مقدّمہ مترجم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
اسلام کی سپر تقیہ
حرف آغاز تقیّہ،معرکتہ آلاراء موضوع بحث

مقدّمہ مترجم


بسم اللہ الرحمن الرحیم


قال امام جعفربن محمد الصادق (علیہالسلام)--”من لا تقیّہ لا دین لہ۔“
تاریخ مذاہب گواہے کہ جتنے مظالم شیعہ مذ ہب والوں پر ڈھائے گئے شاید ہی کسی مذہب کے مانے والوں پر اتنے مظالم ڈھاگئے ہوں ،اس کے با وجود شیعہ زندہ ہیںتابندہ ہیں اور زندہ تابندہ رہیں گے اس حقیقت کا راز یہ ہے کہ جیسے شیعوں کو ملے اس شان کے رہبر دنیا کے کسی دوسرے مذہب کو نہیں والوں کو نہیں ملے ۔اوران عظیم رہبر وں نے اتنا جامع اور ہمہ گیر قانون حیات شیعوں کو دیا کہ دنیا کے کسی بھی مذہب کو نہیں کے پاس ہے ایسا قانون نہیں ہے ۔ یہ قانون ہر حال میں زندہ گی بخش اور حیات آفریں قانون ہے ۔ظلم کے خلا ف آواز اٹھانا بھی سکھاتا ہے اور ظالم کے سامنے اپنی ہونیت نہ ظاہرنہ کرکے زندگی گزارنے کی تعلیم بھی دیتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو مکمل تحفط ملتا ہے وہ قانون ہر گز انسان کے حق میں مفید نہیں ہو سکتا جو انسان کو تحفظ نہ دے سکے یہ اور بات ہے کہ تحفظ کی نوعیتیں مختلف ہیں جس طرح کبھی کبھی سر کٹا دینا تحفظ کے معنی نہیں ہو تا اسیطرح چہ بچا لینا تحفظ کا مقصد نہیں بن پاتا ۔اور یہ حقیقت آشکار بھی ہے اور مضمر بھی ۔
اسلام کے ایسے ہی قوانین کے مجموعے میں سے ایک قانون تقیّہ ہے اور چوں کہ اسلام دین فطرت ہے لہذا تقیّہ بھی قانون فطرت ہے جس کا واضع مطلب یہ ہے کہ تقیّہ کی مخالفت اسلام کی مخالفت ہے اور اسلام کی مخالفت کفر ہے ۔
تعجب عوام پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے ان دانشور نماؤ پر ہے کہ جو تقیّہ کا انکار کرنے والوں کو موارد الزام اور مقصّر ٹھرایا نے کے بجائے اس قانون فطرت کے مانیے والوں کو مقصّر خیال کرتے ہیں اور وہ بھی صرف زبانی لن ترانیوں کے ساتھ وگرنہ ان کی عملی زندگی میں قدم قدم پر تقیّہ نظر آتا ہے ۔ جتنی اپنے خانگی معاملات تک میں وہ تقیّہ پر عمل کرتے نظر آتے ہیں چوں کہ کذب سے بچنے کا یہی ایک ذریعہ ہے ۔
زیر نظرکتاب میں تقیّہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اصل کتاب میں اگر چہ تقیّہ کو ایک فقہی قاعدے کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود تقیّہ کے علل واسباب کو بھی بیان کیاگیا ہے اور بے موقع و محل کی جانے والی الزام تر اشیوں کا دفاع بھی ہے ۔
تاریخ حدیث سے تقیّہ کے متعدد نمونے پیش کئے گئے ہیں اور قرآن کی کئی آیات سے استدلال واستنباط کیا گیا ہے ۔
اس کے باوجود میں کسی خوش فہمی کا شکا ر نہیں ہوں کہ اس کتاب کو پڑنے کے بعد تمام متعصّب راہ راست پر آجائیں گے ۔ البتّہ وادئی تحقیق کی پر خارراہوں پر سفر کرنے والے منزل کا پتہ پاسکتے ہیں ۔ ایسے ہی افراد کی تنویر افکار کے لئے ہم تقیّہ کے بارے میں مسلمانوں کے مفسرین کی اتراء نقل کرتے ہیں ۔
۱۔ فخرالدّین رازی تفسیر کبیر میں (الاّان تتقو امنہم تقاتہ )کی تفسیر میں تقیّہ کے مسائل احکام میں سے بعض کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔ اگر انسان کفّار کے درمیان پھنس جائے اور جان کا خوف ہو تو وہ زبانی طورپر مدارت کر سکتا ہے ۔اس کا طریقہ یہ ہے نہ صرف زبان سے دشمنی کا اظہار نہ کرے بلکہ اس سے بالا تر ذو معنیٰ الفاظ میں ان سے دوستی اور رفاقت کا اظہار کرسکتا ہے بشرطیکہ باطنی طور پر اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو ۔
اس کے بعد چوتھے حکم کے ذیل میں لکھتے ہیں : ظاہر الآیة ان التقیة انما تحل مع الکفار الغالبین الا ان مذھب الشافعی (رضی اللہ عنہ) ان الحالة بین المسلمین اذا شاکلت بین المسلمین والکافرین حلت التقیة محاماة علی النفس۔
آیت سے ظاہر ہو تا ہے کہ فقط خلبہ رکھنے والے کافروں سے تقیّہ جائز ہے۔ لیکن شافعی ۻکے نزدیک اگر مسلمانوں سے بھی جان کا خطرہ ہو تو تقیّہ جائز ہے ۔
پانچواں حکم :
التقیة جائزة لصون النفس وھل ھی جائزة لصون المال ؟ یحتمل ان یحکم فیھا بالجواز لقولہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)الحرمة مال المسلم کحرمة دمہ “ و بقولہ (ص) من قتل دون مالہ فھو شھید(۱) ۔
ترجمہ : جان بچانے کے لئے تقیّہ جائز ہے لیکن آیامال کی حفاظت کی خاطر بھی جائز ہے یانہیں ؟ احتما ل یہ ہے کہ جائز ہو ۔ اس لئے کہ نبی اکرم نے فرمایا : ” مسلمان کی جان کی طرح اس کا مال بھی محتر م ہے ۔ اس کے علاوہ :جو اپنے مال کے دفاع میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے ۔
۲۔زمخشری ااسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں !خدانے اس صورت میں کفّار مشرکین سے دوستی بر قرار رکھنے کی چھوٹ دی ہے جب ان سے جان کا خطرہ ہو(۲) ۔


۳ ۔ نسفی کی تفسیر میں ملتا ہے ” الا ان تتقوا منھم تقاة “یعنی جب کافرو ں کو غلبہ حاصل ہوا ۔ اور مسلمانوں کو اجان و مال کا خطر ہ ہوا تو ایسی صورت میں دودتی ظاہر کر نا اور دشمنی پوشیدہ رکھنا جائز ہے (۳) ۔
۴۔ خازن لکھتے ہیں !۔ صرف قتل ہو جانے سے بچنے کے لئے تقیّہ جائز ہے ۔طشرطیکہ نیت سالم ہو ۔ چون کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان۔(۴) ۔
۵۔نیشاپوری ”فلا تخشو ھم واخشون “ کے ذیل میں لکھتے ہیں اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خوف کی حالت میں تقیّہ جائز ہے(۵) ۔
۶۔خطیب شربینی کو ملاحظ فرمائیے -۔” الا من اکرہ ‘ ‘ یعنی جسے کفر اظہار پر مجبور کیا جائے اور وہ ایسا کرے . ” وقلبہ مطمئن بالایمان “ اوراس کادل ایمان سے سہ شار ہو ۔ تو اس نے کچھ برانہیں کیا ۔اس لئے ایما ن کا مسکن دل ہوتا ہے(۶) ۔
۷۔طبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔  الاّان تتقو امنم تقاة ۔ کے ذیل میں ابوالعار رقمطر از ہیں ۔تقیّہ زبان سے ہوتا ہے عمل سے نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد اسی آیت کے ذیل میں ضحاک کا قول نقل کرتے ہیں ۔ تقیّہ زبان سے ہو تا ہے اگر کسی شخص کو ایسی بات کہنے پر مجبور کیا جائے جس میں خداکی نافر مانی ہو اور جان چا نے کیلئے کہ دیں ” و قلبہ مطمئن بالایمان“مگر اس کا دل ایمان سے لبریز ہوتو وہ گنہا گار نہیں (۷) ۔
۸۔ حافظ ابن ماجہ لکھتے ہیں ۔ایسی حالت میں تقیّہ جائز ہے ا۔اس لئے کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے ا۔” ا لا ّمن اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان(۸) ۔
۹۔ اسی آیت کی تفسیر میں قرطبی لکھتے ہیں ۔”حسن کا قول ہے تقیّہ انسان کے لئے قیا مت تک جائز ہے (۹) ۔
اس کے بعد قرطبی کہتے ہیں ۔”اہل عالم کا اتفاق ہے جس شخص کو کفر بکنے پر مجبور کیا جائے اور وہ “قتل سے بچنے کے لئے ظاہراً کافر ہو جائے لیکن اس کے دل میں ایمان ہو تو نہ وہ گناہ گار ہے اور اس کی بیوی اس سے الگ ہوگی اور اس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔ یہ مالک شافعی اور کوفیوں کا قول ہے ۔(۱۰)
۱۰۔اسی آیت کی تفسیر میں ابو سی لکھتے ہیں :آیت تقیّہ کے مشروع ہونے پر دلالت کرتی ہے (۱۱) ۔
۱۱۔جماالدّین قاسمی کا بیان ہے آیت” ا لاّ ان تتقو امنہم تقاة “ سے تمام آئمہ نے استنباط کیا ہے خوف کے وقت تقیّة مشروع ہے ۔
چنانچہ ابو ہریرہ ناقل ہیں کہ میں نے رسول خدا سے دو دعا ئیں یاد کی ہیں ایک دعا کو میں نے تمام لوگوں کو بتا دیا ہے لیکن دوسری دعا کو نہیں بتایا ہے اس لئے
کہ اگر بتا دیتا تو میری گردن ماری جاتی (۱۲) ۔
۱۲۔ مراغی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں رقم کیا ہے ،مئو منوں کو ہر حالت میں کافروں سے قضع رابط کرنا چاہیئے ، لیکن اگر ان سے کسی قسم کا خوف ہو تو اس کا ازالہ تقیّہ کے ذریعہ ضروری ہے اس لےٰ کہ قاعدئہ شرعیّہ یہ ہے کہ منافع حاصل کرنے سے پہلے نقصانات کا ازالا کرنا چاہیئے ۔
لہذا جب نقصان بچنے کے لےٰ کافروں کے اساتھ دوستی کرنا جائز ہے تو مسلمانوں کے منافع کے لےٰ بدر جئہ اولیٰ جائز ہے ۔
دین اور دیانت کے پابند روشن فکر مسلمانوں سے یہ توقع ہے کہ اتنے حوالے اہل سنت کی تفاسیر میں ملا حظ فر ما نے کے بعد تقیّہ کا بہانہ بناکر خالص اسلام کے مخلص ماننے والوں کو برا نہیں کہیں گے ۔بلکہ ان کی روشن دلیلوں کے ذریعہ راہ حقااور صراط مستقیم پر چلنے کی کو شش کریں گے ۔ممکن ہے کہ بعض ذہنوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جائے کہ اس کتاب کو لکھنے اور ترجمہ کرنے کا مقصد اہل سنت حضرات کو ان کے مذہب سے بددل کرتا ہے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لےٰ عرض ہے کہ کتاب کا مقصد کسی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد حق کو واضح کرنا ہے ۔”لیہلک من ہلک عن بیّنةٍ ویحییٰ من حییٰ عن بیّنةٍ۔“صرف کتابیں پڑھ لینے سے کوئی شیعہ نہیں بن جاتا بلکہ ”ذلک فضل اللہ یو تیہ من یشآء ۔(۱۳)
وگر نہ جب یہ کتاب نہیں لکھی گیٰ تھی تب بھی لوگ شیعہ مذہب پر اعتبار کرتے رہے اور آیندہ بھی کرتے رہیں گے ۔
ہماری اس کتاب سے غرض یہ ہے کہ علمائے اسلام اپنی فکر ی صلا حیتو ں کو ان فروعی مسا ئل میں الجھا کر برباد نہ کریں بلکہ انھیں اپنے مشرک دشمن کے ظاہری اور باطنی ہتھکنڈوں سے بچنے کے لےٰ استعمال کریں ۔
اسی طرح جو لوگ اہل تحقیق اور حق جق ہیں ان کو کھلی آزادی دیں تکہ وہ فتوٰں کے خوف سے بے خطر ہو کر داویٰ تحقیق میں قد م رکھیں اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں ۔خدا ند متعال ہم سب کو دین اسلام اور مستضعف وبے چارے مسلمانوں کی حمایت میں اپنی فکری اور عملی تو لنکہٰ موں کو صرف کرنے کی توفیق عطا فر مائے ۔
آخر میں ناشر گر ا می جناب انصاریان صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جو تن من دھن سے این اسلام اور فقہ جعفری کی خدمت کررہے ہیں ۔ خدائے سبحان موصو ف کی توفیقات میں اضافہ فر مائے ۔
پرور دگا ر عالم جملہ مومنین ومو منات کو حفظ وامان میں رکھے اور ہمارے امام زمانہ کے ظہور میںتعجیل فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین ۳ شعبا ن المعظم ۱۴۱۲ھء قم المقدّس ایران ۔
 

(۱) ۔تفسیر فخرالرازی ۔
۲۔ تفسیر لکشاف، ج ۱،ص ۲۲
(۳) ۔ تفسر نسفی ۔حاشیہ تفسیر خازن، ج ۱، ص۲۷۷۔
۴۔ تفسیر الخازن ، ج ۳، ص ۷۷۲ ۔
۵۔ تفسی۶۔ تفسیر السراج ا المنیرج ۳ ص۲۶۳۔ر غزائب القرآن، ج ۳ ص۱۷۸۔
۶۔ تفسیر السراج ا المنیرج ۳ ص۲۶۳۔
۷۔جامع البیان ج ۱ص ۱۵۳
۸۔ سنن ابن ماجہ، ج ۱ ،ص ۵۳ ۔
۹۔جامع احکام قرآن ج ۴ ص ۵۷ ۔
۱۰۔جامع احکام قرآن جلد ص۱۸۲ ۔
۱۱۔روح المعا نی جلد ۳ ،ص ۵۔
۱۲۔محاس الثاویل جلد ۴ ص طبع مصر ۔
۱۳۔ سور ہ جمہ
حرف آغاز تقیّہ،معرکتہ آلاراء موضوع بحث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma