مستضعفین کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 42 - 44 سوره کهف / آیه 37 - 41


مستضعفین کا جواب

ان آیات میں اس غرور ، بے ایمان، خود غرض دولت مند کی بے بنیاد باتوں کا جواب ا س کے مومن دوست کی زبانی دیا گیا ہے ۔ پہلے ایک وہ خاموشی سے اس کوتاہ فکر انسان کی باتیں سنتارہا تاکہ جو کچھ اس کے اندر ہے باہر آجائے اور پھر ایک ہی بار اسے جواب دیا جائے ۔”ا ُس نے کہا: کیا تو اس خدا سے کافر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور پھر شخص بنایا (قَالَ لَہُ صَاحِبُہُ وَھُوَ یُحَاوِرُہُ اٴَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاکَ رَجُلًا) ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ گزشتہ آیتوں میں مغرور شخص کی جو باتیں ہم نے پڑھی ہیں ان میں وجود خدا کا صریح انکار تو موجو نہیں ہے جبکہ ایک توحید پرست شخص اسے جو جواب دے رہا ہے ظاہراً تو سب سے پہلے اسے انکار خدا پر سرزنش کر رہا ہے اور اسے تخلیق انسان کے حوالے سے خدائے عالم و قادر کی طرف متوجہ کر رہا ہے کیونکہ تخلیقِ انسان دلائلِ توحید میں سے بہت واضح دلیل ہے ۔
وہ خدا کہ جس نے ابتداء میں انسان کو خاک سے پیدا کیا ۔ درختوں اور نباتات کی جڑوں نے زمین سے غذا حاصل کی ۔ پھر نباتات حیوانات کی غذا بنے ۔ انسان نے نباتات اور حیوانات سے غذا حاصل کی اور اس غذا کی قوت سے انسان کا نطفہ بنا ۔ جس نے رحم مادر میں تکمیل کے مراحل طے کیے ۔ وہ دنیا میں ایا ۔ یہاں تک کہ وہ ایک پورے انسان میں تبدیل ہو گیا ۔ وہ انسان کہ جو موجودات زمین میں تمام سے برتر ہے جو سوچتاہے، غور و فکر کرتا ہے، ارادہ کرتا ہے اور سب چیزوں کو اپنا مطیع بنا لیتا ہے ۔
جی وہاں ۔ ظاہر ایک بے حیثیت مٹی کا ایسے عجیب و غریب موجود میں تبدیل ہونا جس کی مشینری جسم روح کے پیچیدہ آلات پر مشتمل ہے ۔ توحید کی ایک بہت بڑی دلیل ہے ۔
مفسّرین نے مذکورہ سوال کے جواب میں مختلف تفسیریں پیش کی ہیں، مثلاً:
۱۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس مغرور شخص نے صراحت کے ساتھ معاد او رقیامت کا انکار کیا ہے یا پھر اسے شک کی نظر سے دیکھا ہے جس کا لازمی نتیجہ انکار خدا ہے کیونکہ معاد جسمانی کے منکر درحقیقت قدرت خدا کے منکر ہیں ۔ انھیں اس بات پر یقین نہیں کہ منتشر ہو جانے کے بعد مٹی پھر سے لباس حیات پہن سکے گی ۔ لہٰذا اس با ایمان شخص نے خاک سے انسان کی پہلی خلقت، پھر نطفے سے اس کی تخلیق اور پھر دوسرے مراحل کے حوالے سے اسے پروردگار کی بے پایاں قدرت کی طرف متوجہ کیا تا کہ وہ جان لے کہ معاد کے کئی مناظر تو ہم ہمیشہ اپنی اسی زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں ۔
۲۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے شرک او رکفر کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ مالکیت خود اس کی اپنی طرف سے ہے ۔ یعنی وہ اپنے لیے مالکیت میں اس کا قائل تھا اور اپنی مالکیت کو جاودانی خیال کرتا تھا ۔
۳۔ تیسرا احتمال بھی بعید نظر نہیں آتا، وہ یہ کہ اس نے اپنی کچھ باتوں میں خدا کا انکار کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ساری باتیں بیان نہیں کیں ۔ اس کا اندازہ اس با ایمان شخص کی باتوں سے کیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی آیت میں وہ صاحبِ ایمان کہتا ہے کہ اگر تو اللہ کا انکار کرتا ہے اور راہِ شرک اختیار کرتا ہے تو میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا ۔
بہر حال مذکورہ تینوں احتمالات آپس میں غیر مربوط نہیں ہیں اور ہوسکتا ہے اس توحید پرست شخص کا اشارہ ان سب کی طرف ہو ۔
اِس کے بعد اس با ایمان شخص نے اس کے کفر اور غرور کو توڑنے کے لیے کہا: لیکن میرا تو ایمان ہے کہ اللہ میرا پروردگار ہے اور مجھے اس عقیدے پر فخر ہے (لَکِنَّا ھُوَ اللهُ رَبِّی) ۔(۱)
تو اس بات پر نازاں ہے کہ تیرے پاس باغات، کھیتیاں، پھل اور پانی فراوان ہیں لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے، میرا خالق و رازق وہ ہے، تجھے اپنی دنیا پر فخر ہے اور مجھے اپنے عقیدہٴ توحید و ایمان پر۔”اور میں کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیتا“(وَلَااٴُشْرِکُ بِرَبِّی اٴَحَدًا) ۔
توحید اور شرک کا مسئلہ انسان کی سر نوشت میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کے بارے میں گفتگو جاری ہے: ”جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو تونے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ نعمت اللہ کی منشا سے ہے“تو نے اسے اللہ کی جانب سے کیوں نہیں جانا اور اس کا شکر کیوں نہیں بجالایا

 (وَلَوْلَاإِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللهُ ) ۔(۲)
یا پھر یوں ہے:”ما شاء اللّٰہ کائن“، جو خدا چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔
تو نے کیوں نہیں کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی کچھ طاقت نہیں (لَاقُوَّةَ إِلاَّ بِاللهِ ) ۔
اگر تو نے زمین میں ہل چلایا ہے، بیج بویا ہے، درخت لگائے ہیں، قلمیں لگائی اور تجھے ہر موقع پر سب کچھ میسر آیا ہے یہاں تک کہ تو ا س مقام پہنچا ہے تو سب الله کی قدرت سے استفادہ کرنے کی وجہ سے ہے ۔ یہ تمام وسائل اور اصلاحتیں تجھے الله نے بخشی ہیں ۔ اپنی طرف سے تو کچھ بھی تیرے پاس نہیں ہے اور اس کے بغیر تو کچھ نہیں ہے ۔
اس کے بعد اس نے مزید کہا: یہ جو تجھے نظر آتا ہے کہ میں مال و اولاد کے لحاظ سے تجھ سے کم ہوں(تو یہ کوئی اہم بات نہیں ہے)

(إِنْ تُرَنِی اٴَنَا اٴَقَلَّ مِنْکَ مَالًا وَوَلَدًا) ۔
الله تیرے باغ کی نسبت مجھے بہتر عطا کرسکتا ہے(وَیُرْسِلَ عَلَیْھَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِیدًا زَلَقًا) ۔
یا زمین کوحکم دے کہ وہ ہِل جائے اور”یہ چشمے اور نہریں اس کی تہہ میں ایسی چلی جائیں کہ پھر تو انھیں پا نہ سکے

“(اٴَوْ یُصْبِحَ مَاؤُھَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیعَ لَہُ طَلَبًا) ۔
”حُسبان“ (بروزن ”لقمان“) در اصل”حساب“کے مادہ سے لیا گیا ہے ۔ بعد ازاں یہ لفظ ایسے تیروں کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہ جنھیں چلاتے ہوئے شمار کیا جاتا ہے ۔ نیز یہ ایسی سزا کے معنی میں بھی ہے کہ جو کسی حساب کتاب کے تحت ہو مندرجہ بالا آیت میں اس کا یہی مفہوم ہے ۔
”صعید“ اصل میں”صعود“ سے لیا گیا ہے، اس سے مراد زمین کے اوپر کی تہہ ہے ۔
”زلق“ چٹیل میدان کو کہتے ہیں، جس پر کوئی گھاس پھونس نہ ہو اور جس پر انسان کا پاوٴں پھسل پھسل جائے ۔
(یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ریت کو بہہ جانے سے روکنے کے لیے اور آبادیوں کو ریت کے طوفان میں دب جانے سے بچانے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ ایسے علاقوں میں نباتات اور درخت اگائے جائیں ۔ یعنی ایسے علاقوں میں”زلق“ اور پھسلنے کی کیفیت کو اس طرح سے کنٹروں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے) ۔
د رحقیقت ا س باایمان اور توحید پرست شخص نے اپنے مغرور ساتھی کو خبردار کیا وہ ان نعمتوں سے دل نہ بادھ لے کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی بھوسے کے قابل نہیں ہے ۔
در اصل وہ کہتا ہے کہ تو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا کم از کم سنا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آسمانی بجلی لمحہ بھر میں باغوں، گھروں اور کھیتیوں کو مٹی کے ٹیلوں یا بے آب و گیاہ زمین میں بدل کے رکھ دیتی ہے ۔نیز تو نے سنا ہے یا دیکھا ہے کبھی زمین پر ایسا زلزلہ آتا ہے کہ چشمے خشک ہو جاتے ہیں اور نہریں نیچے ہیں چلی جاتی ہیں اس طرح سے کہ وہ قابل اصلاح بھی نہیں رہتیں ۔
جب تو ان چیزوںکو جانتاہے تو پھر یہ غرور غفلت کس بنا پر؟ تو نے یہ منظرہ دیکھے ہیں تو پھر یہ دلبستگی آخر کیوں؟ تو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ نعمتیں کبھی فنا ہوںگی اور تو یہ سمجھنا ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گی ۔ یہ کیسی نادانی او رحماقت ہے؟

 

 


۱۔ لفظ ”لکنا“ در اصل ”لٰکن انا“تھا ۔ پھر یہ دونوں الفاظ آپس میں مدغم ہوگئے تو یہ صورت ہوگئی ۔
۲۔ ”ماشاء اللہ“ میں مخذوف ہے ۔ اس کی تقدیر یوں ہے:”ہٰذا ما شاء اللّٰہ“، یہ وہ چیز ہے کہ جو اللہ نے چاہی ہے ۔
سوره کهف / آیه 42 - 44 سوره کهف / آیه 37 - 41
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma