قتل موسٰی (ع) کا ارادہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 28- 29سوره مؤمن/ آیه 23- 27

گزشتہ آیات میں سابقہ قومو ں کے درد ناک انجام کی طرف اشارہ تھا اس کے فوراً بعدان آیات میں ان داستانوں میں سے ایک داستان کاتذ کرہ کرتے ہوئے موسٰی علیہ السلام اور فرعون ، ہامان اور قارون کی داستان بیان کی گئی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ موسٰی علیہ السلام اور فرعون ،ہامان اورقارون کی داستان بیان کی گئی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ موسٰی علیہ السلام اور فرعون کی داستان قرآن مجید کی بہت سی سورتوں میں بیان ہوئی ہے لیکن مطالب پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کے مطالب ہر گز مکرّر نہیں ہیں . بلکہ ہرموقع پراس داستان کے ایک خاص زاویے پرنگاہ ڈالی گئی ہے . چنانچہ زیرتفسیرآیات میں اہم مقصد موٴمن ِ آل فرعون کا ماجرا بیان کرناہے . اور باقی بیان اس اہم ماجرا کامقدمہ ہے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے : ہم نے موسٰی کواپنی ” آیات‘ ‘ اور” سلطان مبین “ دے کر بھیجا (وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا مُوسی بِآیاتِنا وَ سُلْطانٍ مُبین)۔
” فر عون ، ہامان اورقارون کی طرف ، لیکن انہوں نے کہاوہ تو جھوٹا جادوگرہے “ (إِلی فِرْعَوْنَ وَ ہامانَ وَ قارُونَ فَقالُوا ساحِرٌ کَذَّاب)۔
” آیات“ اور” سلطان مبین “ میں کیافرق ہے ؟ اس بار ے میںمفسرین کی طرف مختلف تفسیریں بیان ہوئی ہیں ۔
بعض مفسرین ” آیات“ کوروشن دلائل اور” سلطان مبین “ کومعجزا ت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔
جب کہ بعض دوسرے مفسرین نے ” آیات “ کو تورات کی آیات کی طرف اور ” سلطان مبین “ کومعجزات کی طرف اشارہ سمجھاہے ۔
بعض اورمفسرین نے یہ احتمال ذکر کیاہے کہ ” آیات “ توحضرت موسٰی علیہ السلام کے تمام معجزات کے لیے ہے لیکن ” سلطان مبین “ ان کے چیدہ چیدہ اوربرجستہ معجزات کے بار ے میں ہے جیسے عصا اور یدِ بیضا جوفرعون پرواضح طو ر پر غلبہ کاسبب بنے ۔
کچھ اورمفسرین نے کہا ہے کہ ” آیات“ سے مراد حضرت موسٰی علیہ السلام کے معجزات ہیں اور” سلطان مبین “ سے مراد فرعون پر موسٰی علیہ السلام کاوہ غلبہ قاہرہ اورخدائی تسلط ہے جس سے وہ آپ علیہ السلام کوقتل کرنے سے آپ علیہ السلام کی دعوت کوخاموش کرنے سے باز رہا ۔
لیکن ان تفاسیر میں سے کسی کا بھی واضح ثبوت موجود نہیں ہے اور قرآن مجید کی دوسری آیات سے جوبات سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ” سلطان مبین “ عموماً ایسی روشن اورمحکم دلیل کو کہتے ہیں جوکسی کے واضح غلبہ کاباعث بنے . جیساکہ سورہ نمل کی آیت ۲۱ میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہدہد کی داستان میں ہے جب سلیمان کہتے ہیں :
” میں ہدہد کونہیں دیکھ رہا، وہ کیوں غائب ہوگیاہے ؟ میںاسے سخت سزادوں گا یااسے ذبح کرڈالوں گایا پھراپنی غیرحاضری کے لیے” سلطان مبین “ (واضح دلیل ) پیش کرے “ ۔
سورہ ٴ کہف کی پندرہو ں آیت میں ہے :
لولایاٴ تون علیھم بسلطان مبین
” وہ اپنے معبود وں کے لیے روشن دلیل کیوں نہیں لاتے “ ؟
نیزقرآن مجید میں لفظ ” آیات“ کئی مرتبہ معجزات کے معنی میں بھی آیاہے .اسی بناء پر” آیات“ ” حضرت موسٰی علیہ السلام کے معجزات“ کی طرف اشارہ ہے اور” سلطان مبین “ کا معنی قوی منطق اور دندان شکن دلائل ہیں ، جوموسٰی علیہ السلام کوفرعون کے مقابلے کے لیے عطاہوئے ہیں ۔
بہرحال حضرت موسٰی علیہ السلام ایک توعقلی منطق کے اسلحے سے مسلّح تھے اوردوسرے ایسے معجزات بھی پیش کیاکرتے تھے جوان کے جہانِ ماوراء الطبیعت سے رابط کے علامت تھے لیکن اس کے بر خلاف ان کے سرکش فرعونی دشمنوں کے پاس سوائے اس کے کوئی اور حربہ نہیں تھا کہ انہیں یاتوساحر کہیں یاکذّاب !
سحر کی تہمت آیات اورمعجزات کے جواب میں تھی اورکذّب کی تہمت مطنقی دلائل کے مقابلے میں یہ ہماریاس تفسیرکاایک اور شاہد ہے جوہم نے ان دو تعبیروں کے بار ے میں بیان کی ہے ۔
جی ہاں کفرکے سرغنوں کاہمیشہ سے یہی طریقہ ٴ کارچلا آرہاہے کہ وہ مردان ِ حق کے سچے دلائل پراس قسم کے جھوٹے لیبل لگایا کرتے ہیں کہ آج بھی ہم اس کے کئی نمونے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں ۔
پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں تین افراد ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی چیز کامجسم نمونہ تھا ۔
” فرعون“طغیان اور شیطانی منصوبے بنانے کامظہر تھااور
” ہامان “ شیطنت اور شیطانی منصوبے بنانے کامظہر تھااور
” قارون “ باغی اور سامراجی سرمایہ دار جواپنی دولت بچانے کے لیے کسی بھی طریقہ ٴ کار کواپنا نے سے نہیں چوکتاتھا ۔
اس طرح سے حضرت موسٰی علیہ السلام مامورتھے کہ ظالم اورجابر حکام کے ظلم وستم ، غدار سیا ستد انوںکی شیطنت اور مستکبر دولت مندوں کی سرکشی کاخاتمہ کرکے معاشرے کی بنیاد سیاسی ،ثقافتی اوراقتصادی عدل وانصاف پررکھیں ،لیکن جن لوگوں کے ناجائز مفادات خطرے میںپڑ گئے تھے انہوں نے آپ علیہ السلام کاڈٹ کرمقابلہ کیا ۔
بعد کی آیت ان کے چند ایک شیطانی منصوبو ں کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے : جب ہماری طرف سے حق ان کی جانب آیا توبجائے اس کے کہ وہ اس کوغنیمت سمجھتے اس کے ساتھ مقابلہ کی ٹھان لی اورکہا کہ جولوگ موسٰی پرایمان لے آئے ہیںان کے لڑکوں کوقتل کردو اور کنیزی اورخدمت کے لیے ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو (فَلَمَّا جاء َہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنا قالُوا اقْتُلُوا اٴَبْناء َ الَّذینَ آمَنُوا مَعَہُ وَ اسْتَحْیُوا نِساء َہُمْ )۔
اس تعبیرسے پتہ چلتا ہے کہ لڑ کوں کے مارڈالنے اورلڑ کیوں کوزندہ رکھنے کا سلسلہ موسٰی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کے دور میں ہی نہیں تھا بلکہ آپ کے قیام اور دورانِ نبوت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا . ملاحظہ ہو سورہ ٴ اعراف آیت ۱۲۹ جواس مدعاپر شاہد ہے کہ بنی اسرائیل نے موسٰی علیہ السلام سے کہا :
اٴُوذینا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنا وَ مِنْ بَعْدِ ما جِئْتَنا
’ ’ آ پ کے آنے سے پہلے اور آپ کے آنے کے بعد ہردوز مانوں میں ہمیں ستایاگیا “ ۔
بنی اسرائیل نے یہ بات فرعون کی طرف سے مومنین کے بچوں کے منصوبہ ٴ قتل کے بعد کہی ۔
بہرحال یہ شیطانی حکومتوں کاایک ناپاک اور دائمی منصوبہ ہوتاہے کہ فعال اورمتحرک افرادی قوت کوتباہ و بر باد کریں اورغیرفعال افراد کواپنے مقاصد کے لیے زندہ رکھیں . تعجب نہیں کر ناچاہیے کہ فرعون اور فرعونیوں کایہ منصوبہ خواہ جناب موسٰی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کاتیار کردہ ہوکہ بنی اسرائیل کوفرعون کاقیدی بنادیاجائے اورخواہ موسٰی علیہ السلام کے قیام کے بعد ہر . بہرحال یہ ایک انقلاب دشمن حرکت تھی تاکہ بنی اسرائیل کواس حدتک ناکارہ بنادیا جائے کہ وہ اٹھنے کی قابل نہ رہیں ۔
لیکن قرآن مجید آیت کے آخرمیں فر مایاہے : ” کافروں کے منصوبے ضلالت اور گمراہی کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں . یہ ان کے ایسے تیر ہیں جووہ جہالت اور گمراہی میں چلاتے ہیں اور پتھرپرجالگتے ہیں (وَ ما کَیْدُ الْکافِرینَ إِلاَّ فی ضَلالٍ )۔
انہیں اس بات کا قطعاً وہم وگمان نہیں ہوتا کہ ان پر کوئی مصیبت بھی آن پڑے گی ، یہ تو مشیت الہٰی ہوتی ہے کہ آخر کار حق کی طاقت باطل کی قوتو ں پرغالب آکر رہتی ہے ۔
ایک صرف موسٰی علیہ السلام اوران کے پیرو کاروں کے درمیان باہمی نزاع ، اور دوسری طرف ، فرعون اوراس کے ہم نواؤں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کافی حدتک بڑھ گیا اوراس دوران میں بہت سے واقعات رونما ہوچکے ، جنہیں قرآن نے اس مقام پر ذکر نہیں کیابلکہ ایک خاص مقصد کوجسے ہم بعد میں بیان کریں گے پیش نظررکھ کرایک نکتہ بیان کیاگیاہے کہ حالات بہت خراب ہوگئے توفرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی انقلابی تحریک کودبانے بلکہ ختم کرنے کے لیے ان کے قتل کی ٹھان لی لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ گویااس کے مشیروں اور در باریوں نے اس کے اس فیصلے کی مخالفت کی . چنانچہ قرآن کہتاہے :
” فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دوتاکہ میںموسٰی علیہ السلام کرڈالوں اوروہ اپنے پروردگار کوبلائے تاکہ وہ اسے اس سے نجات دے “ (وَ قالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونی اٴَقْتُلْ مُوسی وَ لْیَدْعُ رَبَّہُ)۔
اس سے یہ بات سمجھنے میںمدد ملتی ہے کہ اس کے اکثر یاکم از کم کچھ موسٰی علیہ السلا م کے قتل کے مخالف تھے وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ چونکہ موسٰی علیہ السلام کے کا معجزانہ اورغیر معمولی ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے لیے بددعا کردے تو اس کا خدا ہم پرعذاب نازل کردے لیکن کبرو غرور کے نشے میں بدمست فرعون کہنے لگے : میں تواسے ضرور قتل کروں گاجو ہوگاسو دیکھاجائے گا ۔
یہ بات تومعلوم نہیں ہے کہ فرعون کے حاشیہ نشینوں اور مشیروں نے کس بناء پر اسے موسٰی علیہ السلام کے قتل سے باز رکھاالبتہ یہاں پر چندایک احتمال ضرور ہیں اورہوسکتاہے ہلے وہ سب کے سب صحیح ہوں ۔
دوسرا احتمال ان کی نظر میںیہ ہوسکتا ہے کہ موسٰی علیہ السلام کے مارے جانے کے بعد حالات یکسر د گر گوں ہوجائیں گے کیونکہ وہ ایک شہید کامقام پالیں گے اور انہیں ہیرو کادرجہ مل جائے گا اس طرح سے ان کادین بہت سے موٴمن ،ہمنوا ،بہی خواہ اورہمدردپیدا کر لے گا .خاص کراگر یہ ماجرا جادو گروں سے مقابلے اور ان پرموسٰی علیہ السلام کے عجیب اوغیر معمولی انداز میں غالب آنے کے بعدکاہو تو اس احتمال کو اور بھی تقویت مل جاتی ہے اوربظاہر ہے بھی ایسے ہی کیونکہ موسٰی علیہ السلام نے فرعون کے ساتھ سب سے پہلی ملاقات میںاسے دوعظیم معجزے (عصا ء کے معجزے ) دکھائے اسی لیے فرعون انہیں جادو گر کہنے لگا اورجادوگروں کوبلا کران سے مقابلے کی تاریخ مقرر کی تاکہ اس طرح سے وہ موسٰی علیہ السلام پرغالب آجائیں اوروہ اسی روز کے انتظا ر میں تھا ۔
بنابر یں کوئی وجہ نہیں بنتی کہ فرعون نے اس درمیانی مدت کے دوران میںموسٰی کوٹھکانے لگانے کا ارادہ کیاہو یامصر کے لوگوں کے دین کی تبدیلی کااسے خوف ہو ( ۱)۔
خلاصہ کلام انہیں اس بات کایقین ہوگیا کہ بذاتِ خودموسٰی علیہ السلام ان کے لے ایک عظیم خطرہ ہیں لیکن اگران حالات میں انہیں قتل کردیاجائے تویہ حادثہ ایک ” تحریک “ میں بدل جائے گا جس پرکنڑول کرنا بھی مشکل ہوجائے گا اوراس سے جان چھڑانی مشکل ترہو جائے گی ۔
فرعون کے کچھ در باری ایسے بھی تھے جوقلبی طورپر فرعون سے راضی نہیں تھے . وہ چاہتے تھے کہ موسٰی زندہ رہیں اورفرعون کی تمام متر توجہّ انہی کی طرف مبذول رہے اس طرح سے وہ چاردن آرام کے ساتھ بسر کرلیں اور فرعون کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر ناجائز مفاد اٹھاتے رہیں کیونکہ یہ ایک پرانا طریقہ ٴ کار ہے کہ بادشاہوں کے درباری اس بات کی فکرمیں رہتے ہیں کہ ہمیشہ ان کی توجہ دوسرے امور کی طرف مبذول رہے تاکہ وہ آسودہ خاطرہو کر اپنے ناجائز مفادات کی تکمیل میں لگے رہیں ۔
اس لیے توبعض اوقات وہ بیرونی دشمن کوبھی بھڑ کاتے ہیں تاکہ ادشاہ کی فارغ البالی کے شر سے محفوظ رہیں ۔
بہرحال فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے قتل کے منصوبے کی توجیہ کرتے ہوئے اپنے در بار یوں کے سامنے اس کی دو دلیلیں بیان کیں.ایک کاتعلق دینی اور روحانی پہلو سے تھا اور دوسری کا دنیا وی اورمادی سے . وہ کہنے لگا : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ تمہارے دین کو تبدیل کردے گا اورتمہارے باپ داداکے دین کو دگرگوں کردے گا (إِنِّی اٴَخافُ اٴَنْ یُبَدِّلَ دینَکُمْ)۔
یا یہ کہ زمین میں فساد اورخرابی برباد کردے گا ( اٴَوْ اٴَنْ یُظْہِرَ فِی الْاٴَرْضِ الْفَساد)۔
اگر میں خاموشی اختیار کرلو ں توموسٰی کادین بہت جلدمصر والوں کے دلوں میںاتر جائے گا اور بت پرستی کا ” مقدس دین “ جو تمہاری قومیت اورمفادات کامحافظ ہے ختم ہوجائے گا اوراس کی جگہ توحید پرستی کادین لے لے گاجو یقینا تمہارے سو فیصد خلاف ہوگا ۔
اگر میں آج خاموش ہوجاؤں اورکچھ عرصہ بعد موسٰی سے مقابلہ کرنے کے لیے اقدام کروں تواس دوران میں وہ اپنے بہت سے دوست اورہمدرد پیداکرلے گا جس کی وجہ سے زبردست لڑائی چھڑ جائے گی جوملکی سطح پرخونریزی ،گڑ بڑاور بے چینی کاسبب بن جائے گی . اس اسی لیے مصلحت اسی میں ہے کہ جنتا جلدی ہوسکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیاجائے ۔
البتہ ” فرعون “ کے نکتہ نظرسے ” دین “ کی تعبیراس کی اپنی یابتوں کی پوجاپاٹ کے علاوہ اورکچھ نہ تھی . ایسا ” دین “ جس سے لوگوں کے دل و دماغ کومخمور اورخون کواحمق بنا یاجاسکے . ایسا ” دین “ جس سے اس جابر اورخونخوار بھیڑ یئے کے جابر انہ تسلط کو مقدس سمجھاجائے ۔
اسی طرح استکبار ی نظام کے خلاف ایک ایسا انقلاب جس سے قیدو بند کی زنجریں توڑ کرعوام الناس کوآزادی دلائی جاسکے اور بت پرسکتی کے آثار مٹا کرتوحید الہٰی کو زندہ کیاجائے اس کی نظر میں ”فساد “ تھا ۔
جابر اور مفسد لوگوں کاابتداء ہی سے طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے جرائم پرپر دہ ڈالنے اورمردان خداکے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ان دوجھوٹے بہانوں کا سہارالیتے ہیں،جس کے کئی نمونے آج بھی ہمیں دنیا کے گوشہ وکنار میں نظر آتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس گفتگو سے موسٰی علیہ السلام نے کس ردعمل کااظہار کیاجواس مجلس میں تشریف فرمابھی تھے ، قرآن کہتا ہے : موسٰی نے کہا : میں اپنے پر ور دگار اور تمہارے پروردگار کی ہراس متکبر سے پناہ مانگتا ہوں جو روزحساب پرایمان نہیں لاتا (وَ قالَ مُوسی إِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَ رَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِساب)۔
موسٰی علیہ السلام نے یہ باتیں بڑے سکونِ قلب اوراطمینان خاطر سے کیں.جوان کے قوی ایمان اورذاتِ کردگار پرکامل بھروسے کی دلیل ہیں . اوراس طرح سے ثابت کردیا کہ اس کی اس دھمکی سے وہ ذرہ بھر بھی نہیں گھبرائے ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کی اس گفتگو سے ثابت ہوتاہے کہ جن لوگوں میں مندرجہ ذیل دوصفات پائی جا ئیں وہ نہایت ہی خطرناک افراد ہیں . ایک ” تکبر“ اور دوسرے ” قیامت پرایمان نہ رکھنا “ اوراس قسم کے افراد سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے ۔
” تکبر “ اس بات کاباعث بن جاتاہے کہ انسان اپنے علاوہ کسی اور کودر خوا عتناء نہیں سمجھتا ، خدا کی آیات اورمعجزات کو جادو گر جانتا ہے ،مصلحین کومفسدین کانام دیتاہے اوردوستوں اور ساتھیوں کی نصیحتوں کوسازش اورکمزوری پر محمول کرتاہے ۔
نیز روزحساب پرایمان نہ رکھنا اس بات کاسبب بن جاتاہے کہ اس کے معمول اورکا روبار میںکسی قسم کی منصوبہ بندی اور حساب وکتاب نہیں ہونے ہوتے ، اپنی محدود سی طاقت کے ذریعے پر وردگار کی لامحدود قدر ت سے مقابلہ کے لیے کمربستہ ہوجاتا ہے اورخدا کے پیغمبر وں کے خلاف مقابلے کی ٹھان لیتاہے ،اس لئے کہ وہ خود کسی حساب وکتاب کاپا بند نہیں ہوتا . اب دیکھنا یہ ہے کہ فرعون کی یہ دھمکی کہاں تک کارگرثابت ہوئی ؟بعد کی آیات اس مسئلے سے پردہ اٹھاتی ہیں اوراس مغرور ومتکبر شخص کے ہاتھوں سے موسٰی علیہ السلام کی نجات کی کیفیت واضح کرتی ہیں ۔
۱۔تفسیرالمیزان میں ہے کہ سورہ ٴ شعراء کی آیت ۳۶ ” ارجہ واخاہ “ (اسے اوراس کے بھائی کوکچھ نہ کہو) اس بات کی دلیل ہ کہ کچھ لوگ ایسے تھے جوفرعون کوموسٰی کے قتل سے روکتے تھے . لیکن موسٰی کی داستان سے متعلقہ آیات میںغور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت جناب موسٰی کے قتل کامنصوبہ زیرغور نہیں تھا . اس وقت صر ف اورصرف یہ بات پیش نظرتھی کہ دیکھیں آیاموسٰی علیہ السلام اپنے دعوے میں سچے ہیں یا جھوٹے ؟ قتل کامنصوبہ تو اس وقت زیرغور آنے لگا جب موسٰی جادو گر وں پر غالب آگئے اورمصر کے بہت سے لوگوں کے دل میں ان کااثر ورسوخ بڑھ گیااوراس طرح سے فرعون کو اپنا تخت وتاج خطرے میں نظرآنے لگا ۔
سوره مؤمن/ آیه 28- 29سوره مؤمن/ آیه 23- 27
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma