مجھے بتاؤ کہ کیوں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
دلوں کوتسخیر کرنے کاطریقہ سوره سبأ / آیه 22 - 27

ہم نے سورت کے آغاز میں کہاتھا کہ اس سورہ کی آیات کاایک قابلِ ملاحظہ حصّہ مبداٴ و معاد اوراعتقاد اتِ حقہ کے بارے میں گفتگو کرتاہے ، اوران کے ملانے سے سچے معارف کاایک مجموعہ حاصل ہوجاتاہے ۔
آیات کے اس حصہّ میں واقعاً مشرکین کومحاکمہ میں کھینچ لے جاتا ہے ، اورمنطقی سوالات کی کچل دینے والی ضربوں کے ذریعہ ان کوگھٹنو ں کے بَل گراتا ہے ، اور بتوں کی شفاعت کے بارے میں ان کی بوسیدہ منطق کابے بنیاد ہونا واضح و آشکارکرتاہے ۔
آیات کے اسلسلے میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پانچ مرتبہ مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے ، اوران سے کہہ دے ... اورہرمرتبہ بُتوں اور بُت پرستی کے کام کے سلسلہ میں ایک نیا مطلب پیش کرتاہے ، اس طرح سے کہ انسان آخر میں اچھی طرح سے محسوس کرلیتا ہے کہ کوئی مکتب بُت پرستوں کے مکتب سے زیادہ کھو کھلانہیں ہے ، بلکہ اس کوتو مکتب ومذہب کہاہی نہیں جاسکتا ۔
پہلی آیت میں فرماتا ہے : ” ان سے کہہ دے کہ جنہیں تم خدا کے علاوہ (اپنا معبود ) خیال کرتے ہو ، انہیں پکارو ، لیکن یہ جان لو کہ وہ ہرگز بھی تمہاری دعا اور پکار کاجواب نہیں دے سکتے اور تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتے “ (قُلِ ادْعُوا الَّذینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ ) (۱ )۔
اس کے بعد اس گفتگو کی دلیل پیش کرتے ہوئے کہتاہے : ” اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بنا وٹی معبود نہ تو آسمان و زمین میں ایک ذرہ برابراختیار رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں کی پیدا ئش اور ملکیت میں کوئی حصّہ اور شرکت رکھتے ہیںاور نہ ہی ان میں سے کوئی تخلیق کے کاموں میں خدا کایارو مدد گار تھا “ (لا یَمْلِکُونَ مِثْقالَ ذَرَّةٍ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْاٴَرْضِ وَ ما لَہُمْ فیہِما مِنْ شِرْکٍ وَ ما لَہُ مِنْہُمْ مِنْ ظَہیرٍ) ۔
اگروہ کسی مشکل کے حل پرقادر ہوں ،تواُن کے لیے ضروری ہے ،کہ وہ ان تین اوصاف میں سے کسی ایک کے تو حامل ہوں ، یاتو آسمان وزمین میںکسی چیز کی مستقل ملکیت رکھتے ہوں ، یا کم از کم امر ِ خلقت میںخدا کے ساتھ شرکت رکھتے ہوں ، یاان امورمیں سے کسی میں پروردگار کے معاون ومدد گار ہوں ۔
حالانکہ یہ بات صاف طو ر پر واضح وروشن ہے کہ واجب الو جود ایک ہی ہے اور باقی سب کے سب ممکن الو جود اوراسی کے ساتھ وابستہ ہیں ، کہ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے لطف وکرم کی نظر اُن سے اٹھ جائے تووہ دیارِ عدم کی طرف چلتے بنیں ۔
” اگر نازی کند یکدم ، فرو ریزند قالبھا “ !
اگروہ ایک لمحہ کے لیے بھی فخر و ناز کریں ، تو سارے سانچے گر پڑیں ۔
قابلِ تو جہ بات یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے : ” مِثْقالَ ذَرَّةٍ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْاٴَرْض“ یعنی ایسی موجودات کہ جوایک بے قدر وقیمت ذرّہ کے وزن کی مقدار کے برابربھی اس بے کراںآسمان اور وسیع و عریض زمین میں کسی چیز کے مالک نہیں ہیں ، تمہاری مشکلات تو رہی ایک طرف وہ اپنی ہی کون سی مشکل حل کرنے کے قابل ہیں ؟ !
یہاں یہ سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ اگر ایساہی ہے توپھر شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے مسئلہ کاکیا بنے گا ۔
بعدوالی آیت میں اس سوال کاجواب دیتے ہوئے اس طرح کہتاہے : اگر خدا کی بارگا ہ میں کچھ شفاعت کرنے والے موجود ہیں تووہ بھی اس کے اذن وفرمان سے ہے کیونکہ ” اس کے یہاں کوئی شفاعت فائدہ نہ دے گی سوائے ان کے جن کے لیے اس نے اذن دیاہوگا “ (وَ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ عِنْدَہُ إِلاَّ لِمَنْ اٴَذِنَ لَہُ) ۔
اس بناء پر بُت پرستوں کابُتوں کی پرستش کے بارے میں یہ بہا نہ کہ جو کہتے تھے : ” ھٰؤ لاء شفعاؤن عنداللہ “ ... یہ خدا کے یہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہیں (یونس . ۱۸ ) اس وسیلہ سے ختم ہوجاتاہے ، کیونکہ خدانے ہرگز انہیں اشفاعت کی اجازت نہیں دی ہے ۔
اس بارے میں کہ : ” الا لمن اذن لہ “ سوائے اس کے کہ جس کے لےے وہ اذن دے “ کاجملہ شفاعت کرنے والے کی طرف اشارہ ہے یاان کی طرف کہ جن کی شفاعت کی جائے گی ؟
مفسرین نے دونوں احتمال دیئے ہیں ، لیکن اس مناسبت سے کہ گزشتہ آیت میں بتوں کے بارمیں گفتگو ہورہی تھی اوروہ بتوں کی اپنا شفیع خیال کرتے تھے ، لہذا مناسب یہی ہے کہ یہ ” شفاعت کرنے والوں “ کی طرف اشارہ ہو ۔
کیایہاں ”شفاعت “ سے مراد دنیاکی شفاعت ہے یاآخرت کی ، دونوں ہی احتمال ہوسکتے ہیں ، لیکن بعد والے جملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہاں آخرت کی شفاعت مدِّ نظر ہے ۔
لہٰذا اس جملہ کے بعد اس طرح کہتا ہے : ” اس دن دلوں پراضطراب اور وحشت کاغلبہ ہوگا “ (شفاعت کرنے والے بھی اور جن کی شفاعت کی جائے گی وہ بھی اضطراب میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ، اور وہ سب کے سب اس انتظار میں ہوں گے کہ دیکھیں خدا کِن لوگوں کوشفاعت کی اجازت دیتاہے ؟ اور کِن لوگوں کی شفاعت کرنے کے لیے ؟ اور یہ اضطراب اور پریشانی کی حالت اسی طرح جاری رہے گی ) ” یہاں تک کہ فزع واضطراب ان کے دلوں سے زائل ہو اور خدا کی طرف سے یہ فرمان صادر ہو “ (حَتَّی إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِم) (۲) ۔
بہرحال اُس دن ایک شور وغوغا برپاہوگا ، شفاعت ہونے والوں کی نگاہیں شفاعت کرنے والوں پرلگی ہوئی ہوں گی ،اورزبانِ حال سے یا زبان قال سے ملتمسانہ ان سے شفاعت کاتقاضا کررہے ہوں گے ۔
یہ وہ مقام ہے کہ دونوں کی نگاہیں بھی فر مان ِخدا پرلگی ہوئی ہوں گی ، تاکہ (دیکھیں کہ ) کس طرح اور کس کے حق میں شفاعت کی اجازت دیتاہے ، یہ عمومی اور ہروقت کاوحشت واضطراب بھی اسی طرح جاری رہے گا ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے بارے میں کہ جواس کے لائق ہیں خدا ئے حکیم کی طرف سے شفاعت کافرمان صادر ہوگا ۔
یہ وہ مقام ہے کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کی طرف رُخ کریں گے اورایک دوسرے سے پوچھیں گے ( یا مجرم شفاعت کرنے والوں سے پوچھیں گے ) اور ” کہیں گے کہ تمہارے پروردگار نے کیاحکم دیاہے “ (قالُوا ما ذا قالَ رَبُّکُمْ) ۔
” وہ جواب میں کہیں گے کہ خدا نے حق کوبیان کیاہے “ (قالو االحق ) ۔
اور حق تواس کے سواکچھ نہیں ، کہ شفاعت کی اجازت صرف ان کے لیے ہوگی جنہوں نے خداسے کُلی طور پر اپنا رابط منقطع نہیں کیاتھا ، نہ کہ ان گنہگاروں اور مجرموں کے لیے جنہوں نے خدا ، پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اولیاء ، اللہ سے کلی طورپر بیگا نگی اختیار کرلی ہے اور تعلقا ت کے تمام رشتوں کوتوڑ کررکھ دیاہے ۔
آیت کے آخر میں مزید کہتاہے : ” وہی ہے بلند مقام اوربزر گ مرتبہ خدا “ (وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبیر)۔
یہ جملہ شفاعت کرنے والوں کی گفتگو کا آخر ی حصّہ اوراس کی تکمیل کرنے والا ہے . حقیقت میں وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خدا علیّ وکبیر ہے ،لہٰذا وہ جو حکم دیتاہے وہ عین واقعیت ہے اور ہرواقعیت اس کے احکام ودستور پرمنطبق ہے ۔
ہم نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ ایسی نزدیک ترین تفسیر ہے کہ جوآ یہ کے جملوں کے ساتھ ہم آہنگ اورمنظم ہے ، یہاں مفسرین نے دوسر ی تفسیر یں بھی بیان کی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض میں آیت کے متن ، اس کے ظاہر وباطن اوراس کے قبل وبعد کے ربط وتعلق کو کسی طرح بھی نظر میں نہیں رکھاگیا ۔
بعد والی آیت میں ایک اورطریقہ سے مشرکین کے عقائد کوباطل کرنے کے لےے آغاز کیاہے ، اور ” رازقیت “ کے مسئلہ کو مسئلہ “ خالقیت کے بعد کہ جو گزشتہ آیات میں یبان ہوا تھا ،عنوان کرتا ہے ، یہ دلیل بھی سوال و جواب کی صورت میں ہے تاکہ ان کے سوئے ہوئے وجدان کواس طرح سے بیدار کرے ، اوراس جواب سے کہ جو ان کے اندر سے جو ش مارتاہے ، اپنی غلطی اور اشتباہ کوسمجھ لیں ۔
کہتاہے : ” تم کہہ دو کہ کون ہے وہ کہ تمہیں آسمانوں اورزمین سے روزی دیتاہے اوران کی برکات کو تمہارے اختیار میں قرار دیے دیتاہے “ (قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّماواتِ وَ الْاٴَرْضِ) ۔
یہ بات صاف طو ر پر واضح وظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ پتھر اورلکڑی کے بُت آسمان سے بارش برساتے ہیں ، اورزمین سے گیا ہ اورسبز ے اگا تے ہیں ، اور آسمانوں اورزمین کے منبعوں اورذخائر کو ہمارے اختیار میں دیتے ہیں ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ بغیراس کے کہ ان کے جواب کاانتظار کرتا ، بلافاصلہ فرماتاہے : ” کہہ دو کہ اللہ “ ( قل اللہ )۔
کہہ دو کہ وہ خدا ہی ہے کہ جو اِن تمام برکات کامنبع ہے ، یعنی یہ مطلب اس قدر واضح وروشن ہے کہ طرفِ مقابل کے جواب کامحتاج ہی نہیں ہے ، کیونکہ مشرکین بھی خداہی کوخالق اوررِزق کا عطا کرنے والا جانتے تھے اور بُتوں کے لیے وہ بھی صرف مقامِ شفاعت ہی کے قائل تھے ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ پروردگا ر کے رزق اورروزیاں جو آسمان کی طرف سے انسانوں تک پہنچتی ہیں وہ بارش میں منحصر نہیں ہیں ،بلکہ ”سور ج “ کی روشنی اور حرارت “ اور ”ہَوَا “ کہ جو زمین کی فضا میں موجود ہے ،بارش کے حیات بخش قطرات سے بھی زیادہ اہم ہے ۔
جیساکہ زمین کی برکات بھی گیاہ اورسبز ہ زاروں میں منحصر نہیں ہیں ، بلکہ زیرِ زمین انواع واقسام کے پانی کے منبع ، طرح طرح کی معد نیات کہ جن میں سے بعض تواُس زمانہ میں بھی دریافت ہوچکے تھے ، اوربعض زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں ، سب کے سب اسی عنوان میں جمع ہیں ۔
آیت کے آخر میں ایک ایسے مطلب کی طرف اشارہ کرتاہے کہ جوخود ایک دلیل کی بنیاد بن سکتاہے ، ایک ایسی دلیل کہ جوحقیقت بینی اورانصاف و آداب سے ملی ہوئی ہے ، اس طرح سے کہ مخالف ہٹ دھرمی اور غرور کے مرکب سے نیچے اتر آئے اور غور وفکر کرے ، کہتاہے : ” یقینا ہدایت پر ، یاکھلی ہوئی گمراہی میں ہم ہیں یاتم “ (وَ إِنَّا اٴَوْ إِیَّاکُمْ لَعَلی ہُدیً اٴَوْ فی ضَلالٍ مُبین) (۳)۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارااورتمہاراعقیدہ آپس میںواضح تضاد رکھتاہے ، اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ دونوں حق ہوں م کیونکہ نقیضین اورضدین میں جمع ممکن نہیں ہے ، پس ایک گروہ اہل ہدایت کاہے اور دوسرا ضلالت وگمراہی میں گرفتار ہے ۔
اب تم خود غور کرو کہ کو نسا ہدایت یافتہ ہے اورکونساگمراہ ،دونوں گروہوں میں نشانیاں دیکھوکہ کس گروہ میں ہدایت کی نشانیاں ہیں اور کس میں گمراہی کی نشانیاں ۔
اور یہ منا ظرہ اوربحث کے طریقوں میںسے ایک بہتر طریقہ ہے کہ مدِّ مقابل اورفریق مخالف کوخود بخود غور وفکر اور جوش میں آنے کے لےے ابھا ر یں ،اور یہ جوبعض نے اسے تقیہ کی ایک قسم خیال کیاہے انتہائی غلط اور اشتباہ والی بات ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” ہدایت “ کہ لفظ ” علیٰ “ کے ساتھ ذکرکیا ہے اور ”ضلالت کو ” فی “ کے ساتھ کہ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہدایت یافتہ توگویاایک تیز رو مرکب پر بیٹھے ہوئے ہیں ، جبکہ گمراہ لوگ گمراہی اور جہالت کی ظلمت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ کہ پہلے ” ہدایت “ کے بارے میں گفتگو کی ہے ، اوراس کے بعد ” ضلالت “ وگمراہی کے متعلق ، کیونکہ پہلے جملہ کی ابتداء میں کہتاہے ” ہم “ اور پھر کہتا ہے ”تم “ تاکہ یہ پہلے گروہ کی ہدایت اور دوسرے گروہ کے بے ہدایت ہونے کی طرف ایک لطیف اور ہلکا سااشارہ ہو ۔
اگرچہ مفسرین کی ایک جماعت نے ” مبین “ کی صفت کوصرف ”ضلال “ کے ساتھ مربوط سمجھا ہے ، کیونکہ ضلالت وگمراہی کئی اقسام رکھتی ہے اورضلالتِ شرک سب سے زیادہ واضح و آشکار ہے ۔
لیکن یہ احتمال بھی موجود ہے کہ یہ توصیف ” ہدایت “ و ” ضلالت “ دونوں کے لےے ہو ، کیونکہ اس قسم کے موقعوں پرفصحا ء کے کلمات میںصفت کاتکرار نہیں ہوتا ، اس بناء پر ہدایت بھی مبین کے ساتھ توصیف ہوئی ہے اورضلالت بھی ، جیساکہ دوسری آیاتِ قرآنی مین یہ توصیف دونوں قِسموں کے لیے نظر آتی ہے (۴) ۔
بعد والی آیت میں پھراسی استد لال کوایک دوسری شکل میں . پھر اسی منصفانہ لبو لہجہ میں کہ جو مخالف کوہٹ دھرمی اور غرور کے مرکب سے اتار دے . جاری رکھتے ہوئے کہتاہے : ” کہہ دے کہ تم سے ہمارے گناہوں کے بارے میں باز پرس نہیںہوگی ، اور نہ ہی ہم سے تمہارے اعمال کے بارے میں کچھ پوچھا جائے گا (قُلْ لا تُسْئَلُونَ عَمَّا اٴَجْرَمْنا وَ لا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُون) ۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہاں پیغمبراس بات پر مامور ہیں کہ اپنے بارے میں توجرم کی تعبیر کرے اور اپنے مخالفین کے بارے میں ایسے کاموں سے تعبیرکرے کہ جووُہ انجام دیتے ہیں ،اوراس طرح سے اس حقیقت کوواضح وروشن کرے کہ ہرشخص کواپنے اعمال کاجوابدہ ہوناچاہیئے ،کیونکہ ہرانسان کے اعمال کے نتائج . وہ بُر ے ہوں یا اچھے خود اسے ہی پہنچتے ہیں ۔
ضمنی طور پر اس نکتہ کی طرف بھی ایک لطیف سااشارہ ہے م کہ اگر ہم تمہاری رہنمائی پراصرار کرتے ہیں تواس کی وجہ یہ نہیں ہے، کہ تمہارے گناہ ہمارے ذمہ لکھ دیئے جاتے ہیں یاتمہاراشرک ہمیں کچھ ضرر پہنچا تاہے ،بلکہ ہم تودل سوزی وحق جوئی اورحق طلبی کی بنا ء پر اس کام کا اصرار کرتے ہیں ۔
بعد میں آنے والی آیت درحقیقت گزشتہ دو آیات کے نتیجہ کابیان ہے ،کیونکہ جس وقت انہیں اس بات سے آگاہ اور خبر دار کردیاگیا ، کہ دونوں گروہوں میں سے ایک حق پر ہے اوردوسرا باطل ہر ہے ،اوراس بات کے لیے بھی خبردار کیاکہ ہم میں سے ہرایک اپنے اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے ، تو پھر اس حقیقت کوبیان کرتاہے کہ سب کی وضع وکیفیت کی جانچ پڑ تال کیسے ہوگی ، اور حق وباطل ایک دوسرے سے کس طرح جدا ہوگا ،اور ہرکسی کواس کی ذمہ داریوں اور مسئولیت کے مطابق ہی جزاوسز ملے گی ،لہٰذا فرماتاہے : ” ان سے کہہ دے کہ ہمارا پروردگار ہم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا ، اورپھر ہمارے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرے گا . اورہمیں ایک دوسرے سے جدا کردے گا تاکہ ہدایت یافتہ گمراہوں سے پہچانے جائیں ،اورہرایک اپنے اعمال کے نتیجہ تک جاپہنچے “ (قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنا رَبُّنا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنا بِالْحَقِّ ) ۔
اگر تم یہ دیکھ رہے ہو کہ آج سب کے سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ،اور ہرایک یہی دعویٰ کرتاہے ، کہ میں حق پرہوں ، اور میں اہل نجات میں سے ہوں ، تو یہ کیفیت ہمیشہ باقی اور برقرا ر نہیں رہے گی اور آخر کار ان صفوں کی جدائی کادن آن پہنچے گا ، کیونکہ پروردگار کی ” ربو بیت “ کاتقاضا یہی ہے کہ اچھائی برائی سے ، ناخالص سے ، اورحق باطل سے آخر کار جدا ہو جائیں ، اورہر ایک اپنے مقام پر رہے ۔
اب تم غور کرو کہ تم اس دن کیاکرو گے ؟ اور تم کون سی صف میںقرار پاؤ گے ، کیاتم نے اس دن کے لیے پروردگار کے سوالا ت کاجواب تیار کرلیاہے ۔
آیت کے آخر میں اس حقیقت کوواضح وروشن کرنے کی غرض سے کہ یہ کام یقینی طور پر ہو کہ رہے گا ، مزید کہتا ہے : ” وہی ہے فیصلہ کرنے والا اورحق کوباطل سے جدا کرنے والا ، آگاہ اور جاننے والا “ (وَ ہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلیمُ ) ۔
یہ دونوں نام کہ جو خدا کے اسماء حسنیٰ میں سے ہیں ، ان میں سے ایک صفوں کوالگ کرنے کے مسئلہ پرقدرت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا اس کے بے پایاں علم کی طرف ، کیونکہ حق وباطل کی صفوں کو ایک دوسر ے سے جدا ککرناان دو کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
اوپر والی آیت میں ” رب “ (پروردگار ) کے عنوان پرتکیہ کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا ہم سب کامالک و مربی ہے ، اوریہ مقام اس بات کاتقاضا کرتاہے کہ اس قسم کے دن کے لیے پرو گرام فراہم کیاجائے ، اورحقیقت میں یہ ” معاد “ کی دلائل میں سے ایک دلیل کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ۔
لفظ ” فتح “ جیساکہ ” راغب “ . ” مفردات “ میں کہتاہے ، اصل میں شبہات اور پیچید گی کوختم کرنے کے معنی میں ہے ،اور وہ دوقسم پرہے : کبھی تو یہ آنکھوں سے دیکھی جاتی ہے ، مثلا ً تالا کھولنا ،اور کبھی غور وفکر کرنے سے اس کا ادراک ہوتاہے ، مثلا ً غم و اندوہ اور دکھ درد کی پیچید گی کو دُور کرنا ، یاعلوم کے سر بستہ رازوں کو کھولنا ، اوراسی طرح دو افراد کے درمیان فیصلہ کرنا ،اوران کے نزاع اورمخاصمت کی مشکل کوکھو لنا ۔
اس بناء پر اگر یہ لفظ صفوں کوجدا کرنے کے بارے میں . خاص طو ر پر جہاں وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملی جلی ہوں . استعمال ہوا ہے ، تواس کی وجہ بھی یہی ہے . کیونکہ اس طرح ان کے درمیان جدائی کے علاوہ قضاوت اور فیصلہ بھی . کہ جو فتح کاایک معنی ہے . انجام پاجاتا ہے ، اور ہر کسی کوجس کاوہ مستحق ہوتاہے ، جزا دیتاہے ۔
قابل ، تو جہ بات یہ ہے کہ بعض رویات میں مشکلات کے حل کے لیے ” یافتّاح “ کے ذکر پر تکیہ کیاگیا ہے ،کیونکہ خدا کایہ عظیم نام کہ جو ”فتح “ سے صیغہ مبالغہ کی شکل میں آیاہے ، پروردگار کی ہر مشکل کو حل کرنے کی طاقت ، اورغم واندوہ کودور کرنے اور ہرفتح و کا مرانی کے اسباب فراہم کرنے کی قدرت کو بیان کرتاہے ، واقعاً کوئی بھی اس کے سوا ” فتّاح “ نہیں ہے ،اور بند درو ازوں کی ” مفتاح “ اور چابی اسی کے دستِ قدرت میں ہے ۔
آخر ی میں زیربحث آیت میں ، کہ جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے (اس سلسلے کا ) انچواں فرمان ہے ، پھر ایک مرتبہ مسئلہ توحید کی طرف .کہ جس سے گفتگو کی ابتداء کی تھی . دو بارہ لوٹتا ہے ، اور اس مسئلہ کے ساتھ بحث کوختم کرتاہے ۔
فرماتا ہے : ” کہ دے کہ جنہیں تم نے شریک کے عنوان سے خدا کے ساتھ ملحق کیاہے ، مجھے دیکھا تو سہی “ (قُلْ اٴَرُونِیَ الَّذینَ اٴَلْحَقْتُمْ بِہِ شُرَکاء َ) ۔
ان میں کون سی صلاحیت اور کیا قدروقیمت ہے ، اگر تمہاری مراد یہی مٹھی بھربے جان اور خاموش پتھر اورلکڑیاں ہیں توکتنی بد بختی اور شرمساری کی بات ہے کہ عالمِ جمادات میں سے اپنے ہی ہاتھ کی ساختہ و پر داختہ چیزوں کو کہ جوموجودات میں سے سب سے پست ہیں لے لو اور انہیں خدا وندعظیم کے مانند خیال کرو ۔
اور اگر تم انہیں ارواح فرشتوں کے سمبل اورنمونہ سمجھتے ہو تو پھر بھی یہ ایک مصیبت ہے اور گمراہی ہے کیونکہ وہ بھی اسی کی مخلوق اوراسی کے تابع فرمان ہیں ۔
لہٰذا اس جملہ کے بعد ایک ہی لفظ کے ساتھ ان تمام اوہام پرخطِ بطلان کھینچتے ہوئے کہتا ہے ، انتہاہو چکی ہے ، اب توتم بیدار ہوجاؤ ، کب تک اس غلط راستے پر چلتے رہو گے ۔
حقیقت میں ” کلّا “ ایک ایسا چھوٹا سالفظ ہے کہ جو ان تمام معانی کواپنے اندر لےے ہوئے ہے ،اور آخرمیں اس بات کی تاکید اور فیصلہ کے طور پر کہتا ہے : ” بلکہ وہی صرف خداوند عزیز وحکیم ہے “ (بَلْ ہُوَ اللَّہُ الْعَزیزُ الْحَکیم) ۔
اس کی عزت اوراس کے شکست ناپذیرہونے کاتقاضا یہ ہے کہ اس کے حریم الوہیت تک کسی کی رسائی نہ ہو اوراس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس قدرت کوصحیح طور سے صرف کرے ۔
ہاں ! ان صفات کاحامل ہوناواجبالوجود ہونے کی نشانی ہے ، اور واجب الو جود لامتناہی ہستی ہوتی ہے کہ جوکبھی بھی قابل ِ تعدد نہیں ہوتی ، اوراس کاکوئی شریک اورمثل نہیں ہوتا کیونکہ ہرتعداد اسے محدود وممکن بناتا ہے ،جبکہ وجود بے پایاں صرف ایک ہی ہے . (غور کیجئے ) ۔
۱۔ اس جملہ میں درحقیقت دو تقدیر یں ہیں ، پہلی ” زعمتم “ کے بعد ” انھم اٰلھة “ کاجملہ مقدرہے ، اور ” من دون اللہ “ کے بعد ”لا یستجیون دعاٴ کم “ کاجملہ مقدر ہے ، اور مجموعی طو ر پر یہ جملہ اس طرح ہوجاتاہے :
” قل ادعواالذین زعمتم انھم اٰلھة من دون اللہ لا یستجیبون لکم “ ۔
۲۔ ”فذع “ مادہ ” فزع “ ہے جس وقت ”عن “ کے ذریعہ متعدی ہو تو فزع کے ازالہ او ر وحشت واضطراب کے برطرف ہونے کے معنی میں ہے ، یہ مادہ اس صورت تک بھی جبکہ یہ ”ثلاثی مجرد “ کی شکل میں ہو اورعن سے متعدی ہو تو پھر بھی یہی معنی دیتاہے ۔
۳۔ یہ جملہ تقدیر میں اس ترتیب سے دو جملوں کی طرف لوٹتا ہے : وانا لعلی ھدی اوفی ضلال مبین وانکم لعلی ھدی اوفی ضلال مبین ، تفسیر مجمع البیان جلد ۷ ،ص ۳۸۸۔
۴۔ سورہ نمل کی آیہ ۱ ، نور کی ۱۲ط، ہود کی ۶ ،قصص کی ۲ ،اور نمل کی آیہ ۷۹ کی طرف رجوع کریں ۔
دلوں کوتسخیر کرنے کاطریقہ سوره سبأ / آیه 22 - 27
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma