وہی ہر چیز کامالک اور ہرچیز کاعالم ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
سوره سبأ / آیه 3 - 5سوره سبأ / آیه 1 - 2

قرآن مجید کی پانچ سورتیں پروردگار کی حمد سے شروع ہوتی ہیں ، جن میں سے تین سورتوں میں خداکی حمد و تعریف آسمان و زمین اوردوسرے موجودات کی خلقت کی بناء پر ہے ( سورہ سبا سورہ فاطر ، اور سورہ انعام ) اورایک سورہ ( کہف ) میں یہ حمد و ثنا پیغمبر کے قلب ِ پاک پرقرآن کے نزول کی بنا پر ہے ۔
جبکہ سورہٴ حمد میں ایک جامع تعبیرہے کہ جو ان تمام امور کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے :
)الحمد اللہ رب العالمین ) ۔
بہر حال سورہٴ سبا کے ابتداء میںخدا کی حمد و ثنا کے ساتھ گفتگو دنیا و آخرت میں اس کی مالکیت و حاکمیت کی بنا پر ہے ، فرماتا ہے :
”حمد مخصوص ہے اس خدا کے لےے کہ جو آسمانوں اورزمین کی تمام چیزوں کامالک ہے “ ( الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذی لَہُ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْاٴَرْضِ )۔
” آخرت میں بھی حمد اسی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے “ ( و لَہُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَة ) ۔
اسی طرح سے دونوں جہانوں کی حاکمیت و مالکیت اسی کے لیے ہے . ہر نعمت موہبت، ہرفائد ہ و برکت اورہر موزوں و عجیب و غریب خلقت اسی کی ذات پاک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے . اوراسی بنا پر ”حمد “ کہ جس کی حقیقت ” اچھے اورختیار ی کاموں “ پر تعریف و ستائش ہے ، سب کی سب اسی کی طرف لوٹتی ہیں ۔
اوراگر مخلوقات میںبھی کوئی لائق حمد و ستائش ہے تووہ بھی اسی کے وجود کا پرتو اوراس کے افعال وصفات کی ایک شعاع ہے ۔
اس بنا پر اس دنیا میں جوبھی کسی چیز کی حمد و ستائش کرتاہے تو یہ حمد و ستائش آخر کار اسی کی پاک ذات کی طرف لوٹ جاتی ہے اور بقول شاعر :
یہ جہاں خرم از آنم کہ جہاں خرم از اوست
عاشقم برہمہ عالم کہ ہمہ عالم از او ست
” میں اس جہان سے اس وجہ سے خوش ہوں کیونکہ یہ جہان اسی کی وجہ سے خوش ہے ، میں سارے عالم پر اس وجہ سے عاشق ہوں کیونکہ سارا عالم اس کی طرف سے ہے “
آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے : ” وہ حکیم اورخبیر ہے “ ( وھو الحکیم الخبیر ) ۔
اس کی حکمت بالغہ کی بنیاد پر ہی یہ عجیب و غریب نظام جہان پر حکومت کررہا ہے اوراس کے علم و آگاہی کی بنیا د پر ہی ہرچیز اپنی جگہ پر برقرار ہے اور ہر موجود کوجس چیز کی ضرورت ہے وہ اس کے اختیار میں ہے ۔
اس بارے میں کہ خدا کی آخرت کے بارے میں حمد سے کیامراد ہے ؟ مفسرین نے اس پر بہت بحث کی ہے ۔
بعض نے تو یہ کہاہے کہ اگرچہ دارِ آخرت دارِ تکلیف نہیں ہے ، لیکن خداکے بندے وہاں پر اس کی عاشقانہ انداز میںحمد و ستائش کریں گے اوراس کی حمد وستائش سے لذت حاصل کریں گے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ بہشتی تواس کے فضل و کرم کی وجہ سے اس کی حمد کریں گے اور دوزخی اس کے عدل و انصاف کی وجہ سے ۔
کبھی یہ کہاجاتا ہے کہ وہ انسان کہ جو اس دنیا میں نہیں وہ اپنے قلب و فکر پرپڑ ے ہوئے حجابوں کی وجہ سے غالبا اس کی خالص حمد وثنا نہیں کرتے لیکن قیامت میں تمام حجاب ہٹ جائیں گے اور : ” الملک یومئذ اللہ “ کے مصداق تمام عالم ہستی پرخدا کی مالکیت سب پرواضح و آشکار ہوجائے گی ، اور سب کے سب کامل خلوص ِ نیت کے ساتھ اس کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجائیں گے ۔
علاوہ ازیں اس جہان میں تو یہ بات ممکن ہے کہ انسان غافل ہو جائیں اور کچھ موجودات کو ذاتِ خداسے مستقل خیال کرلیں ، اور ان کی تعریف وتوصیف کرنے لگیں ، لیکن وہاں توسب کااس کی پاک ذات کے ساتھ تعلق اس طرح سے واضح و آشکار ہوجائے گا جس طرح اس دنیا میں سورج کی شعاعوں کا سورج کے ساتھ رابط واضح و آشکار ہے ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر قرآن مجید میں بھی بار ہا آیاہے کہ جنتی وہاں خداکی حمد کریں گے : ” واخرد عواھم ان الحمد اللہ رب اللعا لمین “ ( یونس ، آیت ۱۰ ) ۔
جنتیوں کی آخری بات یہ ہے کہ وہ کہیں گے کہ حمد وتعریف اس خدا کے لیے ہے کو جو عالمین کاپر وردگا ر ہے ۔
دوسری جگہ ہم یہ پڑھتے ہیں کہ جس وقت مومنین بہشت جاو دانی میں وارد ہوں گے تووہ یہ کہیں گے : ” حمد و شکر ہے اس خدا کے لیے کہ جس نے ہم سے غم واندوہ کو برطرف کیا “ ۔
)و قالو االحمد اللہ الذی اذھب عناالحزن ) ( فاطر . ۳۴ ) ۔
یہ حمد و ثناصرف انسانوں اورفرشتوں کی زبان سے ہی نہیں ، بلکہ عالم ہستی کے تمام ذرات سے بھی اس کی حمد وتسبیح کازمز مہ با ہوش کان میں پہنچ رہاہے ، کوئی موجود بھی ایسا نہیں ہے کہ جو اس کی حمد وتسبیح نہ کرتا ہو ۔
بعد والی آیت ، گزشتہ آیت میں خدا کی ”حکیم “ و ” خبیر “ کے ساتھ توصیف کی مناسبت سے پرور دگار کے بے پایاں علم کے ایک گوشہ کی تشریح کررہی ہے اوراس طرح کہتی ہے : ” جوکچھ زمین میں داخل ہوتاہے وہ اسے بھی جاتنا ہے اورجو کچھ اس سے باہر نکلتاہے وہ اس سے بھی آگاہ ہے “ ( یَعْلَمُ ما یَلِجُ فِی الْاٴَرْضِ وَ ما یَخْرُجُ مِنْہا )۔
وہاں ! وہ جانتا ہے بارش کے تمام قطرات اورسیلا ب کی موجوں کو جو زمین کی گہرائیوں میں داخل ہوتی ہیں اورنفوذ ناپذ یر طبقہ تک پہنچتی ہیں اور وہاں مجتمع ہوجاتی ہیں ، اور انسانوں کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہیں ۔
وہ با خبر ہے گیاہ اورسبز زاروں کے دانوں سے کہ جو ہوایا حشرات الارض کی مدد سے وسیع و عریض زمین میں بکھر جاتے ہیں ، اور زمین کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اورایک دن سرسبز درخت یاہرے بھرے گیاہ اورسبز ے میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
وہ باخبرہے درختوں کی جڑوں سے ، کہ جس وقت وہ پانی اورغذاکی تلاش میں زمین کی گہرائیوں میں چلتی ہیں ۔
برق لہروں سے ،مختلف گیسوں اور ہَوَا کے ذرات سے ، کہ جوزمین کے اندر نفوذ کرتے ہیں ، ان جانداروں سے سے کہ جو زمین کے اندر داخل ہواجاتے ہیں اوراسے زندگی بخشتے ہیں ، نیز خزانوں و فینوں اور مردہ چیزوں کے بدنوں سے ،خواہ و ہ انسان ہوں یاغیر انسان ، کہ جو اس زمین میں دفن ہیں ،ہاں ! وہ ان سب سے باخبر ہے ۔
اسی طرح ان گیا ہوں اورسبز وں سے کہ جو زمین سے نکلتے ہیں ، ان انسانون سے کہ جو اس سے اٹھے ( پیدا ہوئے ) ہیں ، ان چشموں سے جو اس سے ابلتے ہیں ، ان گیسوں سے جو اس سے اٹھتی ہیں ، ان آتش فشاں پہاڑوں سے کہ جو اس سے بھڑ کتے ہیں اوران حشرات سے کہ جو زمین کے اندربل رکھتے ہیں اور اس سے سر باہر نکالتے ہیں . خلاصہ یہ کہ ان تمام موجودات سے ، کہ جوزمین کی گہرائیوں سے باہر نکلتے ہیں ، خواہ ہم ان میں سے کسی کو جانتے ہوں یانہ جانتے ہوں ، وہ ان تمام پرمطلع اور سب سے آگاہ ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : ” وہ ان تمام چیزوں سے جوآسمان سے نازل ہوتی ہیں یاآسمان کی طرف اوپر جاتی ہیں ( وَ ما یَنْزِلُ مِنَ السَّماء ِ وَ ما یَعْرُجُ فیہا) ۔
بارش کے قطروں سے ، سور ج کی حیات بخش شعاعوں سے ، وحی اورآسمانی شریعتوں کی طاقتور موجوں سے ، ان فرشتوں سے جو تبلیغ رسالت یادوسرے کاموں کو انجام دہی کے لیے زمین پرنازل ہوتے ہیں ، ان کبریائی شعاعوں سے کہ جو فضا کے باہر سے زمین پرنازل ہوتی ہیں ، ان شہابوں اورفضامیں گھومنے والے سنگریزوں سے کہ جو زمین کی طرف ( آتے ہوئے فضامیں ) جذب ہوجاتے ہیں ، وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔
نیز بندوں کے اعمال سے کہ جو آسمان کی طرف عروج کرتے ہیں ، ان فرشتوں سے کہ جو اپنی رسالت کی ادائیگی کے بعد آسمانوں کی طرف لوٹتے ہیں ، ان شیاطین سے کہ جو ( استراق سمع ) باتیں چرانے کے لیے آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ، او نچے او نچے درختوں کی شاخوں سے جو آسمان کی طرف سراٹھا ئے بڑھی چلی جا رہی ہیں ، اُن بخارات سے کہ جو سمندروں سے اٹھتے ہیں اور آسمان کی بلند ی پر جاکر بادل بتا تے ہیں ، اُس آہ و فریاد سے کہ جو کسی مظلوم کے دل سے اٹھتی ہے اور آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے ، وہاں ! وہ ان تمام چیزوں سے آگا ہ ہے ۔
کیااس کے سوا اور بھی کوئی ان امور سے آگاہ ہے ؟ کیسا نوع بشرکے تمام دانشمنداور علماء کا علم ان معلومات کے کسی ایک گوشہ پر احاطہ رکھتا ہے ؟
آخر میں مزید کہتاہے کہ : ” وہ رحیم ہے اورغفور ، مہر بان اور بخشنے والا ، ( و ھو الرحیم وغفور ) ۔
اس مقام پر خدا کی ان دوصفا ت کے ساتھ توصیف ، یاتو اس بنا ٴ پر ہے کہ ‘ ان امور مین سے کہ جو آسمان کی طرف اوپر چڑھتے ہیں ، وہ بندوں کے اعمال اوران کی ارواح ہیں ، تو وہی ان کے اوپر اپنی رحمت و مغفر ت کا سا یہ ڈالنے والا ہے ۔
یااس بنا پر ہے ، کہ آسمانی برکات ومواہب کانزول اس کی رحمت کانتیجہ ہوتا اوروہ اعمال ِ صالح کہ جو بندوں کی طرف سے ” والعمل الصالح یرفعہ “ کے مطابق او پر جاتے ہیں ، ا س کی مغفرت کو پالیتے ہیں ۔
یایہ کہ وہ لوگ کہ جو ان نعمتوں کاشکر ادا کرتے ہیں ، تو رحمت ان کے شامل ِ حال ہوتی ہے ، اوروہ لوگ کہ جو قصور وار اور گنہگار ہیں ، اگر حد سے نہ بڑ ھ جائیں تو مغفرت ان کے شامل ِ حال ہوتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ او پر والی آیت اپنے تمام پہلو ؤں کے لحاظ سے ایک وسیع و عریض معنی رکھتی ہے اور اس کو ایک ہی جہت میں محدود نہیں کرنا چاہئیے ۔
سوره سبأ / آیه 3 - 5سوره سبأ / آیه 1 - 2
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma