ہائے ہماری شامت! یہ کیسی کتاب ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۱۔ پہاڑ کیوں منہدم ہوں گے؟سوره کهف / آیه 47 - 49


ہائے ہماری شامت! یہ کیسی کتاب ہے

گزشتہ آیات میں ایک خود پرست اور مغرور انسان کے بارے میں گفتگو تھی کہ جس نے اپنے تکبرّکی وجہ سے قیامت کا انکار کریا تھا ۔زیر نظر آیات میں قیامت کی کیفیت کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تین مراحل کا ذکر ہے:
پہلا مرحلہ انسانوں کے قبروں سے اٹھنے سے پہلے کا ہے:
دوسرا مرحلہ قیامت کا ہے اور
تیسرا مرحلہ اس کے بعد کا ہے
ارشاد ہوتا ہے:اس وقت کا سوچو جب (جہاں ہستی کا یہ نظام نئے نظام کے مقدمے کے طورپر درہم برہم ہوجائے گا اور)پہاڑ چلنے لگیں گے اور سطح زمین کی ساری اونچ نیچ ہوجائے گی ۔ زمین کھلے میدان کی طرح ہوگی اور ہر چیز اس میں تم نمایاں دیکھوگے(وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاٴَرْضَ بَارِزَةً) ۔
ان آیات میں ان حوادث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آغاز قیامت میں رونما ہوں گے ۔ یہ حوادث بہت زیادہ ہیں ۔ قرآن حکیم کی آخری مختصر سورتوں میں ان کا خاص طور پر بہت ذکر ہے ۔ انھیں”اشراط الساعة“(قیامت کی نشانیاں)کہا جاتا ہے ۔
یہ سب نشانیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ آج کی دنیا اور موجود عالم بالکل دگر گوں ہوجائے گا ۔پہاڑ چلنے لگیں گے اور پھر دکھائی نہ دیں گے ۔ درخت اور عمارتیں گر پڑیں گی ۔ زمین صاف اور ہموار ہو جائے گی ۔ پھر زلزلے اسے در ہم برہم کردیں گے ۔ سورج کی روشنی ختم ہوجائے گی اور چاند بے نورہوجائے گا ۔ ستاروں کے چراغ بجھ جائیں گے ۔ پھر ان ویرانوں میں نئے جہان اور نئے زمین و آسمان تعبیر ہوں گے ۔ انسان نئے سرے سے نئے زندگی آغاز کریں گے ۔
مزیدفرمایا گیا ہے:اس وقت ہم محشور کریں گے اور ان میں سے ہم کسی کو نظر انداز نہیں کریں گے( وَحَشَرْنَاھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اٴَحَدًا) ۔
”نغادر“”غدر“ کے مادہ سے کسی چیز کو ترک کرنے کے معنی میں ہے اسی لیے اپنے عہد و پیمان کو توڑنے والے شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے ”غدر“کیا ہے او ریہ جو پانی کے گڑھے کو ”غدیر“ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بارش کے پانی کی کچھ مقدار وہاں چھوڑدی گئی اور ترک کردی گئی ہوتی ہے ۔
بہر حال مذکورہ جملہ اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے کہ معاد کا حکم سب کے لیے ہے اور اس سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے ۔
اگلی آیت میں قبروں سے انسانوں کے اٹھنے اور محشور ہونے کی کیفیت کے بارے میں ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ سب ایک ہی صف میں تیرے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے( وَعُرِضُوا عَلیٰ رَبِّکَ صَفًّا) ۔
ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہوکہ لوگوں کا ہر گروہ جو ایک عقیدے کا حامل ہے یا جن کے عمل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں وہ ایک صف میں ہوں گے یا یہ کہ سب کے سب کسی فرق اور امتیاز کے بغیر ایک صف میں ہوں گے ۔
اور انھیں کہا جائے گا: تم سب کو ہمارے پاس اس طرح آنا پڑا جیسے ہم نے آغاز میں تمھیں پیدا کیا( لَقَدْ جِئْتُمُونَا کَمَا خَلَقْنَاکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّة) ۔
نہ مال و ثروت کا کوئی پتہ ہے، نہ زر و زیور کی کوئی خبر ہے، نہ مادی امتیازات ہیں، نہ رنگارنگ لباس ہیں اور نہ یاور و مددگار۔ بالکل اسی طرح جیسے ابتدئی آفرینش میں تھے، آج بھی اسی پہلی حالت میں ہو ۔
لیکن تمھیں یہ گمان تھا کہ ہم تمھارے لیے کوئی وعدہ گاہ قرار نہیں دیں گے(بَلْ زَعَمْتُمْ اٴَلَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَوْعِدًا) ۔اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب مادی وسائل اور نعمتوں کا غرور تم پر چھا جاتا تھا ۔ تمھیں دنیا جاوداں لگنے لگتی تھی اور آخرت کی فطری فکر اس میں چھپ جاتی تھی ۔
اس کے بعد اس قیامت کبریٰ کے دوسرے مراحل بیان کیے گئے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے:وہ کتاب وہاں رکھ دی جائے گی جو سب انسانوں کا نامہٴ اعمال ہے

( وَوُضِعَ الْکِتَاب) ۔
گنہگار جب اس کے مندرجات سے آگاہ ہوں گے تو خوفزوہ ہوجائیں گے اور وحشت کے آثار تو ان کے چہرے پر دیکھے گا(فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ) ۔
تو اس وقت فریاد کریں گے اور کہیں گے: ہائے افسوس! یہ کیسی کتاب ہے کہ جو کوئی چھوٹا بڑا عمل شمار کیے بغیر نہیں چھوڑتی(وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَاکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاھَا) ۔
اس نے چھوٹی سے چھوٹی چیز کا حساب رکھا ہے اور کسی چیز کو نظر انداز نہیں کیا ۔واقعاًیہ بھی کتنی وحشتناک ہے جن کا موں کو ہم نے بھلا دیاتھا اور ہم تو سوچتے تھے کہ ہم نے کوئی غلط کام کیاہی نہیں لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری جوابدہی کا وزن کتنا بھاری ہے اور ہمارا انجام تاریک ہے ۔
اس تحریری سند کے علاوہ ”تم اپنے سب اعمال کو حاضر پاوٴگے“ (وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا) ۔
نیکیاں، برائیاں، مظالم، عدل کے کام، فضول باتیں اور خیانتیں سب ان کے سامنے مجسّم ہوں گی ۔
در حقیقت وہ اپنے کیے ہیں گرفتاہو گے ’اورتیراب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا “( وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا) ۔
یہ تو ہی کام ہوں گے جو انھوں نے اس جہان میں انجام دیئے ہیں لہٰذا وہ شکوہ بھی اپنے آپ ہی سے کرسکتے ہیں ۔

۱۔ پہاڑ کیوں منہدم ہوں گے؟سوره کهف / آیه 47 - 49
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma