۳۔عورت کے مقام کے احیاء میں اسلام کا کر دار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 61 - 64 ۲۔بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کیا جاتا تھا ؟


۳۔عورت کے مقام کے احیاء میں اسلام کا کر دار :عورت کی تحقیر و تذلیل اور اس کی حیثیت کی تباہی زمانہٴ جاہلیت کے عربوں ہی میں نہ تھی بلکہ اس زمانے کی سب سے زیادہ متمدن قوموں نکا بھی یہی حال تھا وہ عورت کو ایک حقیر وجود سمجھتے تھے اس سے زیادہ ایک متاع بازارکا سلوک کرتے تھے نہ کہ انسان کاسا۔ البتہ دور جاہلیت کے عربوں کے ہاں عورت کی تذلیل زیادہ تکلیف دہ اور زیادہ وحشت ناک تھی یہاں تک کہ وہ نسب کو صرف مرد سے مربوط سمجھتے تھے اور عورت کو تو قبل پید ائش بچے کی پر ورش کے لئے ایک ظرف شمار کرتے تھے ۔ زمانہ جاہلیت کے اس شعر سے بھی ان کا یہ نظریہ ظاہر ہوتا ہے :۔
بنو نا بنو ابنائنا و بناتنا بنوھن ابناء الرجال الاباعد
ہمارے بیٹے تو صرف ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں ۔ باقی رہے ہماری بیٹیوں کے بیٹے تو وہ تو اور مردوں کے بیٹے ہیں
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ عورت کے لئے حق میراث کے قطعاً قائل نہ تھے اور تعداد ازدواج کے لئے بھی کسی حد و حدود کے قائل نہ تھے وہ شادی اس ااسانی سے کرلیتے جیسے پانی پیتے ہیں اور اسی آسانی سے طلاق دیدیتے تھے ۔
اسلام نے ظہور کیا تو اس نے اس فضول اور بے ہودہ روش کے خلاف مختلف حوالوں اور طریقوں سے سخت جنگ کی ۔ اسلام نے خاص طور پر بیٹی کی پیدا ئش کو ننگ و عار سمجھنے کے خلاف بہت جنگ کی ہے احادیثِ اسلامی میں کسی خاندان میں بیٹی کسی پیدائش کو رحمت الہٰی کی آبشاجاری ہوجانے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ رسول ِ اسلام خود اپنی بیٹی بانوئے اسلام فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کا اس قدر احترام کرتے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا آپ اپنے اس قدر مقام و منزلت کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کے ہاتھ چومتے ، کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی فاطمہ(علیه السلام) سے ملنے جاتے اور اس کے بر عکس جب کسی سفر کے لئے روانہ ہوتے تو آخری گھر جس میں خدا حافظ کہنے کے لئے آتے وہ فاطمہ (علیه السلام) کا ہی گھر ہوتا۔
ایک حدیث میں ہے :جب رسول اللہ کو خبر دی گئی کہ خد انے انھیں بیٹی عطا فرمائی ہے تو اچانک آپ نے اپنے اصحاب کے چہروں کی طرف دیکھا ان کے چہروں کی طرف دیکھا ان کے چہروں پر افسوس کے آثار نمایاں تھے (گویا زمانہ جاہلیت کی رسموں کے کچھ آثار ابھی ان کے دماغوں میں باقی تھے ) ۔
رسول اللہ نے فوراً فرمایا:۔
مالکم ؟
ریحانة اشمھا، و رزقھا علی اللہ عزوجل
تمہیں کیا ہوا ؟اللہ نے مجھے ایک مہکتا ہوا پھول دیا ہے جس کی خوشبو سونگھوں گا (رہی بات اس کی روزی ی تو) اس کا رزق خدا کے ذمہ ہے ۔1
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا:
نعم الولد البنات ،ملطفات، مھزات، موانسات مفلیات۔
بیٹی کتنی اچھی ہوتی ہے ، وہ محبت کرنے والی ، مددگار ۔مونس و غمخوار اور پاک وپاک کنندہ ہوتی ہے ۔2
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
من دخل السوق فاشتری تحفة فحملھا الیٰ عیالہ کان کھامل الصدقة الیٰ قوم محاویج ولیبدء بالاناث قبل الذکور، فانہ من فسرح ابنتہ فکانما اعتق رقبة من ولد اسمٰعیل ۔
جو شخص بازار جائے اور اپنے گھر والوں کے لئے کوئی تحفہ خریدے وہ اس شخص کی طرح ہے جو حاجتمندوں کی مدد کرے ( اسے اس شخص کی سی جزا ملے گی ) اور جب گھر آکر اسے بانٹنے لگے تو سب سے پہلے بیٹیوں کو دے کیونک جو شخص اپنی بیٹی کو خوش کرے ایسے ہے گویا اس نے اولادِ اسماعیل میں سے کسی غلام کو آزاد کیا ہے ۔3
در حقیقت عورت کو اسلام نے جو احترام عطاکیا ہے اسی کے سبب اسے معاشرے میں آزادی نصیب ہوئی اور اس کے سبب عورتوں کی غلامی کا دور ختم ہوا۔
اس سلسلے میں اور بھی بہت سی کہنے کی باتیں ہیں جو متعلقہ آیات کی تفسیر میں بیان کی جائیں کی لیکن اس حقیقت کو یہاں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی اسلامی معاشروں میں دور جاہلیت کے آثار باقی ہیں ۔ اب بھی ایسے گھرانوں نے کمی نہیں جو لڑکے کی پیدا ئش پر تو خوش ہوتے ہیں لیکن لڑکی پیدائش پر افسردہ اور پریشان ہوجاتے ہیں یا کم از کم لڑکے کی پیدائش کو لڑکی کی پیدائش پر ترجیح دیتے ہیں ۔
البتہ ہو سکتا ہے معاشرے میں عورتوں کی کیفیت کے حوالے سے خاص قسم کے اقتصادی اور معاشرتی حالات ایسی غلط عادات ورسوم کا باعث ہوں لیکن کچھ بھی ہو تمام سچے مسلمانوں کو چاہئیے کہ ایسے طرز فکر کو ختم کرنے کی جد و جہد کریں اور اس فکر کی معاشرتی اور اقتصادی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکیں کیونکہ اسلام یہ بات پسند نہیں کرتا کہ چودہ صدیوں بعد اس کے پیروکار دورِ جاہلیت کے افکار و نظر یات کی طرف پلٹ جائیں ۔ اور ایک نئے دور جاہلیت کا آغاز ہو جائے ۔
حالت تو یہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں بھی جہاں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کے لئے اعلیٰ مقام کے قائل ہیں عملی طور پر اسے اس قدر ذلیل کیا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک بے قیمت گڑیا ، آتش ِ شہوت کو خاموش کرے والے وجود یا مال اسباب کے لئے ایک اشتہار سے زیادہ نہیں رہی۔ ۳
۳۔یہ بات جاذب نظر ہے کہ اتفاق سے یہ سطور ۲۰ جمادی الثانیہ ۱۴۰۱ھئکو لکھی جارہی ہے ہیں کہ جو بانوئے اسلام حضرت فاطمہ اللہ علیھا کا روز ولادت ہے اور اسی دن کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ”یوم خواتین “ قرارد یا گیا ہے ۔


1. وسائل الشیعہ جلد ۱۵ص۱۰۲۔
2۔وسائل الشیعہ جلد۱۵ صفحہ ۱۰۰۔
3. ۔مکارم الاخلاق ص ۵۴۔
سوره نحل/ آیه 61 - 64 ۲۔بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کیا جاتا تھا ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma