آیا کسی کو خدا کی طرف بلانے پر بھی قتل کرتے ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
۱۔ موٴمن آل ِفرعون کون تھا ؟ سوره مؤمن/ آیه 28- 29

یہاں سے موسٰی علیہ السلام اورفرعون کی تاریخ کاایک اوراہم کردار شروع ہوتاہے جوقرآن مجید کی صرف اس سورة میںبیان کیاگیا ہے اوروہ ہے ” مومن آل ِ فرعون ‘ ‘ جوفرعون کے قریبیوں میں سے تھا حضرت موسٰی علیہ السلا م کی دعوتِ توحید قبول کر چکا تھا لیکن اپنے اس ایمان کوظاہر نہیں کرتا تھ.کیونکہ وہ اپنے آپ کوخاص طریقے سے موسٰی علیہ السلام کی حمایت کاپابند سمجھتا تھاجب اس نے دیکھا کہ فرعون کے غیظ وغضب سے موسٰی علیہ السلام کی جان کوخطرہ پیدا ہوگیا ہے تومردانہ وا ر آگے بڑھا اوراپنی دل نشین اورموٴ ثر گفتگو سے قتل کی اس سازش کوناکا م بنادیا ۔
اس سلسلے کی سب سے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : آل فرعون میں سے ایک شخص نے جواپنے ایمان کوچھپا ئے ہوئے تھا کہا: آیا کسی شخص کوصرف اس بناء پر قتل کرتے ہوکہ وہ کہتاہے کہ میرارب ؟ (وَ قالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ إیمانَہُ اٴَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً اٴَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّہ)۔
حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لایاہے (وَ قَدْ جاء َکُمْ بِالْبَیِّناتِ مِنْ رَبِّکُمْ )۔
آیا تم اس کے عصا اورید ِ بیضاء جیسے معجزا ت کا انکار کرسکتے ہو ؟ کیاتم نے اپنی آنکھوں سے اس کے جادو گر وں پرغالب آجانے کامشاہدہ نہیں کیا ، یہاں تک کہ جادوگروں نے اس کے سامنے اپنے ہتھیا ر ڈال دئےے اورہماری پرواہ تک نہ کی اورنہ ہی ہماری دھمکیوں کوخاطرمیں لائے اورموسٰی کے خداپر ایما ن لاکر اپنا سراس کے آگے جھکا دیاذر اسچ بتا ؤ کیاایسے شخص کوجادو گرکہا جاسکتا ہے ؟خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو ،جلدبازی سے کام نہ لو اوراپنے اس کام کے انجام کوبھی اچھی طرح سوچ لوتا کہ بعد میں پشیمان نہ ہوناپڑے ۔
ان سب سے قطع نظریہ دوحال سے خالی نہیں،اگر وہ جھوٹا اس کاخود ہی دامن گیر ہوگااوراگر سچا ہے توکم از کم جس عذاب سے تمہیں ڈر ایاگیاہے وہ کچھ نہ کچھ توتمہارے پاس پہنچ ہی جائے گا (وَ إِنْ یَکُ کاذِباً فَعَلَیْہِ کَذِبُہُ وَ إِنْ یَکُ صادِقاً یُصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذی یَعِدُکُمْ )۔
یعنی اگروہ جھوٹاہے توجھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ،آخر کارایک نہ ایک دن اس کاپول کھل جائے گااور وہ اپنے جھوٹ کی سزاپالے گا لیکن یہ امکان بھی تو ہے کہ شاید وہ سچّا ہواورخدا کی جانب سے بھیجاگیاہو . تو پھرایسی صورت میں اس کے کئے ہوئے وعدے کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیرہوکررہیں گے . لہذا اس کاقتل کرناعقل وخرد سے کوسوں دور ہے ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا : ” اللہ تعالیٰ مسرف اورجھوٹے کی ہدایت نہیں فرماتا “ (إِنَّ اللَّہَ لا یَہْدی مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ) ۔
اگر حضرت موسٰی تجاوز واسراف و درد غ کواختیار کرتے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل نہ کرتے اور اگر تم بھی ایسے ہی ہوگئے تو اس کی ہدایت سے محروم ہوجاؤ گے ۔
یہ آخری عبارت اگرچہ ذومعنی ہے اوراس کے دوپہلو ہیں لیکن ظاہرسی بات ہے کہ موٴ من آل ِ فرعون کے پیش نظرفرعون اور فرعون والوں کی کیفیت اورصورتِ حال تھی اوراس کاعبادت اوربعد کی عبارتوں میں خدا کی ربوبیت پربار بار زور دینااس حقیقت کوواضح کرتاہے کہ فرعون یاکم از کم فرعونیوں کاایک گرو ہ اللہ کی ربوبیت پر اجمالی عقیدہ رکھتے تھے . وگرنہ اس کی یہ تعبیر اس کاموسٰی کے خداپر ایمان اوربنی اسرائیل کے ساتھ تعاون اورہمکاری تصور کیاجاتا اوراسنے ” تقیہ “ کاجوطریقہ ٴ کار اپنا یاہواتھا اس اصول سے ہم آہنگ نہ ہوتا ۔
اس مقام پربعض مفسرین کی طرف سے دوسوال کئے جاتے ہیں :
ایک یہ کہ اگر موسٰی علیہ السلام جھوٹے تھے تو ان کاجھوٹ صرف ان کے اپنے لیے ہی نقصان دہ نہ تھا بلک تمام معاشرہ بھی اس کی لپیٹ میںآجاتا . کیونکہ معاشرے کے انحراف کاسبب بن جاتا . صرف ان کی ذات تک محدودیت کیسی ؟
دوسرے یہ کہ اگروہ سچے تھے توا ن کے تمام وعدے عملی جامہ پہنتے ، یہ بعض کاتذ کرہ کیوں ہواہے ؟
پہلے سوال کاجواب اس طرح دیاجاسکتا ہے کہ اس سے مرادصرف جھوٹ کی سزا ہے جوصرف جھوٹے ہی کوملتی ہے اورخدا کاعذاب اس کے شر کودور کرنے کے لیے کافی ہے یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ کوئی شخص خداپر جھوٹ باندھے اورخدا لوگوں کی گمراہی کے لیے اسے اپنے حال پرچھوڑ دے ۔
دوسرے سوال کاجواب یہ دیاجاسکتاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے تمہیں دنیااورآخرت کے عذاب کی دھمکی دی ہے لہذا اگروہ سچا ہے تو اس کاایک حصہ جو دنیاوی عذاب سے متعلق ہے وہ تمہیں دامنگیر ہوگایاپھر اس سے مراد کم از کم حدہے کہ اگراس کی تمام باتوں کو نہیں مانتے ہوتوکم از کم اس کی کچھ باتوں کاسچا ہوناتوممکن ہے ۔
بہرحال موٴمن آل ِ فرعون اس گفتگو کے ذریعے فرعون اوراس کے در باریوں کوچندطریقوں سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتارہا ۔
پہلا یہ کہ موسٰی کے اس عمل پر اس قدر شدید ردعمل کے اظہار کی ضرورت نہیں ۔
دوسرے یہ کہ اسکے پاس ایسے دلائل ہیں جو بظاہر قابل قبول نظر آتے ہیں. لہٰذا ایسے شخص کے ساتھ مقابلہ خطر ے سے کالی نہیں ہے ۔
تیسرے یہ کہ تمہار ے کسی قسم کے اقدام کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگروہ جھوٹاہے توخدا خوداس سے نمٹ لے گا اور یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ وہ سچا ہوتوپھر ایسی صورت میں خداہم سے نمٹے گا ۔
موٴمن آلِ فرعون نے اس پر ہی اکتفا ء نہیں کی بلکہ اپنی گفتگو کو جاری رکھا، دوستی اورخیر خواہی کے اندازمیںان سے یوں گویاہوا : اے میری قوم ! آج مصر کی طویل وعریض سرزمین پر تمہاری حکومت ہے اور تم ہرلحاظ سے غالب اور کامیاب ہو، اس قدر بے انداز نعمتوں کاکفران نہ کرو ، اگرخدائی عذاب ہ تک پہنچ گیاتوپھرہماریکون مدد کرے گا (یا قَوْمِ لَکُمُ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ظاہِرینَ فِی الْاٴَرْضِ فَمَنْ یَنْصُرُنا مِنْ بَاٴْسِ اللَّہِ إِنْ جاء َنا )۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اس کامقصد یہ ہوکہ آج تمہارے ہاتھ میں ہرقسم کی طاقت موجودہے اورموسٰی کے بار ے میں جوچاہو رائے قائم کرسکتے ہو اورجو چاہواس کے با ر ے میں فیصلہ کرسکتے ہو لیکن اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ہی نہ رہواس سے پیدا ہونے والے انجام کوبھی مدِّ نظر رکھو ۔
ظاہر ا ً اس کی یہ باتیں ”فرعون کے ساتھیوں“ کے لیے غیرموٴثر ثابت نہیں ہوئیں انہیں نرم بھی بنادیااوران کے غصّے کو بھی ٹھنڈا کردیا ۔
لیکن یہاں پر فرعون نے خاموشی مناسب نہ سمجھی اس کی با ت کا ٹتے ہوئے کہا : ” بات وہی ہے جو میں نے کہہ دی ہے “ جس چیزکامیں معتقدہوں اسی کاتمہیںبھی حکم دیتاہوں اس باتکامعتقد ہوں کہ ہر حالت میں موسٰی کوقتل کردینا چاہیئے .اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے (قالَ فِرْعَوْنُ ما اٴُریکُمْ إِلاَّ ما اٴَری )۔
اورجان لوکہ میں تمہیں حق او کامیابی کے راستے کے علاوہ اورکسی بات کی دعوت نہیں دیتا (وَ ما اٴَہْدیکُمْ إِلاَّ سَبیلَ الرَّشادِ)۔
پوری تاریخ میں تمام جابروں اور طاغوتوں کی یہی صورت حال رہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی رائے ہی کوصائب اوربرحق سمجھتے ہیں . اپنی رائے کے سامنے کسی کورائے کے اظہار کی اجازت نہیں دیتے . بز عمِ خود وہی عقل ِ کل ہوتے ہیں اور دوسرے عقل وخرد سے بالکل عار ے اور یہی ان کی حماقت اورجہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
۱۔ موٴمن آل ِفرعون کون تھا ؟ سوره مؤمن/ آیه 28- 29
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma