نہیں جانتے تو پوچھ لو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
اہل ذکر کون ہیں ؟ سوره نحل/ آیه 43 - 44

نہیں جانتے تو پوچھ لو


گذشتہ دو آیتیں حقیقی مہاجرین کے بارے میں تھیں البتہ زیر بحث آیات کے بارے میں دوبارہ اصول ِ دین سے متعلق گزشتہ مسائل کا ذکر ہے ان میں مشرکین کے ایک مشہور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ۔
وہ کہتے تھے کہ خدا نے تبلغ رسالت کے لئے کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا ( یا وہ کہتے تھے کہ پیغمبر کے پاس کوئی ایسی غیر معمولی قوت کیوں نہیں ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں یہ کام ترک کرنے پر مجبور کردے کہ جو ہم انجام دیتے ہیں )ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ہم نے تجھ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں اور وہ بھی بس ایسے ہی مرد تھے کہ جن پر وحی نازل ہوتی تھی ( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالاً نُوحِی إِلَیْھِمْ) ۔
جی ہاں یہ مرد نوع بشر میں سے تھے ان میں تمام تر انسانی جذبات و احساسات موجود تھے یہ لوگوں کی مشکلات اور مصائب کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے ۔ ان کی ضروریا ت کو جانتے تھے جبکہ کوئی فرشتہ ان امور سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کے اندر جو گذرتی ہے فرشتہ اسے نہیں سمجھ پاتا۔
مسلم ہے صاحبان وحی کی اس کے سواکوئی اور ذمہ داری نہ تھی کہ وہ ابلاغ ِ رسالت کریں ۔ ان کا کام تھا کہ وہ پیام وحی حاصل کریں۔ اسے انسانوں تک پہنچائیں اور معمول کے ذرائع کے ساتھ مقاصد وحی کے حصول کی جد و جہد کریں ۔ ان کا یہ کام نہ تھا کہ کسی غیر معمولی خدائی طاقت کے ذریعے تمام طبیعی قونین کو توڑتے ہوئے لوگوں کو قبولیت کی دعوت دیں اور انہیں انحرافات ترک کرنے پر مجبور کریں کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر کسی کا ایمان لانا کوئی افتخار کی بات نہ ہوتی اور نہ ہی ایسا ایمان ترقی اور کمال کا ذریعہ ہوتا ۔
اس حقیقت پر تاکید اور اس کی تائید کے لئے مزید فرمایا گیا ہے : اگر اس بات کا تمہیں علم نہیں تو جاوٴ با خبر لوگوں سے پوچھو (فَاسْاٴَلُوا اٴَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔
”ذکر“ آگاہی اور اطلاع کے معنی میں ہے اور ” اھل الذکر“ ایک وسیع مفہوم ہے ۔ مختلف سطح پر ا سکے مفہوم میں تمام آگاہ او رباخبر لوگ شامل ہیں ۔
بہت سے مفسرین نے ”اھل الذکر “ سے اہل کتاب کے علماء مراد لیتے ہیں ۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ” اھل الذکر“ کا مفہوم اسی میں محدود سمجھ لی اجائے بلکہ در حقیقت اس کے کلی مفہوم کا ایک مصداق ہے کیونہ اس کے بارے میں سوال قاعدتاً اہل کتاب کے اور یہود و نصاریٰ کے علماء سے کیا جانا چاہئیے کہ گذشتہ انبیاء و مر سلین نوع بشر میں سے تھے اور مرد تھے کہ جو خدائی احکام کی تبلیغ اور اجراء کے لئے مامور ہوئے تھے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ اہل کتاب ہر لحاظ سے مشر کین کے ہم آہنگ نہ تھے بلکہ اسلام کی مخالفت میں وہ ان سے ہم آہنگ تھے لہٰذا گذشتہ انبیاء کے حالات بیان کرنے کے لئے اہل کتاب کے علماء بہتر ذریعہ تھے ۔
مفردات میں راغب نے کہا ہے کہ ”ذکر“ کے دو معنی ہیں یہ لفظ کبھی ”حفظ“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ”یاد آوری“ کے معنی میں ۔
البتہ ممکن ہے یاد آوری دل ہی سے ہو( دل سے یاد کرنا در اصل باطنی ذکر شمار ہوتا ہے ) یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کو ذکر کہا جاتا ہے یہ اس بناء پر ہے کہ قرآن حقائق کو واضح کرتا ہے ۔
اگلی آیت میں ہے : اگر تم انبیاء اور ان کی کتب کے واضح دلائل سے آگاہ نہیں ہوتو آگاہ اور باخبر لوگوں کی طرف رجوع کرو ( بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ) ۔
۱۔” بِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُر“ترکیب کے لحاظ سے کس فعل سے متعلق ہے اس سلسلے میں مفسرین نے کئی ایک احتمالات ذکر کئے ہیں بعض نے اسے ”لاتعلمون “ سے متعلق سمجھا ہے (جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اور ظاہری مفہوم سے یہی بات مطابقت رکھتی ہے ) ۔
توجہ رہے کہ علم باء کے بغیر اور باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے پہلے ”ارسلنا“ مقدر ہے اور اصل میں یوں تھا ”ارسلناھم بالبینات و الزبر“
بعض نے کہا ہے کہ اس کا متعلق ” و ما ارسلنا “ قبل کی آیت میں ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ” نوحی الیھم “ سے متعلق ہے ۔
واضح ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے مطابق آیت کا ایک خاص مفہوم ہوگا لیکن مجموعی طور پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
”بینات“ ” بینة“ کی جمع ہے اس کا معنی ہے ”واضح دلائل “ ، ہو سکتا ہے یہاں یہ انبیاء کے معجزات اور ان کی حقانیت کے دیگر دلائل کی طرف اشارہ ہو ۔
”زبر“ ” زبور“ کی جمع ہے ا س کا معنی ہے ” کتاب “۔
در حقیقت ”بینات“ کا مفہوم ہے اثبات کے دلائل اور ” زبر“ ان کتب کی طرف اشارہ ہے جن میں انبیاء کی تعلیمات جمع تھیں ۔
اس کے بعد قرآن روی سخن پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے :ہم نے یہ ذکر ( قرآن) تجھ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے جو کچھ نازل ہوا ہے تو ان سے بیان کرے (وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ) ۔
تاکہ وہ ان آیات پر غور و فکر کریں اور ان کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کی طرف متوجہ ہوں ( وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔
در حقیقت تیری دعوت اور رسالت کا پروگرام اصول طور پر کوئی نئی چیز نہیں ۔ گزشتہ رسولوں پر بھی ہم نے آسمانی کتابیں نازل کی ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ان ذمہ داریوں سے آگاہ کریں کہ جو خد ا، مخلوق اور خود اپنی ذات کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں ہم نے تجھ پر قرآن نازل کیا ہے تاکہ تو اس کے مفاہیم اور تعلیمات کو بیان کرے اور انسانون کی فکر کو بیدار کرے تاکہ وہ مسئولیت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ قدم اٹھائیں اور رشد و کمال کی طرف آگے بڑھیں ( نہ کہ جبری طریقے سے اور خدا کی خلافِ معمول جبری طاقت سے ) ۔

اہل ذکر کون ہیں ؟ سوره نحل/ آیه 43 - 44
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma