دلوں کوتسخیر کرنے کاطریقہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
سوره سبأ / آیه 28 - 30مجھے بتاؤ کہ کیوں ؟
اکثر دیکھا گیاہے کہ اہل فضل ا ور دانشمند افراد ، بحث واستد لال کے داؤ پیچ سے بے نیاز ی اورنفسیاتی پہلوؤں کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ،دوسرے کے افکار و نظر یات میں بالکل نفوذ نہیں کرسکتے ۔
اس کے برعکس ہم ایسے کئی افراد کوجانتے ہیں کہ  ، وہ علمی لحاظ سے اس پائے کہ نہیں ہوتے ، لیکن دلوں کوجذب کرنے اورانہیں مسخر کرنے اوردوسروں کے افکار میں نفوذ کرنے میں کا میاب اور موفق ہوتے ہیں ۔
اس کااصل سبب یہ ہے کہ مباحث کوپیش کرنے کاطریقہ اورمدِّ مقابل سے مباحثہ کرنے کی طرز ایسے اصولوں کے ساتھ ہونی چاہیئے کہ جو اخلاقی اورنفسیاتی پہلو سے ملی ہوئی ہو تاکہ مدِّ مقابل میں منفی پہلوؤں کونہ ابھار ے ، اوراُسے ہٹ دھرمی ارو بُغض وعناد پرنہ اکسائے ، بلکہ اس کے برعکس اس کے وجدان کوبیدار کرتے ہوئے حق طلبی اورحق جوئی کی روح اس میں زندہ کرے ۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ا نسان صرف غور وفکر اورعقل وخرد مجموعہ ہی نہیں ہے کہ وہ قدرتِ استد لال کے سامنے سر تسلیم خم کردے ، بلکہ وہ اس کے علاوہ گو ناں گوں ” عواطف “ اور” احساسات “ وجذ بات کامجموعہ بھی ہے . کہ جس کاہم حصہ اس کی روح تشکیل دیتاہے ،وہ اس کے وجود کے اندر ہی چھپا ہوا ہے کہ جسے صحیح اور معقول طریقہ سے مطالعہ کرناچاہیئے ۔
قرآن نے ہمیں اس راہ روش کی تعلیم دی ہے کہ مخالفین کے مقابلہ میں کس منطقی مباحث پیش کرتے ہوئے انہیں اخلاقی اصول کے ساتھ اس عنوان سے ملائیں کہ وہ ان کی روح کی گہرائیوں میں ر جائیں ۔
نفوذ کی شرط یہ ہے کہ مد مقابل یہ احساس کرلے کے کہنے والا ان اوصاف کاحامل ہے :
۱۔ جوکچھ وہ کہہ رہا ہے اُن باتوں پرایمان بھی رکھتا ہے ، اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس کے دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہاہے ۔
۲۔ اس بحث سے اس کامقصد حق جوئی وحق طلبی ہے ، نہ کہ غالب آنا اورفوقیت حاصل کرنا ۔
۳۔ وہ مد ِ مقابل کی قطعاً تحقیر وتذلیل نہیں چاہتا . اوراپنے آپ کوبزرگ اور بڑا کرکے پیش کرنانہیں چاہتا ۔
۴۔ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے دلسوزی اورخلوص سے کہہ رہا ہے اوراس کااس میں کوئی خاص شخصی نفع نہیں ہے ۔
۵۔ وہ مدِّ مقابل کے لیے احترام کاقائل ہے ،اوراسی وجہ سے وہ اپنی تعبیرات میںبحث کی نزاکت کوفراموش نہیں کرتا ۔
۶۔ وہ اپنے مدِ مقال کی ہٹ دھرمی کی حِسّ کوبلا وجہ بھڑ کانانہیں چاہتا اور اگر کسی موضوع پر کافی مقدار میںبحث ہوچکی ہوتو وہ اسی پر قناعت کرلیتا ہے ،اور بحث میںاصرار کرنے اور اپنی بات کوفوقیت دینے سے پرہیز کرتاہے ۔
۷۔ وہ اپنے افکار کودوسروں پرٹھونسنا نہیں چاہتا ، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ خود دوسروں میں ولولہ پیدا کردے تاکہ وہ خود اپنے شوق میں آزادی کے ساتھ حقیقت تک پہنچ جائیں ۔
۸ ۔وہ اپنے افکار کودوسروں پرٹھونسنا نہیں چاہتا . بلکہ وہ چاہتا ہے کہ خود دوسروں میں ولولہ پیدا کردے تاکہ وہ خوداپنے شوق میں آزادی کے ساتھ حقیقت تک پہنچ جائیں ۔
اوپر والی آیات می غور وفکرکرنا ، اورحکم ِ خداسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخالفین کے ساتھ مباحثہ کرنے کا طریقہ . جس میں بہت سے قابلِ غور نکات ہوتے ہیں . او پر والے مباحث پر بہترین گواہ ہیں ۔
و ہ بعض اوقات تو یہاں تک پڑھ جاتے ہیں کہ وہ حتمی طو ر پر اس بات کاتعین بھی نہیں کرتے ، کہ ہم تو راہِ ہدایت پر ہیں اور تم گمراہی کے طریقہ پرہو ، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ : ” ہدایت یاگمراہی پر یم ہیں یا تم “ تاکہ وہ اس بات میں غور کریں کہ ہدایت اور گمراہی کی نشانیاں کس گروہ میں پائی جاتی ہیں ۔
یاوہ کہتاہے کہ : ” قیامت کے دن خدا ہم سب کے درمیان فیصلہ کرے گا اور ہر کسی کو اس کی لیاقت کے مطابق جزا ٴ دے گا “ ۔
البتہ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ یہ سب باتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں کہ جن کی ہدایت کی امید ہی ہو، لیکن بے رحم ،ظالم اورہٹ دھرم دشمنوں کے ساتھ . جن کی طرف سے قبول کرنے کی کوئی امید ہی نہ ہو . قرآن ایک دوسرے طریقہ سے پیش آتا ہے (1) ۔
ا س بحث کے لیے . پیا مبرِ السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآئمہ معصومین علیہم السلام کااپنے مخالفین کے ساتھ بحث کاطریقہ . ایک بہترین نمونہ ہے ، نمونہ کے طور پر اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام سے کتبِ حدیث میں جو کچھ نقل ہوا اس پرتوجہ کیجئے ۔
توحید ” مفضل بن عمر “ کی مشہور حدیث کے مقدمہ میں ا س طرح نقل ہواہے : وہ کہتا ہے کہ میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مطہر کے پاس تھا ، اور پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرتبہ ومقام ِ عظمت کے بارے میں غور وفکر کررہاتھا کہ اچانک میں نے دیکھاکہ ” ابن ابی العوجا “ (مشہور مادہ پرست شخص ) وارد ہَوَا ، اور ایک کونے میں بیٹھ گیا ، اس طرح سے کہ میں اس کی باتیں سن سکتا تھا ، جب اس کے ساتھی اس کے گرد جمع ہوگئے ، تو اس نے کفرآمیز باتیں شروع کردیں کہ جن کانتیجہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کاانکار اوراس سے بڑھ کر خداوند تبارک و تعالیٰ کاانکار تھا ، اس نے بہت ہی شیطنت آمیز اور جچی تلی باتیں کیں ۔
میں اس کی باتیں سُن کرغضبناک اور پریشان ہوا ، میں اٹھ کھڑا ہوا اور چیخ کر کہا ، اے دشمن خدا ! کیاتو نے کفر کی راہ اختیار کرلی ہے ؟ اوراس خدا کا جس نے تجھے بہترین شکل میں پیدا کیاہے انکار کردیا ہے ؟
” ابن ابی العوجا “ نے میری طرف رُخ کیااور کہا ،تُو کون ہے ، اگر تُو علم ِ کلام کاعالم ہے تو دلیل پیش کر ، تاکہ ہم تیری پیروی کریں ، اور اگر تُو عالم نہیں ہے ، تو پھر تُو بات نہ کر ،اور اگر توجعفر بن محمد صادق علیہ السلام کے پیرو کاروں میں سے ، تو وہ توہم سے اس طرح سے بات نہیں کرتے ، جس طرح سے تُو بحث کررہا ہے ۔
انہوں نے تواس سے بھی بڑھ کرباتیں ہم سے سُنی ہیں انہوں نے تو کبھی بھی ناسز اور گالی نہیں دی ، اور ہمارے جواب میں غصہ یازیادتی کاراستہ اختیار نہیں کیا ،وہ توایک کو غورسے سنتے ہیں ، اور ہمارے دلائل سے آگاہ ہوتے ہیں ، جب ہم اپنی تمام باتیں کرلیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان پر فتحیاب ہوگئے ، تو اس کہ بعد وہ چھوٹے چھوٹے جملوں اورجچی تلی باتوں کے ساتھ ہمارے تمام دلائل کاجواب دیتے ہیں ، اور ہمارے تمام بہانوں کوقطع کردیتے ہیں . اس طرح سے کہ پھر ہم میں جواب دینے کی قدرت و طاقت ہی باقی نہیں رہتی . اگر تُو ان کے اصحاب میں سے ہے ، تو پھر تُو بھی ہمارے ساتھ اسی طرح سے با ت کر (2) ۔
1۔ اس تفسیر کی سو لہویں جلد سورہ عنکبوت کی آیت ۴۶ کے ذیل میں تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
2۔ ”توحید مفضل “ (اوائل کتاب ) ۔
سوره سبأ / آیه 28 - 30مجھے بتاؤ کہ کیوں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma