی اس کے وسیع معانی ہیں جس میں مقام نبوت اوروحی بھی شامل ہے اور تو رات جیسی آسمانی کتاب بھی . نیز وہ ہدایت بھی اس میںشامل ہے جوانجام فرائض کے لےے انہیں عطا ہوئی اوروہ معجزات بھی جوان کے اختیار میں تھے ۔
” تو رات “ کے بار ے میں میراث کی تعبیر اس لیے ہے کہ یہ کتاب بنی اسرائیل کی نسلہا نسل میں چلی آتی رہی اگروہ چاہتے تو بغیر کوئی تکلیف اٹھائے اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے . جیسا کہ عام دوسری میراث سے کسی قسم کی زحمت کے بغیر فائدہ اٹھایاجاتا ہے . لیکن انہوں نے اللہ کی اس عظیم نعمت کوضائع کردیا ۔
بعدکی آیت میں فرمایاگیاہے :
یہ آسمانی کتاب صاحبان عقل کے لیے ہدایت اور اد آوری کاسبب تھی (ہُدیً وَ ذِکْری لِاٴُولِی الْاٴَلْباب) (۲)۔
” ہدایت“ اور ”ذکرٰی “ کافرق یہ ہے کہ ”ہدایت “ کام کے اوائل میں ہوتی ہے اور” تذکر “ ان مسائل کے سلسلے میں یاد آوری کے طور پر استعمال ہوتا ہے جنہیں پہلے انسانے سن رکھا ہو ا اوراس پر ایمان بھی لے آیاہولیکن اس وقت انہیں فراموش کرچکاہو ۔
دوسرے لفظوں میں آسمانی کتابیں ہدایت کی آغاز کنند ہ بھی ہیں اوراسے جاری رکھنے والی بھی ۔
لیکن ہدایت کے دونوں مراحل میںخواہ وہ اوائل کار میں ہوخواہ پہلے سے جاری ہو فائد ہ صرف ” او لوالالباب “ یعنی صاحبان فکر و عقل ہی اٹھا سکتے ہیں نہ کہ عقل وخرد سے عاری ، ہٹ دھرم ، متعصب اور آنکھوں اورکانوں سے کام نہ لینے والے ۔
اسی سلسلے کی آخری آیت میں تین اہم احکام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناصر جاری فرمائے گئے ہیں جو درحقیقت عمومی اور ہرایک کے لیے ہیں اگر چہ ان کے لیے خطاب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو کیاگیاہے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے : صبر اختیار کر کیونکہ خداکاوعدہ بالکل سچّا (فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ)۔
دشمنوں کے عناد وہٹ دھرمی کے مقابلے میںصبر کر ۔
کچھ نا دان دوستوں کی نادانی ، سستی ، سہل انگاری اور دل آزاری کے مقابلے میںصبر کر۔
خواہشات نفسانی اور سرکش ہوس اور غیظ وغضب کے موقع پرصبر ۔
خلاصہ تمام مراحل میں آپ کی کامیابی کا راز صرف اورصرف صبرو استقامت میں ہے ۔
جان لے کہ خدانے تیری اور تیری امت کی فتح و کامرانی کے بار ے میں جووعدے کے ہیں وہ یقینا پورا ہوکر رہیں گے او ر وعدہ ٴ الہٰی کی حقانیت پرایمان ہی تجھے اپنامشن جاری رکھنے اوراپنے مشن میں سر گرم عمل رکھنے کے لیے استقامت عطا کررہاہے ، اورہر قسم کی سخت مشکلات کے تحمل کوتجھ پر اور تیری امت کے لیے آسان بنا رہا ہے ۔
قرآن مجید میں بار ہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوصبر کاحکم دیاگیاہے . کبھی تومطلق صورت میں جیساکہ زیرنظر آیت میں ہم پڑھ رہے ہیں اور بعض دوسری آیات میں اور کبھی مخصوص صورت میں مذکور ہواہے جیسے سورہ ٴ ق کی ۳۹ ویں آیت میں ہے ۔
فاصبر علیٰ مایقو لون
ایک اور مقام پر فرماتاہے ۔
” اپنے ان دوستوں کے ساتھ صبر کر جو (بظاہر غریب ہیں لیکن ) ہرصبح وشام اپنے پر ور دگار کو پکارتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں .اوران سے جدائی اختیار نہ کر“ ( کہف . ۲۸)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم اورصدراسلام کے مومنین کو جو کا میابیاں بھی نصیب ہوئی ہیںوہ اسی صبر واستقامت کانتیجہ تھیں ، آج بھی کثیر تعداد میں دشمنوں او ر لاتعداد مشکلات میں کامیابی اس کے بغیر ناممکن ہے ۔
دوسری حکم میں فرمایاگاہے : اوراپنے گناہوں پر استغفار کر (وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ)۔
یہ یقینی بات ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہو نے کی بناء پر کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے لیکن جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ قرآن مجید میںاس قسم کی تعبیر یں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کے بار ے میں ان کے لیے بیان ہوئی ہیں جو کسی نسبت کی وجہ سے ہیں . کیونکہ کچھ ایسے کام ہوتے ہیں ، جو عام انسانوں کے لیے تو عبادت اورنیکی شمار ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نزدیک گناہ کہلاتے ہیں ، کیونکہ (حسنات الابر ار سیئات المقربین )۔
ایک لحظے کی غفلت بلکہ ایک اولیٰ چیز کاترک بھی ان کے لیے مناسب نہیں ہوتا اوران کے عالی مرتبے اور بلند معرفت کی وجہ سے انہیں ایسی باتوں سے منزہ ومبراہوناچا ہیے اوراگرکبھی ان سے سرزد ہوجائیں تو وہ ان پراستغفار کرتے ہیں ۔
لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد امت کے گناہوں پراستغفار ہے یاایسے گناہوں پرجولوگوں نے پیغمبر صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کے بار ے میں انجام دیئے ہیں . یایہاں پر استغفار ، استغفار تعبدی ہے ، یہ احتمال بعید نظرآتاہے .اس سلسلے کے آخری حکم میں فرمایا گیا ہے :
اے رب کی تسبیح اورحمد پر عصر اورصبح بجالائیے (وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَ الْإِبْکارِ)۔
” عشی “ کامعنی زوال آفتاب سے غررب آفتاب تک کا درمیانی وقت ہے اور” ابکار “ طلوع فجرسے طلوع آفتاب کے درمیانی وقت کو کہتے ہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ” عشی “ اور ” عصر اورصبح کے ان دومخصوص اوقات کی طرف اشارہ ہو کہ جن میںانسان اللہ تعالیٰ کی حمد اورتسبیح کی آماد گی رکھتاہے . کیونکہ یاتواپنے دنیاوی دھندوں اورکاموں میں مصرو ف نہیں ہوا ہوتا اور یاپھر انہیں ختم کرچکاہوتاہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ رات اور دن کے تمام اوقات میںحمد وتسبیح کے ددام کے معنی میں ہو اوراس تعبیر کو ہم اس مثال سے یوں واضح کرتے ہیں کہ ” اس کاصبح و شام دھیان رکھو “ یعنی ہمیشہ دھیان رکھو ۔
بعض مفسرین نے اس حمد و تسبیح سے صبح اور عصر کی نمازوں کی طرف یاپھر پنجگانہ نمازوں کی طرف اشارہ سمجھاہے ، جبکہ آیت کامفہوم اس سے بھی وسیع تر ہے اور نماز یں فقط اس کاایک مصداق بن سکتی ہیں ۔
بہرحال یہ تینوں اوامر خود سازی کے جامع ترین اصول اورخدا کے لطف و کرم کے سائے میں بہت بڑی کامیابی کیلئے آمادہ ہونے کاسبب ہیں اوربڑے بڑے مقاصد تک رسائی کے لیے زادرا ہ ہیں ۔
سب سے پہلے مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلے میں صبر وتحمل کامظاہرہ ، پھرگناہ اور ہرقسم کی آلود گی سے دل کوپاک اور صاف کرنا اور پھر اسے یاد الہٰی کے ساتھ آراستہ کرنا اور وہ آرائش بھی حمد وتسبیح پرور دگار کے ساتھ ، جس کامعنی خداکوہر قسم کے عیب ونقص سے منزہ اور مبرا سمجھنا اوراس کے حسن وکمال پراس کی ستائش اور تعریف کرنا ہے ۔
حمد وتسبیح اگر چہ ہوتی تو خالق کے لیے ہے لیکن اس کا پرتو مخلوق پر بھی پڑتاہے اوراسے بھی عیوب سے پاک اورصفات کمال سے آراستہ کرتی ہے ۔
۱۔تفسیر فی ظلال القرآن جلد ۷ ،ص ۱۸۹ ۔
۲۔ ” ھدی وذکرٰی “ ممکن ہے کہ ” مفعول لہ “ ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ ” مصدر “ بمعنی ” حال “ کے ہو یعنی ” ھادیاو مذ کراً لاولی الالباب “ کچھ اور لوگوں نے اور بھی احتمالات کاذکر کیاہے جیسے ” بدل “ یامبتداء محذوفکی خبر و غیرہ لیکن وہ احتمالات مناسب معلوم نہیں ہوتے ۔
سوره مؤمن/ آیه 56- 59سوره مؤمن/ آیه 51- 55
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma