حقیقی ہدایت یافتہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 98 - 100 سوره اسراء / آیه 96 - 97

حقیقی ہدایت یافتہ


قبل ازیں آیات توحید و نبوّت اور مخالفین سے گفتگو کے بارے میں تھیں ۔ زیر بحث آیات میں ان گزشتہ کباحث کا ایک طرح سے اختتام ہورہا ہے اور نتیجہ بحث پیش کیا جارہا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: اگر وہ توحید و نبوت اور معاد و قیامت کے بارے میں تیرے واضح دلائل قبول نہیں کرتے تو انہیں بتا دو اور ”کہو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے اور ان کے کام کو دیکھتا ہے ( قُلْ کَفیٰ بِاللهِ شَھِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ إِنَّہُ کَانَ بِعِبَادِہِ خَبِیرًا بَصِیرًا)۔(۱)
یہ بات کہتے ہوئے در اصل دو مقصد پیشِ نظر تھے ۔پہلا یہ کہ متعصب اور ہٹ دھرم مخالفین کی تہدید کی جائے کہ خدا اگاہ اور بینا ہے اور ہمارے تمہارے اعمال پر گواہ ہے ۔یہ خیال نہ کرو کہ تم اس کہ احاطہٴ قدرت سے بہار نکل جاوٴ گے یا تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز اس پر مخفی رہ جائے گی ۔
دوسرا یہ کہ یہ بات کہہ کہ رسول اللہ خدا کہ بارے میں اپنے ایمان قاطع کا اظہار کردیں کیونکہ کہنے والے کہ اپنی بات میں قاطعیت سننے والے پر گہر انفساتی اثر مرتب کر تی ہے ۔ہو سکتا تھا کہ یہ حکم اور قاطع تعبیر کہ جس میں ایک قسم کی تہدید ہوتی ہے ان پر اثر انداز ہوتی ،ان کہ دل اور فکر کو بیدار کرتی اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف دعوت دیتی ۔
اس کہ بعد مزید ارشاد ہوتا ہے :وہی شخص ہدایت پاتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ نور ہدایت ڈال دے (وَمَنْ یَھْدِ اللهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ) لیکن جنہیں وہ (ان کہ اعمال کے باعث )گمراہ کر دی توان کے لیے تو خدا کے اعلاوہ کوئی سر پرست وراہنما نہیں پائے گا (وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِہِ)۔

لوٹ آنے کا ایک ہی راستاہے اور وہ یہ کہ وہ خدا کی طر ف رجوع کریں اور اس سے نور ہدایت طلب کریں اور اس سے نور ہدایت طلب کریں ۔
یہ دو جملے در حقیقت اس طرف اشارہ ہیں کہ قوی اور زبردست دلائل ہی ایمان لانے کے لیے کافی نہیں ہیں بلکہ جب تک کسی میں توفیق الہٰی شامل حال نہ ہو اور ہدایت کے لیے اہلیت پیدانہ ہو محال ہے کہ وہ ایمان لائے ۔
اس کی مثال میں یوں ہے ہم چند لوگوں کہ ایک اہم کار ِخیر انجام دینے ہیں اور اس کی اہمیت کے لیے بہت دلائل دیتے ہیں لیکن ان میں سے بعض قبول کر دیتے ہیں اور بعض مخالفت کرتے ہیں تو ہم کہتے میں کہ سب لوگ اس کام گہ اہلیت نہیں رکتے ۔
نطفہٴ پاک بباید کہ شود قابل فیض ورنہ ہر سنگ گلی لوٴلوٴ ومرجان نشود
پاک مٹی ہی فیض دی سکتی ہے ورنہ ،ورنہ پتھر اور مٹی ہوتی اور مونگے نہیں ہوتے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر دل نور حق کی لیاقت نہیں رکتا اور ہر دل میں اس کا عاشق پیدا نہیں ہو تا ۔علاوہ از یں تحریک کرنے والے کے انداز ِبیا ن کا اثر سننے والے پر ہو تا ہے اور بسا ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے ہٹ دھری چھوڑ کر حق کے سامے سر تسلیم کر لینا ہے ۔
بہ بات بھی ہم نے بارہا کہی ہے کہ خدا کی طرف سے کبھی بھی جبری ہدایت یا گمراہی نہیں ہوتی بلکہ یہ خود انسان کے اعمال کا براہ راست اثر ہوتی ہے ۔
وہ لوگ کہ جو اس کی راہ میں جہاد ک لیے اٹھ کھڑے ہوں اور حصول حق کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کریں یقیناً اس بات کے لائق ہیں کہ ہدایت ان کے شامل حال ہو ۔ لہٰذا قرآن فرماتا ہے:
<وَ الَّذِینَ جَاھَد و افِینَا لَنَھدِ یَنَّھُم سُبُلَنَا
جو لوگ ہماری خاطرجہاد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی راہنمائی کرتے ہیں ۔(عنکبوت۔۶۹)
لیکن وہ لوگ کہ جو عناد، ہٹ دھری، گناہ، ظلم اور فساد کی راہ اپنائے ہوئے ہیں انہوں نے اپنی اہلیت کو خود ذبح کردیا ہے اور وہ سلبِ توفیق اور گمراہی کے مستحق ہوتے ہیں ۔ مسلّم ہے کہ ایسے افراد کو وہ گمراہی ہیں سرگرداں کرے گا ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
<وَیُضِلُّ اللهُ الظَّالِمِینَ
الله ظالموں کو گمراہ کرتا ہے ۔(ابراہیم۔۲۷)
یہ بھی ارشاد ہے:
<وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ
وہ تو صرف فاسقوں کو بھٹکاتا ہے ۔(بقرہ۔۲۶)
یہ بھی فرمایا گیا ہے:
<کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللهُ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ
جو حد سے گزرجانے والا شاکی ہو خدا اسے یونہی گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ۔ (مومن۔۳۴)
رہا یہ مسئلہ کہ ”اولیاء“جمع کی صورت میں کیوں ذکر ہوا ہے، تو ہوسکتا ہے یہ فرضی خداؤں کے تعدد کی طرف اشارہ ہویا ان وسائل و اسباب کے تنوع کی طرف کہ جن کی وہ پناہ لیتے تھے ۔ یعنی ان وسائل و اسباب سے انسانوں اور غیر انسانوں میں سے اور خیالی و فرضی خداؤں میں سے کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچ سکتا، ان میں سے کوئی انہیں گمراہی اور بدبختی سے نجات نہیں دے سکتا ۔
اس کے بعد ایک قاطع اور شدید تہدید کے انداز میں قیامت کے ایک منظر کی نشاندہی کی گئی ہے وہ منظر کہ جو ان کے اعمال کا قطعی نتیجہ ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: روز قیامت ہم اہیں اوندھے منہ محشور کریں گے ( وَنَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلیٰ وَجُوہِھِمْ )۔اس روز وہ سیدھے نہیں چل رہے ہوں گے بلکہ عذاب کے فرشتے انہیں اوندھے منہ زمین پر کھینچیں گے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ان گنہگاروں میں چونکہ وہاں چلنے کی طاقت نہیں ہوگی لہٰذا بے دست و پا جانوروں کی مانند اوندھے منہ گھسٹتے ہوئے جائیں گے اور انتہائی دردناک اور ذلت آمیز حالت میں آگے بڑھیں گے ۔
جی ہاں! وہ پاؤں سے چلنے کی سی عظیم نعمتوں سے محروم ہوں گے کیونکہ اس دنیا میں انہوں نے ان چیزوں سے راہ سعادت کے لیے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ راہِ گناہ میں انہیں استعمال کیا ۔ نیز اللہ کی عظیم عدالت میں اس حالت میں پیش ہوں گے وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے (عُمْیًا وَبُکْمًا وَصُمًّا
اس مقام پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجر مین اور اہلِ جہنم دیکھیں گے، سنیں گے اور باتیں کریں گے(۱) تو پھر زیر نظر آیت کیونکر کہتی ہے کہ وہ اندھے ، گونگے اور بہرے ہوں گے ۔ اس سوال کے جواب میں مفسرین نے متعدد تفاسیر کی ہیں ۔ ان میں سے ذیل کی دو تفاسیر بہتر ہیں:
۱۔ قیامت کے مختلف مراحل ہیں ۔ ان میں سے بعض مراحل میں اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے اور یہ بجائے خود ان کے لیے ایک قسم کی سزا اور عذاب ہے (کیونکہ انہوں نے دنیا میں اللہ کی ان عظیم نعمتوں سے صحیح استفادہ نہیں کیا)۔ لیکن بعض دیگر مراحل میں ان کی آنکھ دیکھتی ہوگی، ان کے کان سنتے ہوں گے اور زبان باتیں کرتی ہوگی تاکہ وہ عذاب کے مناظر دیکھیں، ملامت کرنے والوں کی آواز سنیں اور پھر اپنی بے بسی پر واویلا کریں اور یہ بھی بجائے خود ایک عذاب و سزا ہے ۔
۲۔ مجرمین ایسی چیز نہ دیکھ سکیں گے جس سے انہیں سرور و راحت ملے، ایسی آواز نہیں سن سکیں گے کہ جو ان کے لیے باعثِ نشاط و سکون ہو اور اور ایسی آواز نہیں سن سکیں گے کہ جو ان کے لیے باعث رنج ہو ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ان کا دائمی ٹھکانا جہنم ہے ( مَاٴْوَاھُمْ جَھَنَّمُ )۔لیکن یہ گمان نہ کرنا کہ آتش جہنم دنیا کی آگ کی طرح آخر کار بھیج جائے گی۔ نہیں بلکہ ”جب اس کی تپش کم ہوگی تو پھر سے اسے بھڑکا دیا جائے گا اور اس کی تپش میں اضافہ کردیا جائے گا“(کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیرًا
سورہ کہف کی آیہ ۵۳ میں ہے:
<وَرَاٴَی الْمُجْرِمُونَ النَّار
مجرمین آتش جہنم کو دیکھیں گے ۔
سورہٴ فرقان کی آیہ ۱۳ میں ہے:
<دَعَوْا ھُنَالِکَ ثُبُورًا
دوزخی ہلاکت کے مارے چیخیں گے ۔
نیز سورہٴ فرقان ہی کی آیہ ۱۲ میں ہے:
<سَمِعُوا لَھَا تَغَیُّظًا وَزَفِیرًا
مجرمین اس آگ کی آواز سنیں گے کہ جو بہت وحشت ناک ہوگی۔
 



 ۱۔ ترکیبی لحاظ سے ”کفیٰ بالله“ میں ”باء“ زائدہ ہے اور ”الله“ ”کفیٰ“ کا فاعل ہے اور ”شھیداً“ تمیز ہے جبکہ بعض کے بقول حال ہے ۔
سوره اسراء / آیه 98 - 100 سوره اسراء / آیه 96 - 97
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma