قرآن مجید نے اوپر والی آیات میں قومِ سبا کی داستان بیا ن کی ہے ، اور مدتیں
گزرچکی تھیں کہ دنیا جہان کے مئورخین اس قسم کی قوم اور اس طرح کے تمدن سے بے خبری
کا اظہا رکرتے تھے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مئورخین جدید انکشافات سے پہلے ملوک سبا کے سلسلہ اور ان
کے عظیم تمدن کانام تک نہیں لیتے تھے اور ” سبا “ کوصرف ایک فرضی شخص سمجھتے تھے ،
کہ جو حکومت ”حمیر “ کے بانی کاباپ تھا ، جبکہ قرآن میں ایک پوری سورت اسی قوم کے
نام کی ہے ، اوران کے تمدن کے مظاہر میں سے ایک مظہر کی طرف جو مآرب کے تاریخی بند
کی تعمیرہے ، اشارہ کررہی ہے لیکن یمن مین اس قوم کے تاریخی انکشافات کے بعد ماہر
دانشمندوں کاعقیدہ دگر گوں ہوگیاہے ۔
اس بات کاسبب ، کہ اب تک قوم ”سبا “ کے تمدن کے آثار معلوم نہ ہوئے ، دو باتیں
تھیں ، ایک تو راستہ کی سختیاں اور آب و ہَوَا کی شدید گرمی ، اور دوسرے اس علاقے
کے لوگوں کی بیگانوں اور اجنبی لوگوں کے بارے میں بد گمانی ، جسے بے خبر اور ناآگا
ہ یورپ والے کبھی کبھی وحشت سے تعبیر کرتے تھے ، یہاں تک کہ چند ماہرین آثارِ
قدیمہ ، کہ جو سباکہ اسرار کھول لنے کی طرف شدید لگاؤ رکھتے تھے ، شہر ” مآرب “ کے
قلب اوراس کے نواح میں وارد ہونے میں کا میاب ہوگئے ، اور پتھروں پر ثبت شدہ آثار
خطوط اورنقوش کے نمونے اٹھا کرلے گئے ،اوراس کے بعد انیس یں صدی عیسوی میں کئی گروہ
نے یکے بعد دیگر ے وہاں تک راہ انکالی لی ، اوروہاں سے گراں بہاآثار اپنے ساتھ
یورپ لے گئے اوران نقوش وخطوط اور دوسرے آثار کے مجموعہ سے کہ کہ جو ایک ہزار نقوش
تک پہنچے ہوئے تھے ، اس قوم کے تمد کی جزئیات بلکہ سدِ مآرب کی بنا ء کی تاریخی
اوردوسرے خصوصیات تک معلوم کرلیے ، اور اہل مغرب پرثابت ہو گیا کہ قرآن نے اس
سلسلے میں جو کچھ کہاتھا وہ کوئی افسانہ نہیں تھا ، بلکہ وہ ایک تاریخی واقعیت
اورحقیقت ہے ، کہ جس سے وہ بے خبرتھے ، اس طور پر کہ اب توانہوں نے اس عظیم سد ،
اور پانی کے گزرنے کے مقامات اور دائیں بائیں باغوں کی درمیانی نہروں اوراس کی
دوسری خصوصیات کے بارے میں نقشے بھی تیار کرلیے ہیں (1) ۔
1۔ فرہنگ قصص القرآن . مادہ ” سبا“ (ملخص ) ۔