کتنامہربان خداہے !

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره طه / آیه 42 - 48 سوره طه / آیه 37 - 41

کتنامہربان خداہے !


ان آیات میں خدا، حضرت موسٰی (علیه السلام) کی زندگی کے ایک حصّے کی طرف اشارہ کررہاہے جو ان کے پچپن کے دوراور فرعونیوں کے غیض و غضب سے معجز انہ طورپرنجات پانے سے متعلق ہے  اگر چہ تاریخی تسلسل کے لحاظ سے یہ حصّہ زندگی ،رسالت ونبوّت کے زمانے سے پہلے تھالیکن چونکہ موسٰی (علیه السلام) پرخداکی نعمتوں کا ، موسٰی (علیه السلام) کی آغاز عمرسے بیان ہورہاتھلہذا اہمیت کے اعتبار سے اسے موضوع ِ رسالت سے دوسرے درجہ پررکھا گیاہے ۔
پہلے ارشاد ہوتاہے : اے موسٰی ! ہم نے تجھ پرایک مرتبہ پہلے بھی احسان کیاتھااور تجھ کواپنی نعمتوں سے نوازاتھا(ولقد منناعلیک مرة
اخرٰی ) (۱) ۔
اس اجمال کے ذکرکے بعد اس کی تفصیل شروع ہوئے قرآن کہتاہے :
اس وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو وہ وحی کی تھی جس وحی کی اس وقت ضرورت تھی :
(اذا وحیناالیٰ امک مایوحیٰ ) ۔
یہ اس بات کی طرفاشارہ ہے کہ اس روز،موسٰی کے فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے کے لیے جس قدررہنمائی کی ضرورت تھی و ہ سب ہم نے موسٰی کی ماں کوتعلیم کردی تھی ۔
کیونکہ جیسا کہ قرآن دوسری آیات سے معلوم ہوتاہے ۔فرعون نے بنی اسرئیل کوبڑی سختی کے ساتھ دبایاتھخاص طورپر اس نے حکم دے رکھاتھا کہ بنی اسرئیل کے لڑکوں کو پیداہوتے ہی قتل کردو اور لڑکیوں کوکنیز ی کے لیے باقی رکھو اس نے یہ حکم بنی اسرائیل کی قوت اوران کی شورش کے احتمال سے بچنے کے لیے دے رکھا تھایاموّرخین اورمفسرین کی ایک جماعت کے قول کے مطابق اس بچے کووجود میں آنے سے روکنے کے لیے کہ جس کے بارے میںیہ پیشین گوئی کی ہوئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل سے اٹھے گا ، اور فرعون کاتخت حکومت الٹ کےرکھ دے گا ۔
فرعون کے جاسوس بنی اسرائیل کے محلوں اور گھروں کی سختی کے ساتھ نگرانی کیاکرتے تھے اور لڑکوں کی پیدائش کی اطلاع دارا لحکومت کو دیاکرتے تھے بہت جلدانہیں ہلاک کردیاکرتے تھے ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ایک طرف توفرعون یہ چہاہتاتھاکہ بنی اسرائیل کوقوت کوختم کرکے رکھ دے اوردوسرے طرف ان کی نسل کے کلی طور پرخاتمہ پربھی آماد ہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس کے لیے مہیاغلاموں کام دیتے تھے ،لہذا اس نے یہ حکم دے رکھاتھا کہ ایک سال کے پیدا ہونے والے بچوں کو زندہ رکھیں اور دوسرے سال کے لڑکوں کو تہ تیغ کردیں،اتفاق سے موسیٰ اس سال پیداہوئی جولڑکوں کے قتل عام کادن تھا ۔
بہرحال ماں نے محسوس کیاکہ اس کے نومولود بچہ کی جان خطرے میں ہے اوراسے وقطعی طورپرمخفی رکھنے سے بھی مشکل حل نہیں ہوگی ،ایسے وقت میں اس خدا نے کہ جس نے اس بچے کوایک عظیم قیام کے لیے نامزو کیاہواہے ،اس ماں کے دل میں الہام کیاکےاسے اب ہمارے حوالے کردہ اور دیکھتی رہو کہ ہم اس کی کس طرح حفاظت کریں گے اور اسے تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ۔
موسٰی (علیه السلام)کی ماں کے دل پریہ الہام ہوا : ” تم اسے ایک صندوق میں ڈا ل دو اور صندوق کودریامیں ڈوبودو “ : (ان اقذفیہ فی التابوت فاقذ فیہ

فی الیم) ۔
”یم “
یہاں پرعظیم دریائے نیل کے معنی میں ہے کہ جس کی وسعت اور بہت زیادہ پانی کی وجہ سے کھبی اس پرسمندر کااطلاق ہوتاہے ۔
” اقذ فیہ فی التابوت “ (اس کوتابوت میں ڈال دو ) کی تعبیر شایداس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قسم کے خوف اور ہم کے بغیر د ل کومطمئن رکھو اور پوری جرائت کے و اس تقامت سے اسے صندوق میں رکھ دو اور کسی قسم کی پرواکیے بغیر اسے دریائے نیل میں پھنک دو “ اور کسی قسم کاخوف نہ خاؤ ۔
لفظ ” تابوت ‘ ‘ لکڑی کے صندوق کے معنی میں ہے  بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ہمیشہ اس صندوق کے معنی میں استعمال ہوتاہے جس میں مردوں کورکھاجاتاہے حالانکہ ایسانہیں ہے کہ اس کاایک وسیع مفہوم ہے کہ جوبعض اوقات دوسر ے صندوقوں پربھی بولاجاتاہے،جسیاکہ طاطالوت و جالوت کے وققہ میں سورئہ بقرہ کی آیت ۲۴۸ کے ذیل میں بیان ہوچکاہے (۲) ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے : دریااس پرمامور ہے کہ اس کو ساحل پرڈا ل دے تاکہ آخر کارمیرادشمن بھی اوراس کااساے اٹھالے (اور اپنے دامن میں اس کی پرورش کرے ) ( فلیلقہ الیم بالساحل یاء خذ ہ عد ولی وعدو لہ ) ۔
یہ بات خاص طورپرقابل توجہ ہے کہ اس مقام پر لفظ ”عدو “ مکرر آیاہے اوریہ درحقیقت فرعون کی خداکے بارے میں بھی اور موسٰی اور بنی اسرائیل کے بارے میں بھی دشمنی پرایک تاکید ہے ،اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جوشخص دشمنی اورعداوت میں اس حد تک پہنچا ہواتھا اسی نے موسٰی کی خدمت اور پرورش اپنے ذمّہ لے لی تاکہ خاکی بشراس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ نہ صرف یہ کہ وہ فرمان خداکے مقابلے میں کھڑا ہونے کی قدرت نہیں رکھتا ،بلکہ خدااس کے دشمن کی اسی ہاتھوں سے اور اسی کے دامن میں پرور ش کرواسکتاہے ۔
اور جس وقت کداظالم سرکشو ں کی نابودی کاارادہ کرے ،توانہیں انہیں کے ہاتھوں سے نابود کردے اورجو آ گ انہوں نے خود جلائی ہے اسی کے ذریعے ا ن کوجلاکررکھ دے کیسی عجیب قدرت کامالک ہے وہ ۔
موسٰی کواس نشیب وفراز سے پرراستے میں ایک دھال کی ضرورت تھی لہذا خدانے اپنی محبت کا سایہ ان پر ڈال دیاس طرح کہ جوبھی انہیں دیکھے ان کافریفتہ اور گرویدہ ہوجائے ،نہ صرف یہ کہ ان کے قتل کیے جانے پرراضی نہ ہوبلکہ وہ اس بات پربھی اراضی نہ ہو کہ ان کاکوئی بال بھی بیکارہوجائے ،جیسا کہ قرآن ان آیات کوجاری رکھتے ہوئے کہتاہے :
میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپرمحبت ڈال دی ہے (والقیت علیک محیة منی ) ۔
کتنی عجیب و غیریب ڈال ہے کہ جو بالکل دکھائی نہیں دیتی ،لیکن فولاد اور لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہے ۔
کہتے ہیں کہ موسٰی(علیه السلام) کی دایہ آل فرعون میں سے تھی ،اوراس کایہ پکاارادہ تھا کہ اس کی ولادت کی خبرجابرفرعون کے دربار میں جاکرد ے ، لیکن جب اس کی نگاہ ہیں پہلی مرتبہ نومولود کی آنکھوں پر پڑیں ،تو اسے ایسے لگاجیسے اس کی آنکھوں میں ایک بجلی کوندگئی ہوجس نے دایہ کے دل کوروشن و منورکردیااوروہ موسٰی(علیه السلام) کی فریقتہ ہوگئی اور ہرقسم کابراارادہ اس کے دماغ سے نکل گیا ۔
اس سلسلے میں ایک حدیث میں امام باقر علیہ اسلام سے منقو ل ہے :
جب موسٰی پیداہوئے اور ان کی والدہ نے دیکھا کہ یہ نومولود لڑکاہے توان کے چہرے کارنگ اڑگیا،اس پردایہ نے پوچھاکہ تیرارنگ اس طرح کیوں زرد ہوگیاتو : انہوں نے کہامجھے اس بات کاخوف ہے کہ میرے بیٹے کاسرقلم کردیاجائے گا،لیکن دایانے کہاتم ہرگز اس قسم کاخوف نہ کرو ۔
وکان موسٰی لایراہ احد الااحبہ
موسٰی کی حالت یہ تھی کہ جوشخص بھی انہیں دیکھتا تھاان سے محبت کرنے لگ جاتاتھا (۳) ۔
اور یہی محبت کی وہ ڈا ل تھی کہ جس نے ان کی فرعو ن کے دربار میں بھی پوری طرح حفاظت کی ۔
اس آیت کے آخری میںفرمایاگیاہے : اس سے مقصد یہ تھا کہ تومیرے حضور میں اور میرے ہی (علم کی )نگاہ ہوں کے سامنے پرورش پائے (وتصنع علیٰ عینی ) ۔
اس میں شک نہیں کہ آسمان و زمین کاکوئی بھی ذرّہ خداکے علم سے پوشیدہ نہیں ہے اور سب اس کی بارگاہ میں حاضر ہیں لیکن یہ تعبیر اس جگہ ایک خاص عنایت کی طرف اشارہ ہے کہ جو خدانے حضرت موسٰی(علیه السلام) پران کی پرورش کے سلسلے میں کی ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے ” التصنع علی عینی “ کوحضرت موسٰی(علیه السلام) کی شیر خواری وغیرہ کے زمانے تک محدود سمجھاجاتاہے لیکن یہ بات بالکل ظاہرہے کہ یہ جملہ ایک وسیع معنی رکھتاہے اوراس میں ہرقسم کی پرورش و تربیت اورموسٰی کاپررودگار کی خاص عنایت سے پرچم رسالت اٹھانے کے لائق اوراہل بنناتک شامل ہے ۔
ا ن آیات اورقرآن مجیدکی ان ہی جیسی دوسری آتات میں موجود قرائن سے روایات و توایخ میں جوکچھ بیان ہواہے ،اس اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ موسٰی (علیه السلام) کی ماں نے آخرکار وحشت پریشانی کے ساتھ اس صندوق کواکہ جس میں موسٰی (علیه السلام) کو رکھاگیاتھا،دریامیں ڈال دیااور بیل کی موجوں نے اسے اپنے کندھو ں پراٹھالیا،ماں جواس منظر کودیکھ رہ ی تھی اوہ عم اور حسرت سے دیکھتی رہ گئی لیکن خدانے اس کے دل میں الہام کیا ، کہ تماپنے دل میں کسی قسم کاغم نہ کرو ہم بالاآخر اسے صحیح وسالم تیری طرف لوٹا دیں گے ۔
فرعون کامحل دریائے کے ایک کنارے پربناہوتھایک احتمال یہ ہے کہ اس عظیم دریاکی ایک شاخ اس کے محل کے اندرسے گزر تی تھی پانی کی موجیں موسٰی (علیه السلام) کی نجات کے صندوق کواپنے ساتھ اس شاخ کی طرف کھینچ لائیںاس وقت فرعون اوراس کی بیوی پانی کے کنارے دریاکی لہروں کانظارہ کررہے تھے اچانک اس پراسرارصندوق نے ان کی توجہ کو اپنی طرف موڑلیفرعون نے اپنے نوکروں کوحکم دیاکہ صندوق کوپانی میں سے نکال لائیں جب صندوق کوکھولاگیاتو انہوں نے انتہائی تعجب کے ساتھ اس میں ایک خوبصورت نومولود بچے کو دیکھاور یہ ایسی چیز تھی کہ جس کا انہیں گمان تک بھی نہ تھا ۔
فرعون کوخیال آیاکہ ہونہ ہو نومولود بچہّ ضروری طورپر بنی اسرئیل میں سے ہے جومامورین دربارکے خوف سے اس قسم کے انجام سے دوچار ہواہے ،لہذا اس نے اس کو قتل کرنے کاحکم دے دیالیکن اس کی بیوی جوبانجھ تھی وہ بچے ّ کی محبت میں گرفتار ہوگئی اورایک ایسی پراسرارشعاع اس نولود بچّہ کی آنکھ سے نکلی جواس عورت کے دل کی گہرائیوں میں اتر تی چلی گئی اوراسے اپناہ گرویدہ اور فریفتہ بنالیاس نے فرعون کادامن پکڑ لیاوہ کہہرہی تھی یہ بچّہ تو آنکھ کی ٹھنڈک ہے اس نے تقاضاکیاکہ وہ اس بچّے کے قتل سے بازآئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کراس نے درخوست کی کہ ہم اسے اپنابیٹا بنالیں اوراسے اپنے مستقبل کی امید وں کے سرمایہ کے طور پر اپنے دامن میں پروان چڑاھائیں آخرکار وہ بڑے اصرار سے اپنی بات کو بادشاہ کے دل میں بیٹھانے میں کامیاب ہوگئی ۔
دوسری طرف بچّے کو بھوک لگ گئیوہ دودھ کے لیے بے چین تھا،اور رو رہاتھا ، آنسوں بہارہاتھافرعون کی بیوی سے اس کے آنسودیکھے نہ گئے اب اس کے سواکوئی چارہ ہی نہ تھاکہ ملازمین دربار میں جتناجلدی ہوسکے دایہ کی تلاش میں نکلیں لیکن وہ جس دایہ کوبھی لے کرآئے نومولود نے اس کا دودھ پینے سے انکار کردیاکیونکہ خدانے یہ مقدر کردیاتھا،کہ وہ اپنی ماں کے پاس لوٹ کرجائے ملازمین دربار ،بھرتلاش کے لیے نکلے ،اورکسی اوردایہ کولانے کے لیے دربدر مارے مارے بھرنے لگے ۔
اب ہم باقی کی داستان آیات کے ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔
ہاں ! اے موسٰی ہم نے یہ مقدرکردیاتھاکہ تم ہماری (علم کی ) نگاہوں کے سامنے پرورش پاؤ ، ” اس وقت جب کہ تمہاری بہن (فرعون کے محل کے پاس سے ) چلی جارہی تھی اورماں کے حکم کے مطابق تیرے حالات کی نگرانی کررہی تھی “ (اذتمشی اختک ) ۔
وہ فرعون کے مامورین سے کہنے لگی : کیامیں تمہیں ایک ایسی عورت کاتعارف کراؤ ں،جواس نومولود کی سرپرستی کرسکے(فتقول ھل ادلکم علیٰ من یکفلہ ) ۔
اور شاید اس نے یہ بی کہاکہ اس عورت کادودھ پاک و پاکیزہے اور مجھے اطمینان ہے کہ یہ بچہ ّ اس کادودھ پی لے گا ۔
مامورین درباراس پربہت خوش ہوئے اور ا س امیدپرکہ شایدجس کی انہیں تلاش ہے ،اس طریقے سے وہ مل جائے ،اس کے ساتھ چل پڑے موسٰی (علیه السلام) کی بہن جو خود ایک اجنبی ظاہرکررہیں تھی اس نے ماں کوساری سرگزشت سے آگاہ کیا، ماں بھی اپنے ہوش ہواس کوقائم رکھتے ہوئے ، محبت اور امید کاایک طوفان دل میں لیے فرعو ن کے دربار میں آپہنچی انہونے بچہ ّ اس کی آغوش میں ڈا ل دیابچے نے ماں کی خشبو سنونگھی ؛آشناخوشبو اچانک اس کے پستان کوجان شیرین کی طرح پکڑ لیااور انتہائی شوق اور غبت کے ساتھ دودھ پینے میں مشغول ہوگی حاضرین میںخوشی کی لہریں دوڑ گئی ،اور فرعون کی بیوی کی آنکھیں بھی خوشی اورشوق سے چمک اٹھیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ فرعون کواس واقعے پر تعجب ہوا اور اس سے پوچھاکہ جوکون ہے کہ اس نومولود بچّے نے تیرادود ھ قبو ل کرلیاہے ،جب کہ دوسری تمام عورتوں کواس نے ردکردیاتھا؟ ماں نے جواب دیاکہ میں ایک ایسی عورت ہیں جس میں پاکیزہ خوشبوہے اور میرادودھ بہت اچھاہے اور کوئی بچہ میرادودھ رد نہیں کرتا ۔
بہر حا ل فرعون نے بچےّ کواس سپرد کردیااوراس کی بیوی نے اس کی حفاظت و نگرانی کی بھت زیادہ تاکید کی اور اسے حکم دیاکہ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بچہ اسے دکھانے کے لیے لایاکرے ۔
اس مقام پرقرآن کہتاہے : ہم نے تجھے تیری ماں کے پاس لوٹا دیا،تاکہ اس کی آنکھ تیری وجہ سے ٹھنڈی رہیں اوراس کے دل میں کوئی غم نہ آنے پائے : (فرجعناک الی امک کی تقرعینھاولاتحزن ) ۔
اور پوری دلجمعی اور آل فرعون کی طرف سے کسی قسم کاکوئی خطرہ محسوس نہ کرتے ہوئے ،اطمینان کے ساتھ بچّے کی پرورش کرسکے ۔
مذکور ہ بالاجملے سے یہ مطلب لیاجاسکتاہے کہ فرعون نے بچےّ کوماں کے سپرد کردیاتاکہ وہ اسے اپنے گھرلے جائے لیکن فطری طورپر ایسابچّہ جوفرعون کامنہ بولابیٹا بن گیا ہواوراس کی بیوی اسے بپت ہی زادہ چاہتی ہواس کاتھوڑے تھوڑے وقفہ سے انہیں دکھانے کے لیے لاناضرور ی تھا ۔
سالہاسال گزر گئے اور موسٰی (علیه السلام) نے خداکے لطف و محبت کے سائے اور امن کے ما حول میں پرورش پائی اور رفتہ رفتہ وہ جوان ہونے لگے ۔
ایک دن موسٰی (علیه السلام) ایک راستے سے گزررہے تھے کہ دوآدمیوں کواپنے سامنے لڑ تے جھگڑتے دیکھان میں سے ایک بنی اسرائیل میں سے تھااور دوسراقبطیوں (مصریوں اور فرعون کے ہواخواہوں)میں سے بنی اسرائیل ہمیشہ ہی ظالم قبطیوں کے دباؤں اور تشدد کاشکار رہے تھے ان میں سےبھی مظلوم بنی اسرئیل میں سے تھا ۔حضرت موسٰی اس کومدد کے لیے لپکے اوراس کادفاع کرتے ہوئے ایک زوردارمکّاقبطی کو رسیدکیالیکن مظلوم کے دفاع میںیہ (مکاّ )کسی ناز ک جگہ پرجالگا،اور اس ایک مکّے سے قبطی کاکام تمام ہوگیا ۔
موسٰی (علیه السلام) اس واقعے سے پریشان ہوگئے چونکہ بالآخر فرعون کو اس بات کا پتہ چل گیایہ قتل کس کے ہاتھوں ہواہے لہذا وہ بڑی شدّت کے ساتھ آپ کے تعاقب میں نکل پڑے ۔لیکن حضرت موسٰی (علیه السلام) اپنے بعض دوستوں کی نصیحت کے مطابق ، پوشیدہ طور پر مصرسے باہرنل گئے اورمدین کی طرف چل پڑے ۔وہاں حضرت شعیب (علیه السلام) پیغمبر کے پاس امن وامان کاایک ماحول مل گیا ۔جس کی تفصیل انشااللہ سورہ قصص کی تفسیرمیں آگی ۔
اس مقامپرقرآن کہتاہے : تونے ایک شخص کوقتل کردیااور غم و اندوہ میں ڈوب گیا،لیکن ہم نے تجھے اس غم واندوہ سے نجات بخشی (وقتلت نفسافنجینک من الغم ) ۔
اس کے بعد ” ہم نے تجھے حادثات کے ذ ریعہ یک بعددیگر سے آزمایا“ (وفتنافتونا) ۔
پھر توسالہاسال مدین کے لوگوں میںٹھہرارہا : (فلبثت سنین فی اھل مدین ) ۔
یہ طولانی راستہ طے کرنے او ر روحانی وجسمانی طورپر آماد ہ ہونے اور حادثات کے طوفانوں سے کامیابی و کامرانی کے ساتھ باہرنکلنے کے بعد” تواس زمانہ میں کہ جوفامان ِرسالت کے لیے مقدرتھا یہاں آیا : (ثم جئت علیٰ قدر یاموسٰی ) ۔
لفظ” قدر “ بہث سے مفسرین کے قول کے مطابق اس زمانے کے معنی میں ہے کہ جس میں حضرت موسٰی (علیه السلام) کے لیے یہ مقدر کیاگیاتھاکہ وہ رسالت پرمبعوث کیے جائیں،لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اس ”مقدار “ کے معنی میں لیاہے جیساکہ بعض قرآنی آیات میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے (مثلاحجر۔۲۱ ) اس تفسیر کے مطابق جملے کامعنی اس طرح ہوگا: اے موسٰی ! تو ۔بہت سے نشیب و فراز اور طرح طرح کے امتحانات کے بعد اور شعیب جیسے عظیم پیغمبر کے جوارمیںطویل مدت گزارکرپرورش پانے کے بعد آخر کار اس قدر ومقام اور شخصیت کامالک بن گیاکہ وحی کے قبول کرنے کے لائق ہوگیا ۔
اس کے بعدمزید فرمایاگیاہے : میں نے تجھے اپنے لیے پرورش کیااور بنایاسنوارا ہے : (واصطنعتک لنفسی ) میں نے تیری پرورش وحیحاصل کرنے کی سنگین ذمّہ دای کے لیے ،رسالت قبول کرنے کے لیے اور اپنے بندوکی ہدایت ورہبری کے لیے ہے اورمیں نے تجھے حادثات کی کٹھالیوں میں آزمایاہے تجھے قوّت عطاکی ہے اور ان جبکہ یہ عظیم ذمّہ داری تیرے کندھے پرڈال جارہی ہے تو تو ہرطرح سے تیار ہوچکاہے ،اور بنایاسنواراجاچکاہے ۔
”اصطناع “ ” صنع “ کے مادہ سے کسی چیز کی اصلاح کے لیے پرتاکید اقدام کے معنی میں ہے (جیساکہ راغب نے مفردات میں کہاہے )یعنی میں تیری ہرطرح سے اصلاح کردی ہے ،گویامیں تجھے اپنے لیے چاہتاہوں،اور یہ انتہائی محبت اّمیز بات ہے کہ جو خدانے اس عظیم پیغمبرکے حق میں کہی ہے ،اور بعض کے قول کے مطابق یہ اس بات کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے کہ جو حکماء نے کہی ہے کہ :
” ان اللہ تعالیٰ اذااحب عبداتفقدہ کمایتفقد الصدیق صدیق “
خداجب کسی بندہ کودوست رکھتاہے تو اس طرح سے اس کی دیکھ بھال کرتاہے جیساکہ کوئی مہربان دوست اپنے دوست کی کرتاہے ۔


۱۔ جیساکہ ہم نے پہلے بھی بیان کیاہے لفظ ”منت“ اصل میں” من “ سے لیاگیاہےاور یہ بڑے بڑے پتھروں کے معنی میں ہے کہ جن کے ساتھ وزن کیاجاتاہے اسی بناپر ہرگز ان بہانعمت بخشنے کومنت کہتے ہیں ، اور زیر بحث آیت میںیہی معنی مراد ہے اوراس کامفہوم ایک پسند یدہ اور عمدہ مفہومہے لیکن اگر کوئی اپنے چھوٹے کام کو باتوں سے بڑا بنائے اور وہ دوسرے پراحسا ن جتلائے تو یہ براکام ہے اور ”منت “ کاقابل مذمت مصداق ہے ۔
۲۔ تفسیرنمونہ کی دوسر ی جلد ،ص ۱۳۹، (اردو ترجمہ ) ۔کی طرف رجوع کریں ۔
۳۔ نوراثقلین ، جلد ۳ ، ص ۳۷۸۔
سوره طه / آیه 42 - 48 سوره طه / آیه 37 - 41
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma