احاد یث تقیَّة

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
اسلام کی سپر تقیہ
تقیّہ کا حُکم تکلیفی

احاد یث تقیَّة


مواقع خوف میں اصل تقیّہ کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث کے متواتر ہونے میں شک نہیں ۔ یہ احادیث چند حصّوں میں منقسم ہیں ۔ اور ہر ایک حصّہ بعض خصوصیات تقیّہ کے بارے میں ہے . مذکورہ احادیث بے شمار فواًئد و لطائف پر مشتمل ہیں ... جن میں تقیّہ کے اسباب ، تایخ ،کیفیت ، حدود اقسام اور مواردوجوب و حرمت کے علاوہ ان مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جیاں تقیّہ نہیں کیا جاتا ۔
یہ احادیث ”الوسائل “کی گیا رھویں جلد کتاب امرباالمعرف ونہی عن المنکر کے بہت سے ابواب میں مذکورہ ہیں ۔ چنانچہ ہماری تقسیم کے مطابق یہ احادیث پانچ طائفوں پر مشتمل ہیں ۔


پہلا طائفہ


ان احادیث پر مبنی ہے جو تقیّہ کو مومن کے لئے سپر حرزجان اور محافظ نفس قرار دیتی ہیں ۔ اس معنیٰ کے تحت بہت ساری احادیث ہیں ۔ جن میں سے درج ذیل ہیں ۔
۱۔کلینی کافی میں اپنی سند کے ساتھ احمد بن مروان کے واسط سے ابی عبداللہ (علیه السلام)سے ناقل ہیں ،۔ آپ نے فرمایامیرے والد محترم فرماتے کرتے تھے کہ ”تقیّہ سے زیادہ کوئی چیز میری آنھکو ں کی ٹھنڈ ک نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے کہ تقیّہ مومن کی سپر ہے “ (1) ۔
۲۔ کافی میں کلینی عبداللہ ابن ابی عبداللہ ابن ابی یعقوب سے روایت کرتے ہیں ابی یعفور رای ہیں کہ میں نے ابی عبداللہ کو فرماتے ہوئے سناہے ”تقیّہ مومن کے لئے سپر اور حرزجان ہے (2) ۔
۳۔ کلینی نے کافی میں حریر کے حوالے سے ابی عبد اللہ (علیه السلام)سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا ”تقیّہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک سپر ہے“(3) ۔
۴۔سعد ابن عبداللہ نے بصائر الدّر جات میں جمیل بن صالح کے واسط سے ابی عبداللہ (علیه السلام) سے نقل کیا ہے ۔” آپ نے فرمایا میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے ۔ تقیّہ سے زیادہ کوئی چیز میری آنھکوں کی ٹھنڈک نہیں اس لئے کہ تقیّہ مومن کی سپر ہے ۔“(4) ۔
یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس طرح انسان میدان جنگ میں دشمن کے وار سے محفوظ رہنے کے لئے سپر کا سہارا لیتا ہے اسی حفظ نفس کے لئے تقیّہ کا سہارا لے سکتا ہے اور چوں کے دشمن کے حملے سے بچنے کے لئے سپر کا استمال واجب ہے لہذاکیا جاسکتا ہے کہ تقیّہ کے ذریعہ بھی دشمن سے مخفی رہنا واجب ہے... اب اگر کوئی ان روایات کی وجوب تقیّہ پر دلالت کو تسلیم نہ بھی کرے جب بھی جواز تقیّہ پر ان کی دلالت سے انکار نہیں کر سکتا ۔


دوسرا طائفہ :۔


وہ روایات میں ہیں کہ جو تقیّہ کے نہ ہونے کی صورت میں دین اور ایمان کی نفی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تقیّہ دین ہے اور تقیّہ کے بغیر دین ناقص ہے ۔
۵ ۔ کلینی نے کافی میں اپنی سند کے ساتھ ابی عمر اعجمی سے روایت کی ہے اعجمی کہتے ہیں مجھ سے ابوعبداللہ (علیه السلام) نے فرمایا ”اے ابو عمر ! دین کے دس ۱۰۔ حصّوں میں سے نو ں ۹حصّہ تقیّہ میں ہیں اور جس کے پاس تقیّہ نہیں اس کے پاس دین نہیں ۔(5)“۔
۶ ۔ علل الشّرایع میں صدوق (علیه السلام) ابوبصیر سے ناقِل ہیں کہ امام جعفر صادق (علیه السلام)نے فرمایا تقیّہ خدائے عزوجل کا دین ہے میں نے عرض کی اللہ کے دین میںدے ہے ؛؟ آپ نے فرمایا . ہاں خدا کی قسم اللہ کے دین سے ہے ۔(6) ۔
۷۔ صدوق (علیه السلام) صفات الشیعہ میں ابا ن بن عثمان کے ذریعہ امام صادق (علیه السلام) سے نقل کرتے ہیں ۔حضرت نے فرمایا ۔--”جو تقیّہ نہیں رکھتا وہ دین دار نہیں اور جس کے پاس ورع نہیں وہ ایمان دارنہیں ۔“(7) ۔
۸۔ یہ وہ روایت ہے جس کو کلینی نے ابن ابی یعفور کے حوالے سے امام صادق (علیه السلام) سے نقل کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا ”جس کے پاس تقیّہ نہیں وہ ایمان نہیں رکھتا ۔“ (8) ۔


ان کے علاوہ بھی بہت سی روایات ہیں ۔


ان روایات سے بطوراجمال ظاہر ہوتا ہے کہ مقامات تقیّہ میں تقیّہ واجب ہے اور تقیّہ دین کے اہم اور عمدہ مسائل میں سے ہے ۔ عنقریب ہم اس کی تاکید کی علت بیان کرین گے اور اگر اس کی حدودو شرائط کی رعایت کی جائے تو تقیّہ فطری امر ہے جسکی گواہے ہر انسان کا ضمیر دیتا ہے۔

 

 


تیسرا طائفہ


اس طایفہ کی روایات یہ بتاتی ہیں کہ تقیّة عظیم ترین فرائض میں سے ہے اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ تقیّہ پر عمل کرتا ہو اور ایمان بغیر تقیّہ کے بدن بے سر کی مانند ہے اور موارد تقیّہ میں خدااور اس کے اولیاء کے نزدیک کوئی چیز تقیّة سے زیادہ پسنددیدہ نہیں۔ روایات درج ذیل ہیں ۔
۹۔ کلینی نے کافی میں حبیب ابن بشیر سے نقل کیاہے کہ ابو عبداللہ (علیه السلام)نے فرمایا میں نے اپنے باپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روئے زمین پر تقیّہ سے زیادہ کو ئی پسندیدہ کوئی چیز نہیں۔ اے حبیب جس کے پاس تقیّہ کا ہتھیا ر ہو خدااسے رفعت عطا فرماتا ہے ۔ اے حبیب ۱ جس کے پاس تقیّہ نہ ہو خدااسے نیچادکھاتا ہے .اے حبیب ! لوگ غیبت میں بسر کر رہے ہیں ۔ اگر غیبت کا زمانہ ختم ہوا ور امام کا ظہور ہو جائے تو تقیّہ واجب نہیں رہے گا (۹ ) ۔
۱۰۔ قول پرور دیگار متال .۔ ” وعملوالصّالحات “ کی تشریح میں تفسیر امام حسن عسکری (علیه السلام) میں منقول ہے آنحضرت (علیه السلام) نے فرمایا ”اس قول کا مطلب توحید کے بعد تمام فرائض کی انجام دہی اور نبوّت و امامت کا اعتقاد رکھنا ۔ لیکن سب سے بڑے دو فرائض ہیں ۔ اپنے دینی بھائیون کے حقوق اداکر نا اور دشمن سے بچنے کے لئے تقیّہ کا سہارا لینا “ (۱۰) ۔
مخفی نہ رہے کہ الواسائل کے اٹھائیسویں با ب یعنی باب ابالمعرف اور نہی عن المنکرمیں دو حدیثیں نبوی ہیں اور امام حسن عسکری (علیه السلام) تک ایک ایک حدیث ہر امام سے منقو ل ہے ۔ کل ملاکر تیرہ حدیثیں ہیں اور ہر حدیث امام کی تفسیر اور اس کی وساطت سے منقول ہے ۔ صاحب وسائل نے آئمہ (علیه السلام) کی تریب کے تحت ان کو نقل کیا ہے اگر چہ ان کی وبارتیں اور الفاظ مختلف ہو لیکن سبھی ایک مطلب کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور وہ یہ کہ آئمہ علیہم السّلام کے نزدیک بہترین چیز اور ان کا پسندیدہ اخلاق ،تقیّہ اور دینی بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی ہے ان کے نزدیک ترکے تقیّہ ناقابل بخشش گناہوں میں سے ہے ۔
۱۱۔تفسیر امام حسن عسکری (علیه السلام) میں ہے کہ پیغمبر اسلام نے ن فرمایا . تقیّہ کے مومن ایساہی ہے جیسابغیر سر کے بدن (۱۱) ۔
۱۲ ۔ امیر المومنین (علیه السلام) نے فرمایا !تقیّہ مومن کے ان بہترین عمال میں ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے اور اپنے بھائیوں کو ظالموں سے محفوظ رکھتا ہے(12) ۔
یہ حدیث اس امر کی شاہد ہے کہ تقیّہ صرف اپنی جان بچانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اپنے بھائیوں کی جان بچانے کے لئے بھی جائز ہے . البتّہ آگے چل کر تنہیات میں عرض کریں گے کہ وہ مومن بھائی جن کے لئے تقیّہ کیا جاتا ہے ان کا معلوم اور مشخص ہونا ضروری ہے . یانوع مومنین کے لئے بھی تقیّہ جائز ہے ۔چاہے اشخاص معلوم نہ ہوں ۔؟
۱۳۔ امام حسن عسکری (علیه السلام) اپنے جد بزرگوار امام زین العابدین (علیه السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ۔”خدا مومن کے ہر گناہ کو بخش دیتاہے اور اس کو دنیا و آخرت میں ہر گنان کی آلودگی سے پاکیزہ بنا دیتا ہے . مگر دو گناہوں کو نہیں بخشتاہے ایک تقیّة اور دوسرے اپنے بھائیوں کے حقوق پائمال کرنا .“
۱۴۔ امام محمد باقر(علیه السلام) کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ فلا ں شخص ایک تہمت میں پکڑا گیا اور اسے سو کوڑ ے لگا ئے گئے . آپ نے فرمایا کہ اس نے مومن کا حق پائمال کیا تھا اور تقیّہ کو ترک کیا تھا اور پھر جب متوجہ ہوا تو اس نے توبا کی .....یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ترکہ تقیّہ صرف عذاب خروسی کا ہی باعث نہیں بنتا بلکہ دنیاوی عذاب کا باعث بھی بنتا ہے۔“
۱۵۔علی ابن محمد الغزار نے حسین ابن خالد کے حوالے سے امام رضا(علیه السلام) سے نقل کیا ہے۔ آپ فرمایا جس کے پاس ورع نہیں وہ دین سے خالی ہے اور جس کے پاس تقیّہ نہیں وہ ایمان سے بے بہرا ہے اللہ کے نزدیک تم میں باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ تقیّہ پر عمل کرتا ہو ۔عرض کیا گیا اے فرزند رسو ل تقیّہ کب تک ؟ ۔آپ نے افرمایا ۔ جو قائم کے قیام تک ۔ جو قائم کے ظہور سے پہلے تقیّہ ترک کردے وہ ہم سے نہیں ہے ۔


چوتھاطائفہ


وہ احادیث ہیں جو افعال انبیاء میں تقیّہ کی نشان دہی کرتی ہے . اور بتاتی ہیں کہ انبیاء ماسلف نے کئی مواقع پر تقیّہ سے کام لیا ہے . روایت درج ذیل ہیں ۔
۱۶۔ صدوق (علیه السلام) نے ” میں ابی بصرکے حوالے سے امام محمد باقر (علیه السلام) سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا ا، اس شخص کے پاس کوئی خیر نہیں جو تقیّہ پر عمل نہیں کرتا جب کہ حضرت یوسف نے تقیّہ پر عمل کرتے ہوئے فرمایا . ” اے قافلہ والو تم چور ہو ‘ ‘ حالانکہ انھونے چوری نہیں کی تھی (۱۳) ۔
اس میں کوئی دورائی نہیں کہ حضرت یوسف نے بذات خود ادشاد نہیں فرمایا لیکن چونکہ اآپ کے امر اور آپکی رضایت سے آپکے ما تحتوں نے یہ جملہ کہا ہے لہذا اس کی نسبت حضرت یوسف کی طرف دی گئی ہے اس لئے کہ قافلہ والوں نے اس وقت کوئی چوری نہیں کی تھی البتہ پہلے انھونے حضرت یوسف کو چرایا تھا . لہذا حضرت یوسف کا موذن سے یہ جملہ کہلا نا تقیآہ نہیں بلکہ ایک قسم کا تورینہ ہے لیکن یہ تورینہ بھی بعض مصالح کے تحت بر بنائے تقیّہ حق کو پوشیدہ رکھ کے حضرت بنیامین کو اپنے پاس روک لینے کی خاطر کیاگیا ۔
اور مخفی نہ رہے کہ یہ تقیّہ بھی جان کے خطرے کو ٹالنے کے لئے نہیں بلکہ دوسرے مصالح کی بنا پر ہے ۔ عنقریب ہم بیان کرین گے کہ تقیّہ صرف خوف کی بنا پر نہیں ہوتا ۔
البتہ واضح رہے کہ تقیّہ کی یہ قسمیں بیان احکام اور تبلیغ رسالت کے میں نہیں جس کی بنا پر کسی کو یہ وہم ہو کہ انبیاء و مرسلین کے لئے تقیّہ جائز نہیں ۔ بلکہ یہ باب تبلیغ کے علاوہ بعض مصالح کی حفاظت کے لئے ہیں
۱۷۔ اس روایت کو بھی حضرت صدوق (علیه السلام) نے ”علل “ میں ابوبصیر کے واسطے سے امام جعفر صادق (علیه السلام) سے نقل کیا ہے ۔امام (علیه السلام) نے فرمایا ”تقیّہ دین پر وردگار متعال ہے “ میں نے عرض کی آیا تقیّہ دین خداکا جز ہے ۔؟ توآپ نے فرمایا : خداکی قسم ایسا ہی ہے اسی لئے حضرت یو سف نے فرمایا اے قافلہ والو ! تم نے چوری کی ہے حالانکہ خداکی قسم انھونے کچھ نہیں چرایا ......... اس روایت کی توجیہہ بھی وہی ہے جو گذشتہ روایت کی ہے (۱۴) ۔
۱۸۔ اس روایت کو کلینی نے کافی میں ابو بصیر کے حوالہ سے حضرت ابو عبد(علیه السلام) اللہ سے نقل کیا ہے ۔آپ نے فرمایا تقیّہ دین الہی کا جز ہے ۔ اس کے بعد وہی پہلی روایت والے فقرے ارشاد فرمائے کے بعد امام (علیه السلام) نے اضافہ فرمایا ،بے شک حضرت ابراہیم نے فرمایا ” میں بیمار ہوں “ جب کہ خدا کی قسم وہ بیمار نہیں تھے (۱۵) ۔
جناب ابرہیم کے اس قول کو صرف اس بنا پر تقیّہ کہا جا سکتا ہے کہ انھونے دینی مصلحتوں کی بنا پر اپنی حالت کو پوشیدہ رکھا ۔ یہ احکام میں تقیّہ نہیں بلکہ یہ مو ضو عات میں ہے جو آپ کی رسالت سے منا فات نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ بت شکنی میں اداو رسالت ہے ۔
۱۹۔ معانی الاخبار میں سفیان ابن سعد کہتے ہیں . میں نے امام جعفر صادق (علیه السلام)سے سنا ہے آپ نے فرما یا ہے تم پر تقیّہ لازمی ہے اس لئے کہ بے شک تقیّہ سنّت خلیل خدا ہے ۔ یہا ں تک کہ آپ نے فرمایا : رسول خداجب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنے خاندان والوں کے ساتھ مدارت کرتے تھے اور فرماتے تھے مجھے میرے پرور دگار نے لوگوں کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح مجھے اقائمہ فرائض پر مامور فرمایا ہے . خدا نے آنحضرت کو تقیّہ کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا ۔”ادفع بالتی ھی احسن فاذالذی بینک و بیّنہ اعدوة کانہ ولی حمیم وما یلقا ھا الاالذین صبرو ا“اے سفیان جو دین خدا میں تقیّہ استعمال کرتا ہے وہ قرآن سے بڈے پیمانہ پر فائدہاٹھاتا اہے ۔ بے شک مومن کی عزّت زبان کی حفاظت میں ہے جو شخص اپنی زبان کا مالک نہیں وہ ندانت اٹھاتا ہے (۱۶) ۔
یہ روایت شاہد ہے کہ پیغمبر اسلام بھی بعض موضو عات میں لوگوں کے ساتھ مدارت اور قلوب مومنین سے بعض و عداوت دور کرنے کی خاطر تقیّہ سے کا م لیا کرتے تھے جب کہ احکام اور تبلیغ رسالت میں ہر گز تقیّہ نہیں کرتے تھے ۔
اس روایت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بتوں کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا تقیّہ یہ کہتے ہوئے کہ” میں بیمارہوں “ یا حضرت کا یہ فرماناکہ ” یہ میرا پروردیگار ہے“ یا یہ قول کہ ” بلکہ ان کے بڑے نے یہ فعل انجام دیا ہے “ حضرت ابراہیم کی سنّت ہے ۔ اور تقیّہ کے ایک وسیع مفہوم میں داخل ہے جو ” بعض اہم مصامح کی خاطر کسی مہم امر کی پو شیدہ رکھنا “ہے
۲۰۔کلینی نے ہشام بن سالم کے حوالہ سے امام جعفرصادق (علیه السلام) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا ۔ بے شک ابو طالب کی مثان اصحاب کہف ہیں ۔جنھونے ایمان کو پوشیدہ رکھا اور شرک کا اظہا کیا . پس خدا نے ان کو دوہرااجر عطافرمایا (۱۷) ۔
مذکورہ آیت گر چہ نبیوں کے تقیّہ کے بارے میں نہیں تاہم ہم نے اس کو نبیوں کے تقیّہ سے ملحق کرکے ذکر کیا ہے .........قرآن مجید میں اصحاب کہف کا قصّہ موجود ہے ۔ لیکن اس میں لفظ تقیّہ صراحت کے ساتھ موجود نہیں ۔ مگر قرائن سے پتا چلتا ہے کہ اصحاف کہف اپنے دوستوںسے تقیّہ کرتے تھے اور آخر میں اپنی قوم سے کنارہ کشی کرکے انھونے اپناراز فاش ہو جانیکے نتیجہ میں بادشاہ کی سختیوں کے خوف سے ایک غار میں پناہ لی ۔ اگروہ اپنا ایمان ظاہر کردیتے تو قتل کردئے جاتے ۔ اسی لئے وہ ایک عرصہ تک اپنا ایمان چھپائے رہے یہاں تک کہ خدا نے ان کو ہجرت کرجانے کی توفیق عطا فرمائی . وہ اظہار شرک نہ کرنا پڑے ..................روایات اور تواریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں ۔ اگر چہ لفظ تقیّہ سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے لیکن مطلب اسقدر واضح ہے کہ لفظ تقیّہ کے ذکر کی ضرورت نہیں ۔
یہ روایت پیغمبر اسلام کے عم بزرگ وار جو دل و جان سے حضور کی حمایت میں کو شاںرہتے تھے کے تقیّہ پر بھی دلالت کرتی ہے ..... البتّہ ان کا تقیّہ اکثر موقع پر ان کے اظہار رو ایمان سے منافات نہیں رکھتا جیسا کہ تاریخ دورات سے پتا چلتا ہے .......مگر حضرت ابوطالب (علیه السلام) اکثر تقیّہ کرتے تھے نہ ہمیشہ اور وہ بھی دشمنوں سے ہوتا تھا نہ کہ دوستوں سے شاید اسی وجہ سے مخالفین نے ان پر معاذاللہ مشرک ہو نے کا الزام لگایا ہے ۔
بہرحال یہ روایات کم سے کم ان موارد تقیّہ میں اس کے استحباب یا وجو ب پر دلالت کرتی ہیں جن میں اخفا ء حق واجب ہو یا کم سے کم رحجان رکھتا ہو .......اس کے علاوہ اور نھی بہت سی روایات ہیں جو تقیّہ کے رجحان یا وجوب پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ آئندہ بحثوں میں ہم ان روایات کو ذکر کریں گے اور چونکہ یہ روایات متواتر ہیںلہذااصل وجوب تقیّہ میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ۔

1۔عن ابی عبداللہ ۺ /قال کان ابی یقول وای شئی اقرلمعینی من التقیة ان التقیة جنّت المومئن ( وسائل جلد ۱۱ ) ۔
2۔قال سمعت اباعبداللہ یقول التقیة امرس المئومن والتقیة مرزالمئومن (وسائل جلد ۱۱ )
3۔ابواب امربالمعروف
4۔ ابواب امر بالمعروف ، ج ۲۴ ، باب ۲۴ ۔
5۔عن ابی عمر الاعجمی قال : قال ابوعبد اللہ (علیه السلام) یااباعمر ان تعةا عشاء المتقین فی التقیة ولا دین لمن لاتقیة لہ ، ج ۳ ، باب ۲۴ کتاب امربالمعروف ۔
6۔ج ۱۸ ، باب ۲۴ ، کتاب امر بالمعروف
7۔عن ابان عن ھشمان عن الصادق (علیه السلام) لہ قال لاوین لہ لمن لاتقیة لہ ولا ایمان لہ لمن الارع لم ۔ ج ۲۲ ، باب ۳۴ کتاب امربالمعروف
8۔عن ابن ابی یعفور عن الصادق (علیه السلام) لمن لا تقیة لہ الحدیث ۔ ح ۶ ، باب ۲۴ کتاب امر بالمعروف ۔
۹ ۔ج ۸ باب ۲۴ ابواب امرابالمعروف ۔
۱۰۔ ح .۱ . باب ۲۸ ابوامربالمعروف ۔
۱۱۔ج.۔۲ ۔باب ۲۸ ابوامر بالمروف ۔
12عن امیر المومنین (علیه السلام) التقیّہ من افضل اعمال المئومنین یمین بہا لفسہ واخونہ عن الفاجرین ۔(۱۲)
۱۲۔ج .۳ باب ۲۸ ابواب امر بالمعروف ۔
۱۳۔عن ابی بصیر قال ۔ سمعت ابا جعفر (علیه السلام) بقول لا خیر فیمن لا تقیّہ لہ ولقد ۔ قال یوسف (علیه السلام)ب ”بتھا المیرانکم لمرقون “وما سر فوا ج ۔اباب ۔۲۴ ابواب امر باالمروف
۱۴۔عن ابو بصیر قال ۔ قال ابو عبد اللہ (علیه السلام) اتقیّہہ من اللّہ عذّو جل ّ فلمتمن دین اللّہ :؟ قال فقال ان من دین اللّہ ہے لقد ۔ قال یوسف (علیه السلام) اینتھا المبواتکم لمر فون .۔ وللّہ. ما کانو امر تو انبناء ج ۔۱۸ ۔ باب ۲۴ ۔ ابوامر بالمعروف ۔
۱۵۔فی الکافی عن ابی بصیر ایضاًقال ابو عبد اللّہ (علیه السلام) اتقیّتہ من دین اللّہ ثمّ روی نحوالروایتہ السابقتہ : ثمّ زاد قولہ ولقد قال ابرہیم (علیه السلام) لی” سقبم اللّہ “ واللّہ ما کان سقبان ۔ج .۴ .باب . ابواب امر بالمعروف ۔
۱۶۔ج۔ ۱۶ ۔ باب ۔ ۲۴ ۔ابواب امر بالمعروف ۔
۱۷۔ج ۔۱۔باب ۲۹ ۔ابواب امر بالمعرف ۔ (اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ابوطالب نے شرک کا اظہار کیا ) ”مترجم “

 

تقیّہ کا حُکم تکلیفی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma