۳۔ معجزے کے منکرین کی ایک اور دستاویز۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 94 - 95 ۲۔ کوتاہ فکری اور نامعقول تقاضے

۳۔معجزے کے منکرین کی ایک اور دستاویز۔


زیرِ بحث آیات کا کا مفہوم کوئی پیچیدہ نہیںہے اور یہ واضح ہے کہ مشرکین ِ مکہ رسول اللہ سے کیوں اور کس طرح کے تقاضے کرتے تھے اور یہ بھی واضح ہے کہ رسولِ اکرم نے انہیں منفی جواب کیوں دیا مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ہمعصر عذر ترش افراد کا اصرار ہے کہ یہ آیات پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم سے ہر قسم کے معجزہ کی نفی کرتی ہیں، وہ ان آیات کو پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم سے معجزے کی نفی کرنے والی بہت واضح آیات شمار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان آیات کے مطابق مخالفین نے آپ سے چھ قسم کے معجزوں کا مطالبہ کیا، ان میں زمین وآسمان سے کچھ فوائد کے حصول سے متعلق معجزوں کا تقاضا بھی ہے اور مرگ آمرین معجزات بھی، لیکن آپ نے ان میں سے کوئی تجویز بھی قبول نہ کی اور صرف یہی جواب دیا:میرا خدا پاک ہے، مَیں تو خدا کے فرستادہ ایک بشر کے علاوہ کچھ نہیں ہوں ۔
ہمارے زمانے کے بہانہ ساز عہدِ پیغمبر کے اپنے بہانہ ساز دوستوں کی طرح نہ ہوں تو انہیں ان کا جواب خود انہیں آیات میں مل جائے گا،کیونکہ:
۱۔ان چھ تقاضوں میں سے بعض اصولی طور پر مضحکہ خیز اور نامعقول تھے، مثلا خدا اور فرشتوں کو حاضر کرنا یا ٓاسمان پر سے ان نام پر خصوصی نامہ لے کر آنا ۔
بعض دوسرے تقاضے بے سوچے سمجھے تھے، ایسے کہ اگر ان پر عمل کیا جاتا تو خود تقاضا کرنے والوں کا نام ونشان ہی باقی نہ رہتا، تو وہ ایمان کہاں لاتے، مثلاً ان پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسانا ۔
ان کے باقی تقاضے تو دنیاوی عیش وعشرت تو اور مال ودوت سے متعلق تھے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ انبیاء ان کاموں کے لئے نہیںآتے ۔
بالفرض اگر ان تقاضوں میں یہ اشکالات نہ بھی ہوتے تو وہ تو بہانہ سازی ہی کررہے تھے جیسا کہ ان آیات میں موجود قرینوں سے ظاہر ہورہا ہے اورہم جانتے ہیں کہ نبی کا فریضہ یہ نہیں کہے کہ وہ بہانہ تراش لوگوں کے تقاضوں کے سامنے سر جھکا دے بلکہ ان کی ذمہ داری معجزہ دکھانا ہے صرف اس قدر کہ ان کی دعوت ثابت ہوجائے، اس سے زیادہ ان کے ذمہ نہیں ۔
۲۔ انہیں آیات کی کچھ تعبیرات صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ یہ تقاضے کرنے والے کس قدر بہانہ سازاور ہٹ دھرم تھے، جب انہوں نے رسول اللہ سے آسمان پر چڑھ کے دکھانے کا تقاضا کی تو ساتھ ہی کھل کر کہا کہ اگر تم آسمان پر چڑھ بھی جاؤ توبھی ہم ایمان نہیں لائیںجب تک کہ آسمان سے ہمارے نام کوئی خط نہ لے کر آؤ۔
اگر واقعاً انہیں معجزے کی طلب تھی تو کیوں کہتے تھے کہ تمہارا آسمان پر چڑھنا بھی ہمارے لئے کافی نہیں ان کے غیر منطقی ہونے پر کیا اس سے زیادہ واضح کوئی قرینہ ہوسکتا ہے؟۔
۳۔ان سب چیزوں سے قطعِ نظر ہم جانتے ہیں کہ معجزہ فعل ِ خدا ہے نہ کہ فعلِ نبی جب کہ ان بہانہ تراشوں کا لب ولہجہ واضح کر رہا ہے کہ وہ معجزے کو فعلِ پیغمبر سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ تمام افعال کی نسبت پیغمبر کی طرف دیتے تھے:
تم اسے چیر کر دکھاؤ۔
تم اس میں نہریں جاری کرو ۔
تم آسمان کے پتھر ہمارے سروں پر برساؤ۔
تم خدا اور فرشتوں کو ہمارے پاس لے آؤ۔
حالانکہ کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ذہن میں یہ کیال نہ ہو اور وہ اس پر ثابت کرے کہ ”میں نہ خدا ہوں اور نہ اس کا شریک ، معجزہ صرف اسی کا کام ہے، مَیں تو دیگر انسانوں کو کی طرح بشر ہوںفرق یہ ہے کہ مجھ پر وہی نازل ہوتی ہے اورجس قدر معجزے کی ضرورت ہے وہ خدا مجھے عطا کر چکا ہے ۔اس سے بڑھ کر مَیں کچھ نہیں کرسکتا “۔
خصوصاً”سبحان ربی“ کا جملہ اسی معنی کا شاہد ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامِ پروردگار ہر قسم کے شریک اور شبیہ سے پاک ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اگرچہ متعدد معجزات کی حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی طرف نسبت دی گئی ہے، مثلاً مردوں کو زندہ کرنا،، ناقابلِ علاج بیماروں کو شفا دینا یا مادرزاد اندھوںکو بینا کرنا وغیرہ لیکن اس کے باوجود تمام مواقع پر ”باذنی“ یا ”باذن اللہ“ آیاہے جو واضح کرتاہے کہ یہ کام صرف حکمِ خدا سے ہوئے ہیں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ معجزات اگرچہ حضرتِ عیسیٰ (علیه السلام) کے دستِ مبارک پر ظاہر ہوئے لیکن یہ خود حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کی طرف سے نہیں تھے بلکہ سارے کے سارے حکم خدا سے ظہور میں آئے تھے ۔(1)
۴۔ کونسی عقل باور کرتی ہے کہ ایک انسان نبوت کا دعویٰ کرے، یہاں تک کہ اپنے آپ کو خاتم الانبیاء وخاتم المرسلین سمجھے اور اپنی کتابِ آسمانی میں گزشتہ انبیاء کے معجزات کازکر کرے لیکن خود کسی قسم کا معجزہ پیش کرنے سے قاصر ہو؟ کیا لوگ اس سے کہیں گے نہیں کہ تم کس قسم کے نبی ہو کہ کوئی ایسا معجزہ پیش نہیں کرسکتے جو دوسروں کو قائل کرسکے جب کہ تمہیں تو دعوت ہے کہ تم سب گزشتہ انبیاء سے برتر ہو اور ان کے سردار ہو اور حالت یہ ہے کہ ان کا شاگرد ہونے کا ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتے ہو ۔
ان کا یہ نہ کہنا خود اس امر کی دلیل ہے کہ آپ ضروری موقع پر معجزات پیش کرتے تھے لہٰذا واضح ہوجا تا ہے کہ اگر رسول اللہ نے ان آیاتم میں بیان کئے گئے ان کے تقاضوں کو نہیںمانا تو یقینا یا یہ تقاضے بے بنیاد ہیں یا پھر عذر تراشی پر مبنی ہیں ورنہ آپ منطقی اور معقول بات تو تسلیم کرتے تھے ۔

 

 



۱۔ مائدہ، ۱۱۰،اور آلِ عمران ۴۹ کی طرف رجوع کریں ۔
سوره اسراء / آیه 94 - 95 ۲۔ کوتاہ فکری اور نامعقول تقاضے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma