۱۔اچھی اور بری نیت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۲۔ بے موقع تسلیم حقجو دوسروں کے گناہ اپنے کندھے پر لاد لیتے ہیں

۱۔اچھی اور بری نیت :۔ایک عمل انجام دینے سے پہلے کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اس میں رہبروں ، ہدایت کرنیوالوں یا وسوسے ڈالنے والوں کا اثر بھی اہمیت رکھتا ہے اسی طرح اچھی یا بری سنتیں اور رسمیں بھی اعمال کے لئے فکری اور معاشرتی اعتبار سے زمین ہموار کرتی ہیں اس بات کا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بعض اوقات رہبروں اور کسی کام کی بنیاد رکھنے والوں کا اثر دیگر تمام عوامل سے زیادہ ہوتا ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ وہ برائیوں یا نیکیوں میں شریک نہ ہوں اسی منطق کی رو سے قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں نیکی یا بدی کی بنیاد رکھنے یا اچھی بری سنت قائم کرنے کے مسئلہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔
مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ گمراہ کنندہ مستکبر اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کند ھوں پر رکھتے ہیں اور ایک حصہ اپنے پیر وکاروں کے گناہوں کا بھی ( بغیر اس کے کہ پیروکاروں کی ذمہ داری میں کوئی کمی واقع ہو ) ۔
یہ بات اس قدر اہم ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
الدال علی الخیر کفاعلہ
نیکی کی دعوت دینے والا نیکی کرنے کی طرح ہے 1
زیر بحث آیت کے ذیل میں رسول اللہ سے منقول حدیث میں ہے آپ نے فرمایا:
ایما داع دعی الیٰ الھدی فاتبع ، فلہ مثل اجورھم ، من غیر ان ینقص من اجورھم شیئاًو ایما داع دعی الیٰ ضلالہ فاتبع علیہ فان علیہ مثل اوزار من اتبعہ ، من غیر ان ینقص من اوزارھم شیئا ۔
جو شخص ہدایت کی دعوت دے اس کا اجر اس ہدایت پر عمل کرنے والوں جتنا ہو گا جبکہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جو شخص گمراہی کی دعوت دے گا اسے اس کے پیروکاروں جتنی سزا ملے گی جبکہ پیروکاروں کی سزامیں بھی کوئی تخفیف نہ ہو گی ۔2
امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :
من استن بسنةعدل فاتبع کان لہ من عمل بھا، من غیر ان ینتنقص من اجورھم شیء و من استن سنة جورفاتبع کان علیہ مثل وزرمن عمل بہ ، من غیر ان ینتنقص من اوزارھم شیء
جو شخص کسی اچھی سنت کی بنیاد رکھے اور لوگ اس کی پیروی کریں تو اس کا اجر پیروی کرنے والوں جتنا ہوگا جبکہ خود عمل کرنے والوں کا اجر بھی کم نہ ہوگا اور جو شخص کسی ظلم و جور کی بنیاد رکھے اور لوگ اس کی پیروی کریں تو اس کا عمل کرنے والوں جتنا ہوگا جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی ۔3
اس مضمون کی متعدددیگر روایات معصو م پیشواوٴں سے نقل ہوئی ہیں شیخ حر عاملی علیہ الرحمة نے یہ روایات وسائل کی جلد ۱۱ کتاب ” الامر بالمعروف و انہی عن المنکر “ کے باب ۱۶ میں جمع کی ہیں ۔
صحیح مسلم میں بھی رسول اکرم سے اس مضمون کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے ۔
رسول اللہ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے تھے کچھ افراد آپ کے پاس آئے ان کے پاوٴں ننگے تھے جسم پر لباس نہیں تھا ، تلواریں انھوں نے اپنی کمروں سے باندھ رکھی تھیں ( اور وہ جہاد کے لئے تیار تھے ) ان کے فقر و فاقہ کا یہ عالم دیکھا تو رسول اللہ کا چہرہ دگر ہو گیا آپ اپنے گھر میں چلے گئے واپس آئے تو بلا ل ۻ کو حکم دیا کہ لوگوں سے کہو کہ جمع ہو جائیں اور انھیں نماز کی دعوت دو ، نماز پڑھی گئی ، اس کے بعد رسول اللہ نے خطبہ دیا اور فرمایا :
اے لوگو! خد اسے ڈرو ، وہی خدا کہ جس نے تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے ، اور جان لو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے لوگوتقویٰ اختیار کرو اور کل قیامت کے لئے غور و فکر کرو ۔ تم میں سے جو جس کے بس میں ہے ۔ دینار ، درھم ، لباس ، گندم ، کھجوریہاں تک کہ آدھی کھجور سے بھی حاجت مند کی مدد کرو ۔
اس دوران ایک انصاری رقم کی ایک تھیلی لے آیا ۔ تھیلی اتنی بڑی تھی کہ اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتی تھی ۔ اس سے لوگوں کو تشویق ہوئی ۔ یکے بعد دیگرے انھوں نے مختلف چیزیں امداد کے طور پر دیں ، یہاں تک کہ اناج اور لباس کے دو ڈھیر لگ گئے ۔
رسول اللہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑگئی، اس وقت آپ نے فرمایا:
من سن فی الاسلام سنة حسنة فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شیء و من سن فی الاسلام سنة سیئة کان علیہ وزرھا وزرمن عمل بھا من بعد من غیر ان ینقص من اوزارھم شیء ۔
یعنی جس نے اسلام میں کسی اچھی سنت کی بنیاد رکھی ، اسے اس کا اجر ملے گا اور اس پر جو عمل ہو گا اس کا اجر بھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی ۔ اور جو کو ئی اسلام میں کسی بری سنت کی بنیاد رکھے اسے اس کا بوجھ اٹھا نا پڑے گا اور اس پر جو عمل ہو گا اس کا بوجھ بھی ۔ جبکہ عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہ ہوگی ۔4
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ یہ احادیث اور ان جیسی قرآنی سورہٴ انعام کی اس آیت سے کیسے مطابقت رکھتی ہیں ، جس میں فرمایا گیا ہے :
ولا تزر وازرة وزر اخریٰ
کوئی دوسرے کا گناہ اپنے کاندھے پر نہیں اٹھا تا ۔ ( انعام ۱۶۵)ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب پوری طرح واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ دوسرے کے گناہوں کے جواب دہ نہیں ہیں بلکہ اپنی ہی گناہوں کے جواب دہ ہیں کیونکہ یہ دوسروں کے گناہوں کے عمل میں شریک ہیں اور ایک لحاظ سے یہ خود ان ہی کا گناہ شمار ہوتا ہے ۔

 


۱۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۴۳۶۔
2۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
3۔ وسائل الشیعہ جلد ۱۱ ص ۴۳۷۔
4. ۔صحیح مسلم جلد ۲ ص ۷۰۴( باب” الحث علی صدقة ولو بشق تمرة“)

 ۔

۲۔ بے موقع تسلیم حقجو دوسروں کے گناہ اپنے کندھے پر لاد لیتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma