۳۔ یہ پانچ علوم خدا کے ساتھ مخصوص ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره الم سجده کی فضیلت اور مضامین۲۔ دُنیا کی فریب کاری

اس سے قطع نظر کہ اوپروالی آیت کا لب ولہجہ حکایت کرتا ہے کہ قیامت، بارش کے نزول، رحمِ مادر میں جنین کی کفیت، وہ امورکہ جنھیں انسان آئندہ انجام دے گا اور اس کی موت کی جگہ سے آگاہی اور اس کا علم خدا کے اختیار میں ہے اور خدا کے علاوہ کسی اور کو ان تک کوئی رسائی نہیں، وہ روایات بھی جو اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں، نیز اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں۔
منجملہ ان کے ایک حدیث میں ہے:
”ان مفاتیح الغیب خمس لایعلمھن الا اللّٰہ وقراٴ ھذہ الاٰیة“
غیب کی چابیاں پانچ ہیں کہ جنھیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھرآپ نے اوپروالی آیت کی تلاوت فرمائی۔(۱)

نہج البلاغہ کی ایک اور روایت میں ہم پڑھتے کہ جس وقت حضرت علی علیہ السلام آئندہ کے واقعات کے بارے میں خبردے رہے تھے۔ تو ایک صحابی نے عرض کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام آپ غیب کی خبردے رہے ہیں؟ اور آپ علم غیب سے آشنا ہیں؟
امام نے ”نبی کلب “ کے اس شخص سے مسکراکر فرمایا:
”یا اخا کلب! اٴ لیس ھو بعلم غیب، وانّما ھو تعلم من ذی علم، وانّما علم الغیب علم الساعة وما عددہ اللّٰہ سبحانہ بقولہ <انّ اللّٰہ عندہ علم الساعة.....“ فیعلم اللّٰہ سبحانہ مافی الار حام، من ذکر اٴو انثی، وقبیح اٴو جمیل، وسخی اٴوبخیل، وشقی اٴوسعید، ومن یکون فی النّار حطباً وفی الجنان للنبیّن مرا فقاً، فھذا علم الغیب الّذی لایعلمہ الّا اللّٰہ، وماسوی ذلک فعلم علمہ اللّٰہ نبیہ فعلمنیہ ودعالی بان یعیہ صدری وتضطم علیہ جوانحی!“.
اے بھائی کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے، بلکہ یہ اس (رسول) سے حاصل کی ہوئی باتیں ہیں جو خزانہ علم (الٰہی) تھے۔
علم غیب تو قیامت کا وقت اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے، جنھیں خداوندِعالم نے اپنے ارشاد ”انّ اللّٰہ عندہ علم السّاعة....الخ“ میں شمار کیا ہے۔
پس خداہی جانتا ہے کہ رحم مادرمیں کیا ہے ؟ نرہے یامادہ؟ بد صورت ہے یاخوبصورت ؟ سخی ہے یا بخیل ؟ شقی ہے یانیک اور کون جہنّم کا ایندھن بنے گا؟ اور کون جنت میں نبیوں کے ساتھ، یہ ہے وہ علم غیب جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ (ہم جانتے ہیں) خدا نے اپنے نبی کو عطافرمایا اور نبی نے مجھے بتلادیا اور میرے لیے دعا فرمائی کہ میرا سینہ انھیں اس طرح محفوظ رکھے، جیسے ترکش تیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور میری پسلیاں انھیں سمیٹیں رہیں۔ (2)
اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہو جاتاہے کہ لوگوں کی ان پانچ امور سے عدم آگاہی سے مرادان کی تمام خصوصیات ہیں مثلاً اگر کسی دن ایسے وسائل وذرائع انسان کے اختیار میں آجائیں (جب کہ ابھی تک وہ دن نہیں آیا) اور جنین کے لڑکے لڑکی ہونے سے قطعی طور پر آگاہ ہوجائیں تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ کیونکہ جنین سے آگاہی یہ ہے کہ اس کے تمام جسمانی خصوصیات بد صورت اور خوبصورتی سلامتی وبیماری اندرونی استعدادیں علمی وفلسفی وادبیِ ذوق اور دوسرے روحانی اوصاف اور کیفیات جان لیں اور یہ امرخدا کے علاوہ کسی اور کے بس میں نہیں ہے۔
اسی طرح یہ کہ بارش کب ہوگی؟ اور کون سے علاقہ پر برسے گی؟ اور ٹھیک ٹھیک کتنی مقدار دریا، صحرا، درہ، کوہ وبیاباں میں برسے گی؟ خداکے علاوہ کوئی نہیں جانتا!
اور کل اور آیندہ دنوں کے حوادث اور ان کی خصوصیات وجزئیات بھی اسی طرح ہیں۔
اور یہاں سے اس سوال کا جواب جوعام طور پریہاں پیش آتا ہے، اچھی طرح واضح ہو جاتاہے۔ یہ جوکہتے ہیں کہ ہم تاریخوں اور متعددروایات میں پڑھتے ہیں کہ صرف ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی نہیں بلکہ ائمہ علیہم السلام کے علاوہ دوسرے اولیاء اللہ نے اپنی موت کے متعلق خبردی یا اپنے مومن کو بیان کیا، جن میں سے کربلا سے تعلق رکھنے والے واقعات بھی ہیں؟ چنانچہ ہم نے کئی روایات میں پڑھاہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور انبیاء ماسلف نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے یاروانصار کی اس سرزمین میں شہادت کی خبردی ہے۔
اور کتاب اصول کافی میں ایک باب ائمہ کی اپنی وفات کے وقت سے آگاہی کے سلسلہ میں نظرآتاہے۔
تواس کا جواب یہ ہے کہ ان بعض امورسے آگاہی علم اجمالی کی صورت میں ہوتی ہے اور وہ بھی تعلم الٰہی کے طریق سے، تو اس کا خدا کی ذات پاک سے مخصوص تفصیلی علم کے ساتھ کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں ہے۔
اور پھریہ کہ جیسا ہم کہہ چکے ہیں کہ ان کایہ اجمالی علم بھی ذاتی اور استقلالی نہیں ۔ بلکہ بالعرض اور خدا کی طرف سے تعلیم کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جتنا خدا چاہتا اور مصلحت سمجھتاہے۔ (3)
اسی لیے ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آپ کے صحابی نے سوال کیا کہ کیا امام علمِ غیب جانتا ہے؟
”قال لا، ولٰکن اذا اٴراد اٴن یعلم الشیء اٴعلمہ اللّٰہ ذلک“
”فرمایا نہیں امام علمِ غیب ”ذاتی طورپر“ نہیں جانتا۔ لیکن جب بھی کسی چیز کو جاننا چاہتاہے توخدا اسے آگاہ کردیتا ہے“(4)
علمِ غیب اور انبیاء وائمہ کے علم کی کفیّت کے بارے میں بہت سی روایات واردہوئی ہیں، جن کے متعلق متعلقہ آیات کے ذیل میں ہم بحث کریں گے۔ لیکن مسلم ہے کہ ان کے درمیان کچھ ایسے علوم ہیں کہ جن سے خدا کے علاوہ کوئی بھی آگاہ نہیں ہے۔ (5)
پرودردگارا . ہمارے دل کی آنکھ علم ودانش کے نورسے منور فرما اور اپنے بے پایاں علم کا ایک گوشہ مرحمت فرما۔
خدا وندا! ایسا کر کہ اس دُنیا کا زرق وبرق ہمیں فریب نہ دے اور دھو کہ باز شیطان اور ہوائے نفس ہمیں مغرور نہ کرے۔
بارِ الٰہا! ایسا کردے کہ ہم ہمیشہ تیرے احاطہ علمی سے آگاہ رہیں اور تیرے حضورتیری رضاکے خلاف کوئی کام انجام نہ دیں۔
۱۔ مجمع البیان، ذیل آیت زیر بحث.
2۔ نہج البلاغہ، خطبہٴ۱۲۸.
3۔ اصول کافی، جلد ۱، ص۲۰۲، باب ”انّ الائمة یعلمون متی یموتون“.
4۔ اصول کافی، ج۱، ص۲۰۱، باب نادر فیہ ذکر الغیب.
5۔ کتاب ”اصول کافی “ میں ہمیں متعدد ورایات ملتی ہیں کہ خدا ایسا علم بھی رکھتا ہے، جس سے اس کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں اور کچھ علم ایسا ہے، جس کی ملائکہ انبیاء(علیهم السلام) اور ائمہ(علیهم السلام) کو اس نے تعلیم دی ہے، جلد ۱، ص۱۹۹، باب ”انّ الائمة (ع) یعلمون جمیع العلوم التی خرجت الی الملائکة “.
سوره الم سجده کی فضیلت اور مضامین۲۔ دُنیا کی فریب کاری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma