عذاب الٰہی میں جلدی نہیں ہوسکتی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 60 - 64 سوره کهف / آیه 57 - 59


عذاب الٰہی میں جلدی نہیں ہوسکتی

گزشتہ آیات میں تاریک دل متعصب کافروں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیرِ نظر آیات میں بھی وہی سلسلہ گفتگو جاری ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: ان سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے کہ جنھیں ان کے رب کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں (وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہِ فَاٴَعْرَضَ عَنْھَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ) ۔
لفظ ” تذُکِّر“( یا ددہانی) گویا اس طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کی تعلیمات حقائق کی یاد آواری کی طرح ہیں ۔ گویا یہ تعلیمات روحِ انسانی کی گہرائیوں میں موجود ہوتی ہیں اور انبیاء کا کام ان کے چہرے سے پردہ ہٹانا ہے ۔ یہی مفہوم نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں بھی ہے:
لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم متسی نعمتہ و یحتجوا الیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول
انبیاء کی بعثت کا ہدف یہ تھا کہ وہ انسانوں کو عہدِ فطرت پورا کرنے پر ابھاریں، انھیں خدا کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں،تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمامِ حجت کریں اور عقل کے پنہاں خزانے آشکار کریں ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ ان دل کے اندھوں کو تین طرح سے بیداری کا درس دیا گیا ہے ۔
اوّل: یہ کہ یہ حقائق تمھاری فطرت، وجدان اور روح سے مکمل آشنائی رکھتے ہیں ۔
دوم: یہ کہ تمھارے رب کی طرف سے ہیں ۔
سوم: یہ کہ یہ نہ بھول جاؤ کہ تم نے بہت سی غلطیاں کی ہیں اور انبیاء کی تعلیم کا مقصدان کے اثرات کو دُور کرنا ہے ۔
لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ”کیونکہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے گِرا دیئے ہیں تاکہ وہ سمجھ نہ پائیں اور ان کے کان بوجھل کردیئے ہیں تاکہ وہ آوازِ حق سن نہ سکیں“ (إِنَّا جَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوبِھِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَھُوہُ وَفِی آذَانِھِمْ وَقْرًا) ۔
یہی وجہ ہے کہ ”اگر تم انھیں حق کی طرف پکار و تو وہ ہرگز ہدایت قبول نہیں کریں گے“ (وَإِنْ تَدْعُھُمْ إِلَی الْھُدیٰ فَلَنْ یَھْتَدُوا إِذًا اٴَبَدًا) ۔
شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ اگر اللہ نے قوت ادراک اور قوت سماعت چھین لی ہے تو اس کی وجہ ہے ”ما قدمت یداہ“( ان کے وہی اعمال جو انھوں نے خود کیے ہیں) اور یہ سزا خود انہی کے اعمال کا سیدھا نتیجہ ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں ان کے وہی بُرے اور شرمناک اعمال ہی ان کے دلوں پر پردے اور ان کے کانوں کے لیے بوجھل پن میں تبددیل ہوگئے ہیں ۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ذکر قرآن کی بہت سی آیات میں ہے ۔
مثلاً سورہٴ نساء کی آیت ۱۵۵ میں ہے:
<بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ فَلَایُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیلًا۔
اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہٰذا بہت کم لوگ ایمان لانے والے ہیں ۔
لیکن کچھ لوگ اسلام کو مکتب جبر و اکراہ ثابت کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔ انھوں نے زیرِ بحث آیت کے دوسرے جملوں کو نظر میں نہیں رکھا اور اس کی تفسیر کرنے والی دیگر آیتوں کو بھی نہیں دیکھا ۔ انھوں نے اس کے ایک حصّے کے ظاہری لفظی معنی کا سہارا لے کر اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ جیسے ہم نے بیان کیا ہے اس اشکال کا جواب پوری طرح واضح ہے ۔
خدا کا تربیتی پروگرام ایسا ہے کہ وہ بغیر مہلت اور موقع دیئے ظالم بادشاہوں کی طرح فوراً سزا نہیں دیتا ۔ اس کی وسیع رحمت کا تقاضا ہے کہ گنہگاروں کو زیادہ سے زیادہ مہلت دی جائے اور اصلاح کا موقع دیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے: تیرا رب بخشنے والا اور صاحبِ رحمت ہے

(وَرَبُّکَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ) ۔
اگر وہ انھیں سزا دینا چاہتا تو ان پر فوراً عذابھیج دیتا (لَوْ یُؤَاخِذُھُمْ بِمَا کَسَبُوا لَعَجَّلَ لَھُمَ الْعَذَابَ) ۔
لیکن ان کے لیے ایک معیاد مقرر ہے کہ جب وہ پوری ہوگئی تو پھر وہ بچ کر نہیں جائیں گے ( بَلْ لَھُمْ مَوْعِدٌ لَنْ یَجِدُوا مِنْ دُونِہِ مَوْئِلًا) ۔(2)
اس کی بخشش کا تقاضا ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کو بخش دے اور اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے عذا ب میں بھی جلدی نہ کرے، شاید وہ توبہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں لیکن اس کی عدالت کا بھی تقاضا ہے کہ جب سرکشی انتہا کو پہنچ جائے تو پھر ان کا حساب بے باک کردے ۔ وہ فاسد و مفسد افراد کو جن کی اصلاح کی امید تک باقی نہ رہے اصولی طور پر ایسے لوگوں کی بقاء حکمت خلقت کی نظر سے کوئی معنی نہیں رکھتی لہٰذا ان کا خاتمہ ضروری ہے تا کہ زمین ان کے وجود نا پاک سے پاک ہوجائے ۔
آخر میں ایک اور یاد و وہانی ہے ۔ آیات کے اس سلسلے کے آخر میں گزشتہ ظالموں کا دردناک انجام یا د لاتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اور یہ آبادیاں کہ جو ویرانوں میں بدل چکی ہیں، جب یہ لوگ ظلم و ستم کے مرتکب ہوئے تو ہم نے انھیں ہلاک کردیا لیکن اس کے با وجود ہم نے انھیں عذاب کرنے میں جلدی نہیں کی بلکہ ان کی ہلاکت کے لیے ایک معیاد مقرر کی ہے (وَتِلْکَ الْقُریٰ اٴَھْلَکْنَاھُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَھْلِکِھِمْ مَوْعِدًا ) ۔

 

 


۱۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں ”اکنة“ ”کنان“ (بروزن ”کتاب“) کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے پردہ یا وہ چیز جو چھپا دینے والی ہو اور ”وقر“ کان کے بوجھل پن اور کم سننے کے معنی میں ہے ۔
(2) ”موئل“ ”وئل“ (بروزن ”سرد“)کے مادہ سے ملجا، پناہ گاہ اور ذریعہٴ نجات کے معنی میں ہے ۔
سوره کهف / آیه 60 - 64 سوره کهف / آیه 57 - 59
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma