خدا کے علم کی وسعت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
۱۔غرور وفریب کی قسمیںسوره لقمان / آیه 33 - 34

ان دوآیات میں جو سورئہ لقمان کی آخری آیات میں پہلے مجموعی طور پر اور ایک اجمالی صورت میں گذشتہ پنددنصائح اور توحید ومعاد کے دلائل ذریعہ کے ذریعہ تمام انسانوں کو خدا اور قیامت کے دن کی طرف متوجہ کرتا ہے اور شیطان کی طرف سے پیداہونے والے غوور وتکبر سے ڈراتاہے اور اس کے بعد علمِ خدا کی وسعت اور تمام چیزوں کو اس کی شمولیّت اور اس کی عمومیّت کو بیان کرتا ہے۔
فرماتاہے” اے لوگوں! خدا سے ڈرو“: (یَا اٴَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُم) ۔
”اور اس دن سے ڈرو کہ جس میں نہ باپ اپنے بیٹے کے کناہ کا بوجھ اپنے کندھے پراٹھا ئے گا۔ نہ ہی بیٹاباپ کی ذمہ داری میں سے کسی چیز کا متحمل ہوگا:“ (وَاخْشَوْا یَوْمًا لَایَجْزِی وَالِدٌ عَنْ وَلَدِہِ وَلَامَوْلُودٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِہِ شَیْئًا) ۔
حقیقت میں پہلا فرمان مبداء کی طرف توجہ ہے اور دوسرا معاد کی طرف۔
پہلا حکم انسان میں خبردار رہنے کی قوت کو زندہ کرتا ہے اور دوسرا پاداش وکیفر اور جزاء سزا کے احساس کو، اور اس میں شک نہیں کہ جو شخص یہ جانتا ہو کہ ایک خبیر اور آگاہ ذات اس کے تمام اعمال کو دیکھتی او رجانتی ہے اور اسے محفوظ کرتی جاتی ہے، اور دوسری طرف سے عدل وانصاف کا محکمہ اس کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کی چھان بین کرے گا تو اس قسم کا انسان بہت کم گناہ کا اور بے راہ روی کا شگار ہو تا ہے۔
”لایجزی“ کا جملہ جزاء کے مادہ سے ہے اور لغوی طورپر ”جزاء“ دومعنی کے لیے آتا ہے، ایک توکسی چیز کے مقابلہ پاداش وکیفر یعنی سزا اور جزاء دینے کے معنی میں۔ جیسا کہ کہاجاتاہے (جزاہ اللّٰہ خیرًا) : خدا اسے اچھی پاداش (جزاء) دے۔
اور دوسرا کفایت کرنا جانشین ہونا اور تحمل کرنا جیسا کہ زیزِ بحث آیت میں آیاہے (لایجزی والد عن ولدہ) ”کوئی باپ اپنے بیٹے کی ذمہ داری اور مسئولیت کو قبول نہیں کرے گا اور اس کی جگہ پر نہیں بیٹھے گا اور اس کی کفایت نہیں کرےگا۔“
ہوسکتاہے کہ دونوں معنی ایک ہی اصل کی طرف پلٹتے ہوں ۔ کیونکہ جزاء اور سزاء بھی عمل کی جانشین اور اس کے برابر ہوتی ہیں۔ (غور کیجئے گا)
بہرحال اس دن ہر شخص اس طرح اپنے آپ کے ساتھ معروف ومشغول اور اپنے اعمال کے پیچ وخم میں گرفتار ہوگا کہ دوسرے کی طرف توجہ بھی نہیں کرسکے گا۔ یہاں تک کہ باپ اور بیٹا جو آپس میں نزدیک ترین رابطہ رکھتے ہیں، ان میں سے کسی کو بھی دوسرے کا خیال نہ ہوگا۔ آیت بعینہ اسی آیت کی طرح ہے جوسورئہ حج کی ابتداء میں آئی ہے، جس میں قیامت اور اس کے زلزلہ کے بارے میں کہا گیا ہے ۔(یوم تروونھا تذھل کل مر ضعة عماّ ارضعت) ”جس دن تم اسے دیکھوگے کہ دودھ پلانے والی مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو بھول جائیں گی“ ۔
قابل توجہ یہ ہے کہ ”باپ “کے بارے میں ”لایجزی“ (فعل مضارع) کی تعبیر کرتا ہے اور بیٹے کے بارے میں ”جاز“(اسم فاعل) کی تعبیر ہے۔ یہ تعبیر کا فرق ہو سکتاہے۔ گفتگو میں تنوع کے طورپر یاباپ کے مقابلہ میں بیٹے کے فرائض اور ذمہ داری کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ اسمِ فاعل زیادہ دوام واستمرار پر دلالت کرتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں محبت پدری سے یہ توقع ہے کہ کم ازکم کچھ صورتوں میں تو بیٹے کے عذاب کو برداشت کرے۔ جیسا کہ دنیا میں اس کی نامناسب چیزوں کو اپنی جان پر لے لیتا تھا۔ لیکن بیٹے کے بارے میں تو قع ہے کہ وہ باپ کی زیادہ سے زیادہ ناپسندیدہ باتوں اور سختیوں کو اس کے بے شمار حقوق کی وجہ سے متحمل ہو جائے گا۔ جبکہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اس دن ایک دوسرے کم سے کم مشکل بھی حل نہیں کرے گا۔ اور ہر ایک اپنے اعمال میں گرفتار اور اپنے گربیان میں جھانک رہا ہوگا۔
آیت کے آخرمیں انسان کو دوچیزوں سے ڈراتے ہوئے فرماتا ہے۔ خدا کاوعدہ حق ہے۔ مباداکہیں تمھیں زندگی فریب دے اور شیطان دھوکہ دے ڈالے“ (إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَلَاتَغُرَّنَّکُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَلَایَغُرَّنَّکُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ) ۔
واقع میں یہاں پر دونواہی نظرآتی ہیں جوان دواوامر کے مقابلہ میں، جو آیت کے اتبداء میں تھے کیونکہ اگر خدا کی طرف توجہ حساب وکتاب اور جزاء وسزاء کا خوف انسان میں زندہ ہوجائے تو پھر اس کے بارے میں راہ راست سے انحراف اور بے راہ روہی کی رغبت باقی نہیں رہتی، مگر دوراستوں سے ایک تویہ کہ دنیا کی چمک دمک اور رنگینی اس کی نگاہوں میں حقائق اور واقعات کو بالکل برعکس بنا کر پیش کرے اور چھائی اور برائی کے درمیان تمیز کی قدرت اس سے سلب کرے۔ وہی بات کہ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑہے۔ دوسرا یہ کہ شیطانی دسوسے اسے فریب اور دھوکہ میں مبتلاء کر کے اسے مغروراورمبدء ومعادسے کو سوں دورکردیں۔
اگر ارتکاب گناہ کے یہ دونوں راستے بند ہو جائیں تو پھر کوئی خطرہ بھی اسے چیلنج نہیں کرسکتا اور اس طرح سے اوپر دالے چار احکام آدمی کی نجات کے پروگرام مکمّل مجموعہ فراہم کردیتے ہیں۔
گذشتہ آیت میں قیامت کے سلسلہ میں ہو نے والی بحث کی مناسبت سے اس سورئہ کی آخری آیت میں بھی ایسے علوم کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو پروردگار کے ساتھ مخصوص ہیں۔ کہتا ہے” قیام قیامت کے وقت کی آگاہی خدا کے ساتھ مخصوص ہے:“ (إِنَّ اللهَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَة) ۔
”اور وہی ہے جو بارش کو نازل کرتا “ اور اس کے نزول کے تما جزئیات سے آگاہ ہے (وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ)
اور نیز ”وہی ہے جو ایسے بچوں سے کہ جو رحم مادر میں ہوتے ہیں (ان کی تمام تفصیلات کے ساتھ) آگاہ ہے“ (وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاٴَرْحَامِ)
اور ”کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا؟“ (وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا)
”اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا“ (وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِاٴَیِّ اٴَرْضٍ تَمُوتُ)
گویا یہ آیت مجموعی طور پر اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کے بارے میں پیش ہوا ہے، وہی سوال جو مشرکین قریش نے پیغمبر سے بار بار کہا ”متی ھو“ (قیامت کا دن کب ہوگا) (سورہٴ اسراء/۵۱)
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے کوئی شخص خدا کے علاوہ قیامِ قیامت کی گھڑی اور وقت سے آگاہ نہیں ہے اور دوسری صریح آیات کے مطابق خدا نے اس علم کو سب سے مخفی رکھا ہے:
<إِنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ اٴَکَادُ اٴُخْفِیھَا
”بیشک قیامت آئے گی اور میں چاہتا ہوں کہ اس کو مخفی رکھوں“۔(سوہٴ طٰہٰ/۱۵)
تاکہ غرور وغفلت کبھی بھی افراد بشر کے دامن گیر نہ ہوں۔
اس کے بعد کہتا ہے کہ نہ صرف قیامت کا مسئلہ تم سے پوشیدہ ہے بلکہ تمھاری روز مرّہ کی زندگی اور نزدیک ترین مسائل میں سے جو تمھاری موت وحیات سے سروکار رکھتے ہیں بہت سے مطالب ایسے ہیں جن سے تم بے خبر ہو۔
بارش کے زندگی عطا کرنے والے قطرات کے نزول کا وقت جن سے تمام جانداروں کی زندگی وابستہ ہے، تم میں سے کسی پر بھی آشکار نہیں اور تم تو صرف اندازے، اٹکل بچو اور وہم وگمان کے ساتھ اس کے بارے میں بحث کرتے ہو۔
اسی طرح شکم مادر میں تمھاری پیدائش کے وقت اور جنین کی خصوصیات سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔
اور نیز آئندہ نزدیک یعنی تمھارے نزدیک حوادث نیز موت، زندگی کو الوداع کہنے کا مقام سب سے پوشیدہ ہے۔
جب تم اپنی زندگی سے ان کے نزدیک ترین مسائل کی اطلاع نہیں رکھتے تو کون سے تعجّب کی بات ہے کہ قیام قیامت کے لمحہ سے بے خبر رہو؟(۱)

تفسیر ”درّ منثور“ میں منقول ہے کہ قبیلہ ”بنی مازن“ سے ”دارث“ نامی ایک شخص پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں آیا اور کہا: ”اے محمد! قیامت کب برپا ہوگی؟ علاوہ ازیں ہمارے شہر خشک سالی کا شکار ہوچکے ہیں، کب نعمت سے ملامال ہوں گے؟نیر جس وقت میں آیا ہوں میری بیوں حاملہ تھی ، کب اسے بچّہ پیداہوگا؟ میں تو یہ جانتا ہوں کہ آج میں نے کیا کام ہے! لیکن یہ بتاؤ کہ کل کیا کروںگا؟ خلاصہ یہ کہ میں جانتاہوں کہ میں کہاں پیدا ہواہوں۔ بتاؤ کہ میں کس سرزمین میں مروںگا؟
توادپراولی آیت نازل ہوئی اور کہا ان تمام امورکا علم خدا کے پاس ہے۔ (2)
۱۔ یہ ٹھیک ہے کہ اوپر والی آیات میں ”یُنَزِّلُ الْغَیْثَ“ (خدا بارش کو نازل کرتا ہے) کے جملہ میں علمِ خدا کے مسئلہ کے بارے میں گفتگو نہیں ہے اسی بناء پر بعض نے اس جملوں کے درمیان کے استثناء کے طور پر قدرتِ خدا کے بیان کے لئے نہ کہ اس کے علم کے لئے سمجھا ہے، لیکن ادھر پانچ جملوں کی ایک دوسرے سے ہم آہنگی اور دوسری طرف سے متعدد رروایات جو نہج البلاغہ اور دوسری کتب میں آئی ہیں (کہ جن کی طرف عنقریب اشارہ کریں گے) اس چیز پر قرینہ ہیں کہ وہ جملہ بھی علمِ خدا کے ساتھ مربوط ہے۔
۲۔ تفسیر درّمنثور بحوالہ تفسیر المیزان، ج۱۶، ص۲۵۴.
۱۔غرور وفریب کی قسمیںسوره لقمان / آیه 33 - 34
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma