۱۔ داستانِ اصحابِ کہف احادیث کی روشنی میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۲۔”غار“ کہاں ہے؟اصحابِ کہف کی نیند

 

۱۔ داستانِ اصحابِ کہف احادیث کی روشنی میں:


اصحابِ کہف کے بارے میں منابعِ اسلامی میں بہت زیادہ روایات دکھائی دیتی ہیں ۔ ان میں سے بعض اسناد کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں ہیں ۔اسی لیے ان میں بعض میں باہم تضاد و اختلاف نظر آیا ہے ۔
ایک روایت جو علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں ذکر کی ہے وہ متن، مضمون اور آیاتِ قرآن سے ہم آہنگی کے اعتبار سے بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے اصحابِ کہف و رقیم کے بارے میں فرمایا:
وہ ایک جابر اور ظالم بادشاہ کے زمانے میں تھے ۔ وہ بادشاہ اپنے ملک کے باسیوں کو بت پرستی کی دعوت دیتا تھا ۔ جو شخص اس کی یہ دعوت قبول نہ کرتا اسے قتل کردیتا تھا ۔
اصحابِ کہف با ایمان افراد تھے اور خدائے بزرگ کی عبادت کرتے تھے (البتہ اس ظالم بادشاہ سے اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھے) ۔
اس ظالم بادشاہ نے اپنے پایہٴ تخت کے دروازے پر کچھ لوگ مامور کر رکھے تھے ۔ ان کے ذمہ تھا کہ شہر سے جانے والا ہر شخص وہاں پڑے ہوئے بتوں کو سجدہ کرنے پر مجبور تھا ۔
جیسے بھی ہوسکا یہ با ایمان افراد شکار کھیلنے کے بہانے شہر سے باہر آئے (ان کا پکا ارادہ تھا کہ اپنے اس شہر میں واپس نہ جائیں کہ جہاں کا ماحول بہت آلودہ تھا) ۔
راستے میں ان کی ملاقات ایک چروا ہے سے ہوگئی انھوں نے اسے خدائے واحد کی طرف دعوت دی ۔ اس نے قبول نہ کی لیکن تعجب کی بات ہے کہ چروا ہے کا کتا ان کے پیچھے ہو لیا اور پھر ان سے بالکل جدا نہ ہوا ۔ وہ بت پرستی سے بھاگ کر نکلے تھے ۔ دن ڈھل رہا تھا کہ ایک غار کے پاس پہنچے ۔ وہ اس میں کچھ دیر استراحت کے لیے ٹھہر گئے ۔ اللہ نے ان پر نیندد مسلط کردی جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: ہم نے انھیں سالہا سال نیند میں مستغرق رکھا ۔
وہ ایسے محوِ خواب رہے کہ وہ ظالم بادشاہ مرگیا ۔ شہر کے لوگ بھی یکے بعد دیگرے دنیا سے چل بسے ۔ دَور بدل گیا اور لوگ بھی بدل گئے ۔ اس طویل نیند کے بعد اصحاب کہف جاگے تو ایک دوسرے سے اپنی نیند کی مدت کے بارے میں پوچھنے لگے ۔ ان کی نظر سورج پر پڑی تووہ اونچا ہوچکا تھا تو کہنے لگے کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے ہیں ۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے میں سے ایک سے کہا: یہ چاندی کا سکّہ لے جاوٴ اور چپکے سے شہر چلے جاوٴ، وہاں سے ہمارے لیے کھانا لے آوٴ لیکن خیال رکھنا کوئی تمھیں پہنچان نہ لے کیونکہ انھیں ہمارے بارے پتہ چل گیا تو ہمیں قتل کردیں گے یا اپنے دین کی طرف لے جائیں گے ۔
وہ شخص شہر میں جاپہنچا لیکن شہر کا منظر تو اس کے خیال سے بالکل مختلف تھا اور لوگ بھی اس کے دیکھے بھالے نہ تھے ۔ و ہ ان کی زبان بھی اچھی طرح نہ سمجھتا تھا اور وہ بھی اس کی زبان پوری طرح نہ سمجھتے تھے ۔ وہ پوچھنے لگے: تو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟۔
آخر کار اس نے اپنا بھید بتادیا(اس زمانے میں اس شہر کا حکمران خدا پرست) بادشاہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس شخص کے ہمراہ غار کی طرف آیا ۔
یہ لوگ غار کے دہانے پر پہنچے تو اندر دیکھنے لگے ۔ بعض کہتے، کہ یہ تین افراد سے زیادہ نہیں ہیں اور ایک کتا ہے ۔ بعض کہتے کہ یہ پانچ افراد ہیں اور چھٹا ان کا کتا ہے اور بعض کہتے کہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔
اس وقت ان پر خدا کی طرف سے ایک رعب ساچھا گیا ۔ کوئی شخص غار میں داخل ہونے کی جرئت نہیں کرتا تھا سوائے اس شخص کے کہ جو انہی میں سے تھا ۔ جب وہ غار میں گیا تو اس نے دیکھا کہ وحشت زدہ ہیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ظالم بت پرست بادشاہ دقیانوس کے آدمی غار کے دروازے پر آپہنچے ہیں ۔ لیکن ان کے ساتھی نے انھیں ان کی طویل نیند سے آگاہ کیا اور ان سے کہا کہ خدا نے تمھیں لوگوں کے لیے ایک نشانی قرار دیا ہے ۔ یہ بات سنی تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ خوشی کے مارے ان کے آنسوں نکل آئے ۔ انھوں نے الله سے در خواست کی کہ ہمیں پہلی حالت کی طرف لوٹا دے ۔
اس زمانے کے بادشاہ نے کہا بہتر ہے ہم یہاں ایک مسجد بنائیں کیونکہ وہ باایمان افراد تھے ۔
امام علیہ السلام نے یہاں اضافہ فرمایا:
سال میں دو مرتبہ ان کے پہلو بدلتے تھے اور ان کے کتے نے غار کے دہانے پر اپنے گلے پاوٴں پھیلائے ہوئے تھے(اور ان کی حفاظت کررہا تھا) ۔
اصحاب کہف کے بارے میں ایک تفصیلی حدیث حضرت علی(ع) سے منقول ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے: پہلے وہ چھ افراد تھے ۔ دقیانوس نے انھیں اپنا وزیر بنا رکھا تھا ۔ وہ ہر سال ان کے لئے ایک دن عید کے طور پر مناتا تھا ۔
ایک برس جبکہ عید کا دن تھا ۔ اس کے بڑے بڑے فوجی افسراس کی دائیں طرف اور خاص مشیر بائیں بیٹھے تھے ۔
ایک فوجی کمانڈرنے اسے بتایا کہ ایران کا لشکر سر حدوں میں داخل ہوگیا ہے ۔ یہ سن کر اسے بہت دکھ ہوا ۔ وہ اتنا پریشان ہوا کہ کانپنے لگا اور تاج اس کے سر سے گر پڑا ۔
اس کے وزیروں میں سے ایک جس کانام تلمیخا تھا، اس نے دل میں سوچا کہ اس شخص کو گمان تھا کہ یہ خدا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ اس قدر غمزدہ کیوں ہوا ہے ۔ علاوہ ازیں اس میں تمام بشری صفات موجود ہیں ۔
اس کے چھ کے چھ وزیر روزانہ ایک وزیر کے گھر جمع ہواکرتے تھے ۔ اس روز تلمیخا کی باری تھی ۔ اس نے دوستوں کے لیے اچھا کھانا تیار کیا لیکن وہ پریشان دکھائی دیتا تھا ۔(کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا تھا اس کے دوست اس کی اس حالت کی طرف متوجہ ہوئے تو) اس نے کہا:میرے دل میں ایک بات ہے کہ جس کے باعث میرا کھانا پینا اور آرام جاتا رہا ہے ۔
انھوں نے واقعہ پوچھا تو اس نے کہا: اس بلند آسمان پر میں نے بہت غور کیا ہے کہ یہ بغیر کسی ستون کے قائم ہے ۔ جس نے اس میں سورج اور چاند کی صورت میں دو روشن نشانیاں رواں رواں کر رکھی ہیں اور اس کی سطح ستاروں سے سجارکھی ہے اس کے بارے میں میں نے بہت غور کیا ہے ۔ پھر میں نے اس زمین کی طرف دیکھا ہے اور اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ کس نے اسے پانی سے باہر نکالا اور پھیلا یا ہے اور کس نے اس کی بے قراری کو پہاڑوں کے ذریعے قرار بخشا ہے ۔ پھر میں نے اپنی حالت کے بارے میں سوچا ہے اور اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ کس نے مجھے رحم مادر سے باہر بھیجا ہے، کس نے مجھے پستان مادر سے خوشگوار دودھ بخشا ہے اور غذا دی ہے ۔ الغرض کس نے مجھے پروان چڑھایا ہے ۔ ان سارے مسائل کے بارے میں مَیں نے تو یہی سمجھا ہے کہ کوئی ہے جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے، یہ سب کچھ پیدا کیا ہے اور وہ ان کے نظام چلاتا ہے ۔ اور یہ دقیانوس نہیں کوئی اور ہے ۔ وہ کہ جو مالک المولک بھی ہے، آسمانوں پر حاکم بھی ،
اس نے یہ باتیں جب صراحت اور خلوص سے کیں ۔ جو کچھ اُس کے دل سے نکلا اُس کے دوستوں کے دل میں اتر گیا ۔ اچانک وہ سب اس کے پاوٴں پر گر پڑے اور اس کی قدم بوسی کرنے لگے ۔
انھوں نے کہا: الله نے تیرے ذریعے ہمیں گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف دعوت دی ہے ۔ اب بتاوٴ ہم کیا کریں؟
تلمیخا اٹھا ۔ اس نے اپنے باغ کی کھجوریں تین ہزار درہم میں بیچیں ۔ وہ رقم اٹھائی اور پھر وہ سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور شہر سے باہر کی طرف چل پڑے ۔ جب وہ تین میل کا راستہ طے کرچکے تو تلمیخا نے کہا: بھائیو!بادشاہی اور وزارت تو گئی ۔ اب خدا کی راہ کو ان قیمتی گھوڑوں کے ذریعے طے نہیں کیا جاسکتا ۔ ان سے اتر آوٴ تا کہ اب اس راستہ کو پیدل طے کریں شاید خدا ہماری مشکلیں آسان کردے ۔
انھوں نے گھوڑے چھوڑدیے اور پیدل چل پڑے ۔ اس روز انھوں نے تیزی سے سات فرسخ راستہ طے کرلیا مگر ان کے پاوٴں زخمی ہوگئے ۔ ان کے پاوٴں سے خون بہہ رہا تھا کہ ان کی ملاقات ایک چروا ہے سے ہوئی ۔ انھوں نے کہا: اے چرواہے! تمھارے پاس دودھ یا پانی کا گھونٹ ہے تو کچھ ہماری مہمانی کرو ۔
چرواہے نے کہا: جو تمھیں پسند ہو وہ حاضر ہے لیکن تمھارے چہرے مجھے بادشاہوں والے لگتے ہیں ۔ تم یہاں کس لیے آئے ہو میرا خیال ہے تم دقیانوس بادشاہ سے بھاگ کر آئے ہو ۔
انھوں نے کہا: اے چرواہے! حقیقت یہ ہے کہ ہم جھوٹ نہیں بول سکتے لیکن اگر ہم سچ کہیں تو کیا تو ہمارے لیے کوئی مصیبت کھڑی تو نہیں کردے گا؟
اس کے بعد انھوں نے چرواہے کو اپنی ساری کہانی سنائی ۔ چرواہا ان کے ہاتھ پاوٴں چومنے لگا ۔ اس نے کہا: بھائیو! جو کچھ تمھارے دل میں اتر گیا ہے وہ میرے دل میں بھی سما گیا ہے لیکن اتنی اجازت دو کہ یہ بھیڑ بکریاں میں ان کے مالکوں کے سپرد کر آو!ں اور تم سے آملوں ۔
وہ کچھ دیر رک گئے ۔ چرواہا بھیڑ بکریاں پہنچا آیا ۔ اس کا کتا اس کے ساتھ ہی تھا ان جوانوں نے کتے کو دیکھا تو بعض نے کہا: ڈر ہے کہ کہیں یہ بھونک کر ہمارا راز فاش نہ کردے ۔ لیکن انھوں نے جتنی بھی کوشش کی کہ اسے دور کریں وہ نہ مانا ۔ گویا وہ کہتا تھا: مجھے رہنے دو میں دشمنوں سے تمھاری حفاظت کروں گا(میں بھی تمارے راستہ کا مسافر ہوں) ۔
یہ ساتوں اپنی راہ پر چلتے رہے ۔ کتا ان کے پیچھے پیچھے تھا یہاں تک کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ ایک غار کے پاس پہنچ کر وہ رک گئے ۔ غار کے پاس انھوں نے چشمے اور پھلدار درخت دیکھے ۔ انھوں نے پھل کھائے، پانی پیا اور سیراب ہوئے ۔
رات کی تاریکی چھا گئی تو وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے ۔ کتے نے غار کے دہانے پر اپنے اگلے پاوٴں پھلادئیے اورپہرہ دینے لگا ۔ یہ حالت تھی کہ خدا نے موت کے فرشتہ کو قبضِ الرواح کا حکم دیا(اور ان پر موت کی سی گہری نیند مسلط ہوگئی) ۔(1)
دقیانوس کے بارے میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شہنشاہ روم تھا اس نے ۲۴۹ سے ۲۵۱ عیسوی تک حکومت کی ۔ وہ عیسائیوں کا سخت دشمن تھا اور انھیں بہت اذیت پہنچاتا تھا ۔ یہ حکومتِ روم کے عیسوی دین قبول کرنے سے پہلے کا زمانہ تھا ۔

 


1۔ سفینة البحار، ج۲، ص۳۸۲ (مادہٴ فکر)
۲۔”غار“ کہاں ہے؟اصحابِ کہف کی نیند
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma