اصحاب کہف کے واقعے کا اختتام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۱۔”رجماً بالغیب“کا مفہومسوره کهف / آیه 21 - 24

اصحاب کہف کے واقعے کا اختتام

جلد ہی لوگوں میں ان عظیم جوانمردوں کی ہجرت کی داستان پھیل گئی ۔ ظالم بادشاہ سیخ پا ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی ہجرت یا بھاگ نکلنا لوگوں کی بیداری اور آگاہی کا سبب بن جائے ۔ اُسے یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں وہ دُور یا نزدیک کے علاقے میں جاکر لوگوں کو دینِ توحید کی تبلیغ کرنے لگیں اور شرک و بت پرستی کے خلاف جد جہد شروع کردیں ۔ لہٰذا اس نے خاص افراد کو مامور کیا کہ انھیں ہرجگہ تلاش کیا جائے اور ان کا کچھ اتہ پتہ معلوم ہو تو گرفتاری کے لیے تعاقب کیا جائے اور انھیں سزادی جائے ۔
لیکن انھوں نے جتنی بھی کوشش کی کچھ نہ پایا اور یہ امر خود علاقے کے لوگوں کے لیے معمہ اور ان کے قلب و فکر کے لیے ایک خاص نقطہ بن گیا ۔ نیز یہ امر کہ حکومت کے نہایت اہم چند اراکین نے ہر چیز کو ٹھوکر مار دی اور طرح طرح کے خطرات مول لے لیے شاید بعض لوگوں کی بیداری اور آگاہی کا سرچشمہ بن گیا ۔
بہر حال ان افراد کی یہ حیران کن داستان ان کی تاریخ میں ثبت ہوگئی اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہونے لگی اور اسی طرح اس مسئلے کو صدیاں گزر گئیں ۔
آئے اب دیکھتے ہیں کہ اُس پر کیا گزری جو غذا لینے کے لیے آیا ۔ وہ شہر میں داخل ہوا تو اس کا منہ تعجب سے کھلے کا کھلارہ گیا ۔ شہر کی عمارتوں کی شکل و صورت تمام تبدیل ہوچکی تھی، سب چہرے ناشناس تھے، لباس نئے انداز کے تھے یہاں تک کہ لوگوں کی بول چال اور رسم و رواج بھی بدل چکے تھے ۔ کل کے دیرانوں پر آج محل تھے اور جہاں پہلے تھے وہاں ویرانے ہی ویرانے تھے ۔
شاید تھوڑی دیر کے لیے اس نے سوچا ہوکہ ابھی میں نیند میں ہوں اور یہ جو کچھ دیکھ رہا ہوں سب خواب ہے ۔ اس نے اپنی آنکھوں کو ملا ۔ وہ سب چیزوں کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔ اس نے سوچا کہ یہ کیسی حقیقت ہے کہ جس پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔
اب وہ سوچنے لگا کہ وہ غار میں ایک یا آدھا دن سوئے ہیں تو پھر یہ اتنی تبدیلیاں اتنی مدت میں کیسے ممکن ہیں؟
دوسری طرف اس کا چہرہ مہرہ اور حالت لوگوں کے لیے بھی عجیب اور غیر مانوس تھی ۔ اس کا لباس، اس کی گفتگو اور اس کا چہرہ سب نیا معلوم ہوتا تھا شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے پیچھے چل پڑے ۔
اُس وقت لوگوں کا تعجب انتہا کو پہنچ گیا جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تا کہ اس کھانے کی قیمت ادا کرے جو اس نے خریدا تھا ۔ دکاندار کی نگاہ سکے پر پڑی وہ تین سوسال سے زیادہ پرانے دَور کا تھا اور شایداس زمانے کے ظالم بادشاہ دقیانوس کا نام بھی اس پراکنندہ تھا ۔ جب اس نے وضاحت چاہی تو خریدار نے جواب میں کہا: میرے ہاتھ میں تو یہ سکّہ ابھی ہی آیا ہے ۔
قرائن اور احوال سے لوگوں کو آہستہ یقین ہوگیا کہ یہ شخص تو انہی افراد میں سے ہے جن کا ذکر ہم نے تین سوسال پہلے کی تاریخ میں پڑھا ہے اور بہت سی محفلوں میں ہم نے جن کی پُر اسرار داستان سنی ہے ۔
خود اسے بھی احساس ہوا کہ وہ اور اس کے ساتھی کسی گہری اور طولانی نیند میں مستغرق رہے ہیں ۔ اس بات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں آن کی آن میں پھیل گئی ۔
موٴرخین لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں ایک نیک اور خدا پرست بادشاہ حکومت کرتا تھا لیکن معاد جسمانی اور موت کے بعد مردوں کے جی اٹھنے کے مسئلہ پر یقین کرنا وہاں کے لوگوں کے لیے مشکل تھا ۔ان میں سے ایک گروہ کو اس بات پر یقین نہیں آتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد پھر جی اٹھے گا لیکن اصحابِ کہف کی نیند کا واقعہ معاد جسمانی کے طرفداروں کے لیے ایک دندان شکن دلیل بن گیا ۔
اسی لیے زیر نظر پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے: جیسے ہم نے انھیں سلادیا تھا اسی طرح انھیں اس گہری اور طویل نیند سے بیدار کیا اور لوگوں کو ان کے حال کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ جان لیں کہ قیامت کے بارے میں خدا کا وعدہ حق ہے (وَکَذٰلِکَ اٴَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوا اٴَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ) ۔
اور دنیا کے خاتمے اور قیام قیامت میں کوئی شک نہیں ( وَاٴَنَّ السَّاعَةَ لَارَیْبَ فِیھَا) ۔
کیونکہ صدیوں پر محیط یہ لمبی نیند موت سے غیر مشابہ نہیں ہے اور ان کا بیدار ہونا قبروں سے اٹھنے کی مانند ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سونا اور جاگنا کئی حوالوں سے مرنے اور پھر جی اٹھنے سے عجیب تر ہے کیونکہ وہ صدیوں سوئے رہے لیکن ان کا بدن بوسیدہ نہ ہوا جبکہ انھوں نے کچھ کھایا نہ پیا ۔ تو پھر وہ اتنی لمبی مدت زندہ کس طرح رہے ۔
کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہر چیز اور ہر کام پر قادر ہے ۔ ایسے منظر کی طرف نظر کی جائے تو موت کے بعد زندگی کا مسئلہ کوئی عجیب معلوم نہیں ہوتا بلکہ یقینی طور پر ممکن دکھائی دیتا ہے ۔
بعض موٴرخین نے لکھا ہے کہ جو شخص غذا لینے شہر میں آیا تھا اس نے یہ صورت دیکھی تو جلدی سے غار کی طرف پلٹا اور اپنے دوستوں کو سارا حال سنایا، وہ سب کے سب گہرے تعجب میں ڈوب گئے ۔ اب انھیں احساس ہوا کہ ان کے تمام بچے، بھائی اور دوست کوئی بھی باقی نہیں رہا اور ان کے احباب و انصار میں سے کوئی نہیں رہا ۔ ایسے میں ان کو یہ زندگی بہت سخت اور ناگوار لگی ۔ لہٰذا انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ اس جہان سے ہماری آنکھیں بند ہوجائیں اور ہم جوارِ رحمتِ حق میں منتقل ہوجائیں ۔
ایسا ہی ہوا ۔ اس دنیا سے انھوں نے آنکھیں بند کرلیں ۔ ان کے جسم غار میں پڑے تھے کہ لوگ ان کی تلاش کو نکلے ۔
اس مقام پر معادِ جسمانی کے طرفداروں اور مخالفوں کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی ۔ مخالفین کی کوشش تھی کہ لوگ اصحابِ کہف کے سونے اور جاگنے کے مسئلہ کو جلد بھول جائیں لہٰذا انھوں نے تجویز پیش کی کہ غار کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں ( إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْنَھُمْ اٴَمْرَھُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْھِمْ بُنْیَانًا) ۔
وہ لوگوں کو خاموش ہونے کے لیے کہتے تھے کہ ان کے بارے میں زیادہ باتیں نہ کرو، ان کی داستان اسرار آمیز ہے ”ان کا پروردگار ان کی کیفیت سے زیادہ آگاہ ہے“( رَبُّھُمْ اٴَعْلَمُ بِھِمْ) ۔لہٰذا ان کا قصہ ان تک رہنے دو اور انھیں ان کے حال پر چھوڑدو ۔
جبکہ حقیقی مومن کہ جنھیں اس واقعے کی خبر ہوئی اور جو اسے قیامت کے حقیقی مفہوم کے اثبات کے لئے ایک زندہ دلیل سمجھتے تھے، ان کی کوشش تھی کہ یہ واقعہ ہرگز فراموش نہ ہونے پائے ۔ لہٰذا ”انھوں نے کہا: ہم ان کے مدفن کے پاس مسجد بناتے ہیں ۔“تاکہ لوگ انھیں اپنے دلوں سے ہرگز فراموش نہ کریں علاوہ ازیں ان کی ارواح پاک سے لوگ استمداد کریں ( قَالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلیٰ اٴَمْرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْھِمْ مَسْجِدًا) ۔
اس آیت کی تفسیر میں کئی اور احتمال بھی پیش کیے گئے ہیں ۔ ”چند اہم نکات“کے زیرِ عنوان ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے ۔
اگلی آیت میں ان چند اختلافات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو اصحابِ کہف کے بارے میں لوگوں میں پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک ان کی تعداد کے بارے میں ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا (سَیَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ) ۔
”بعض کہتے ہیں وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا “(وَیَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُم) ۔
یہ سب بلا دلیل باتیں ہیں اور اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہیں ( رَجْمًا بِالْغَیْبِ) ۔
”اور بعض کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا“( وَیَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُھُمْ کَلْبُھُمْ) ۔
”کہہ دے: میرا رب ان کی تعداد و بہتر جانتا ہے“( قُلْ رَبِّی اٴَعْلَمُ بِعِدَّتِھِمْ) ۔
”صرف تھوڑے سے لوگ ان کی تعداد جانتے ہیں“( مَا یَعْلَمُھُمْ إِلاَّ قَلِیلٌ) ۔
قرآن نے ان جملوں میں اگر چہ صراحت سے ان کی تعداد بیان نہیں کی لیکن آیت میں موجود بعض اشاروں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ تیسرا قول صحیح اور مطابقِ حقیقت ہے کیونکہ پہلے اور دوسرے قول کے بعد ”رَجْمًا بِالْغَیْبِ“(اندھیرے میں تیر مارنا)آیا ہے کہ جو ان اقوال کے بے بنیاد ہونے کی طرف اشارہ ہے لیکن تیسرے قول کے بارے میں نہ صرف ایسی کوئی تعبیر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے: ”کہہ دے:میرا رب ان ان کی تعداد سے بہتر طور پر آگاہ ہے“ اور یہ بھی فرمایا گیا ہے”ان کی تعداد کو تھوڑے سے لوگ جانتے ہیں“۔یہ جملے بھی اس تیسرے قول کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں ۔
بہر حال آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: استدلالی اور منطقی گفتگو کے علاوہ ان کے بارے میں بحث نہ کر ( فَلَاتُمَارِ فِیھِمْ إِلاَّ مِرَاءً ظَاھِرًا) ۔جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ” مِرَاء“”مریة الناقة“(میں نے دودھ دوہنے کے لیے اونٹنی کا پستان ہاتھ میں پکڑا)سے لیا گیا ہے بعد ازاں کسی ایسی چیز کے بارے میں بحث کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہ جس میں شک ہو اور اکثر یہ لفظ باطل کی حمایت میں ہٹ دھرمی کی گفتگو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ لفظ اس مفہوم کے لیے محدود نہیں ہے لیکن کسی بھی ایسی بات کے بارے میں بحث کے مفہوم میں آتا ہے کہ جس کے بارے میں شک ہو ۔
ظَاھِرًا“غالب ، مسلط اور کامیاب کے معنی میں ہے ۔
لہٰذا ” فَلَاتُمَارِ فِیھِمْ إِلاَّ مِرَاءً ظَاھِرًا“کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح سے منتقی اور استدلالی گفتگو کرکہ تیری منطق کی برتری واضح ہو ۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ہٹ دھرم مخالفین سے علحٰید گی میں بحث نہ کر کیونکہ اس طرح تو ان سے جو کچھ کہے گا وہ اس میں ردّ و بدل کریں گں لہٰذا ان سے کھلم کھلا لوگوں کی موجود گی میں بات چیت کرتا کہ وہ حقیقت میں تحریف و انکار نہ کرسکیں ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
بہر حال اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ وحی خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ”تو ان کے ساتھ بات کر کیونکہ اس سلسلے میں محکم ترین دلیل یہی ہے لہٰذا جو لوگ بغیر دلیل کے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں بات کرتے ہیں ان سے اس بارے میں سوال نہ کر “( وَلَاتَسْتَفْتِ فِیھِمْ مِنْھُمْ اٴَحَدًا) ۔
اگلی آیت میں رسول اللہ کو ایک عمومی حکم دیا گیا ہے:کبھی نہ کہو میں کل یہ کام کروں گا (وَلَاتَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا) ۔”مگر یہ کہ خدا چاہے

“(إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ) ۔
یعنی آئندہ کی خبروں اور کاموں کے ارادے میں”انشاء الله“ حتمی طور پر کہاکرو کیونکہ :
اوّلاً:ارادہ کرنے میں ہرگز تم مستقل نہیں کیونکہ خدا نہ چاہے تو کوئی شخص بھی کسی کام کی طاقت نہیں رکھتا لہٰذا یہ واضح کیا کرو کہ تمھاری قوت اس کی لایزال قوت سے ہے اور تمھاری طاقت سے وابستہ ہے اس لیے لازمی طور پر” انشاء الله“ (اگر خدا نے چاہا تو)کہا کرو ۔
ثانیاً:ایسا انسان کہ جس کی طاقت محدود ہو اور ر اہ میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا احتمال بھی ہو اس کے لئے صحیح نہیں ہے کہ وہ آئندہ کی کوئی یقینی اور قطعی خبردے جبکہ بعض اوقات اچانک غیر متوفق رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ لہٰذا ایسی باتوں کے ساتھ” انشاء الله“ کہنا چاہئیے ۔
زیر بحث آیت کی تفسیر میں بعض مفسریں ایک اور احتمال ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ یہاں مراد یہ ہے کہ اس بات کی نفی کی جائے کہ انسان کو کاموں کی انجام دہی میں استقلال حاصل ہے لہٰذا اس آیت کا مفہوم یہ ہے :
تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کل یہ کام کروں گا ۔ مگر یہ کہ خدا چاہے ۔
البتہ اس تفسیر کا لازمہ یہ ہے کہ اگر ہم ”انشاء الله“ کا اضافہ کردیںتو گفتگو مکمل ہوجائے گی لیکن یہ جملے کا لازمہ ہے نہ کہ متن او ر اصل جملے کا مفہوم ہے، جیسا کہ پہلی تفسیر میں کہا گیا ہے(۱)
زیر بحث آیات کے بارے میں ہم نے جو شانِ نزول نقل کی ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتی ہے کیونکہ رسول الله نے ”انشاء الله“ کہے بغیر اصحاب کہف سے متعلق سوال کرنے والوں کو جواب دیا تھا ۔ اسی لیے ایک عرصے تک وحی الٰہی میں تاخیر ہوگئی تا کہ اس بارے میں آپ کو متوجہ کیا جائے اور آپ اس سلسلے میں سب کے لیے نمونہ بن جائیں ۔
اس جملے کے بعد قرآن کہتا ہے: اگر تو بھول جائے تو پھر اپنے رب کو یاد کر(وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیت) ۔
یہ جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ آئندہ کے امور کے بارے میں بات کرتے ہوئے”انشاء الله“کہنا بھول جائے تو جس وقت یاد آئے فوراً تلافی کرو اور ”انشاء الله“ کہو ۔ یہ کہنے سے گزشتہ کی تلافی ہوجائے گی ۔ اور کہہ:مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے زیادہ واضح راستے کی ہدایت کرے گا

(وَقُلْ عَسیٰ اٴَنْ یَھْدِیَنِی رَبِّی لِاٴَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا)

 


۱۔ توجہ رہے کہ پہلی تفسیر کی بنا پر ”ان تقول“مقدر ماننا پڑے گا ۔ تقدیر یوں ہوگی:”الا ان تقول انشاء اللّٰہ“؛ لیکن دوسری تفسیر میں تقدیر کی ضرورت نہیں ہے ۔
۱۔”رجماً بالغیب“کا مفہومسوره کهف / آیه 21 - 24
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma