شفاعت کیسے لوگ کرسکتے ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 88 - 95 سوره مریم / آیه 83 - 87

شفاعت کیسے لوگ کرسکتے ہیں ؟


اس بحث کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو گزشتہ آیات میں مشرکین کے بارے میں بیان ہوئی ہے ،زیر بحث آیات در حقیقت ا ن کے انحراف کے بعض علل واسباب اورپھران کی بد بختی اور برے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہیں اوراس حقیقت کو بھی ثابت کرتی ہیں کہ دوسرے معبود نہ صرفان کی عزّت و وقار کاباعث نہیں تھے بلکہ وہ تو ا ن کی بدبختی اور ذلت کاسبب بن گئے ہیں ۔
پہلے فرمایاگیا : کیاتونے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطا نوں کو کافروں کی طرف بھیج تاکہ وہ انہیںغلط راستوں پر جن پروہ چل رہے ہیں تیز کردیں بلکہ تہ و بالاکریں (الم ترانا ارسلناالشیا طین علی الکافرین توء زھم ازّا ) ۔
” از “ جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے اصل میں دیگ میں ابال آنے اور جو کچھ اس کے اندر ہے ابال کی شدّت کے وقت اس کے زیروزبر ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیاطین ا ن پر اس طرح سے مسلط ہوجائیں گے کہ جس راستے پر وہ چاہیں گے انہیں چلادیاجائے گا اورجس شکل میںچاہیں گے انہیں متحر ک کردیں گے اور انہیں تہ وبالاکردیں گے ۔
یہ بات واضح ہے ۔اور ہم نے بارہاکہاہے ۔کہ شیاطین کاانسانوں پر مسلط ہوناجبری اور بے خبری کاتسلط نہیں ہے ، بلکہ یہ خود انسان ہی ہے کہ جو شیاطین کواپنے قلب و رو ح کے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے ، ان کی بندگی کاطوق اپنے گلے میں ڈالتا ہے اور ان کی اطاعت کوقبول کرتاہے جیسا کہ قرآن سورئہ نحل کی آیہ ۱۰۰ میں کہتا ہے :
” انماسلطانہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون “
شیطان کاتسلط صرف ان ہی لوگو ں پرہوتاہے کہ جو اس کی ولادیت و حکومت کوقبول کرتے ہیں اوار جو اسے اپنا بت اور معبود بناتے ہیں ۔
اس کے بعد روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے فرمایاگیا : ا ن کے بارے میں جلد بازی سے کام نہ لو ہم ان کے تمام اعمال کوانتہائی باریکی کے ساتھ شمارکرلیں گے (فلاتعجل علیھم انمانعد الھم عد ) ۔
اور ا ن سب کواس دن کے لیے کہ جس دن عدل الہٰی کی داد گاہ قائم ہوگی ، ثبت اورمحفوظ کرلیں گے ۔
اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد ان کی زندگی کے دنوں کوشمار کرنا، بلکہ ان کے سانسوں کو گنناہو ، یعنی ان کی بقاء کی مدّت مختصر ہے اور شمار کرنے میں آجاتی ہے کیونکہ کسی چیز کامعدود اور گنا ہوا ہونا عام طورپر اس کے تھوڑے اور مختصر ہونے کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔
ایک روایت میں” انما نعد لھم عدّا“ کسی تفسیر کے بارے میں امام صادق علیہاالسلام سے اس طرح منقو ل ہے کہ آپ (علیه السلام) نے اپنے ایک صحابی سے سوال کیا :
تیری نظروں میں اس آیت میں پروردگار کی مراد کس چیز کوشمار کرنا ہے “ ؟
ا س نے جوب میںعرض کیا : ” دنوں کی تعداد “
امام(علیه السلام) نے فرمایا :
” اولاد کی عمرکے دنوں کاحساب توماں باپ بھی رکھتے ہیں ۔ولکنہ عدد الانفاس ۔
اس کے شمار کرنے سے مراد سانسوں کی گنتی ہے “ (۱) ۔
امام کی یہ تعبیرممکن ہے کہ پہلی یادوسری یادونوں تفسیروں کی طرف اشارہ ہو ۔
بہر حا ل اس آیت میں بیان کردہ مطالب میںغورو خوض انسان کوہلاکے رکھ دیتا ہے کیونکہ یہ اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ ہماری ہرچیز یہاں تک کہ ہمارے سانس بھی حساب شدہ اور گنی ہوئی ہیں اور ایک دن ہمیں ان سب کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔
اس کے بعد ”متقین “ اور ”مجرمین “ کی آخری منزل کو مختصر اور وفصیح عبارت میں اس طرح بیان کرتا ہے : ” ہم نے ان تمام اعمال کو ا س دن کے لیے ذخیرہ کرلیا ہے جس دن ہم پرہیز اگاروں کو عزّت و حترم کے ساتھ خدا وند رحمان کی طرف جنت اوراس کے انعامات کی طرف اجتماعی طورپررہنمائی کریں گے ( یوم نحشرالمتقین الی الرحمن وفدا) ۔
”وفد “ برو ز ن ”وعد “ اصل میں ایسے گروہ یاہیئت کو کہتے ہیں جو اپنی مشکلات کے حل کے لیے بزرگوں پاس جاتے ہیں اور ان کے نزدیک مکرم و محترم قرار پاتے ہیں ۔اس بناپریہ لفظ ضمنی طو رپراحترام کامفہوم اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ پرہیز گارسوراریوں پر سوارہوں گے اور بہت ہی عزّت و احترام کے ساتھ جنت میں جائیں گے ۔
امام صادق علیہ اسلا م فرماتے ہیں ،کہ علی علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس آیت ” یو م نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “ کی تفسیر پوچھی تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
” یاعلی الوفد لایکون الارکبانااولٓئک رجال اتقواللہ عذو جل ، فاحبھم و اختصھم ورضی اعمالھم فماھم متقین “
” اے علی !”وفد “ مسلمہ طور پرایسے افراد کوکہتے ہیں کہ جو سواریوں پرسوار ہو وہ ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے تقویٰ کواختیار کیاہے ،خدانے انہیں دوست بنایاہے اور نہیں اپنے لیے مخصوص کرلیاہے اوران کے اعمال سے راضی ہوکر انہیں متقین کانام دیاہے (۲) ۔
یہ بات خاص طورپرقابل توجہ ہے کہ مذکورہ بالاآیت میں یہ بیان کیاگیاہے :
پم پرہیزگار وں کو خدائے رحمن کی طرف لے جائیں گے ،جب کہ بعد والی آیت میں مجرموں کی طرف ہانکنے کی بات ہے  کیایہزیادہ مناسب نہیں تھا کہ رحمان کے بجائے یہاں جنت کہاجاتا لیکن یہ تعبیرحقیقت میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پرہیز گاروہاں جنت سے بھی زیادہ بلند مقام پرفائز ہوں گے ،و ہ قرب خداکے مقام اوراس کے خاص جلوؤں کے نزدیک ہوں گے اور خدا کی رضا جو بہشت سے بھی بہت بڑ ھ کرہے حاصل کرلیں گے ، (وہ تعبریں جواوپربیان کردہ حدیث میں پیغمبراکرم سے نقل کی گئی ہیں وہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ) ۔
اس کے بعد فرمایاگیاہے کہ اس کے مقابلے میں ” ہم مجرموں کو اس حالت میں کہ وہ پیاسے ہوں گے جہنم کی طرف ہانمکیں گے “ (ونسوق المجرمین الی جھنم وردا )
جیسا کہ پیاسے اونٹوں کو پانی کی طرف سے ہانکتے ہیں لیکن یہاں پانی نہیں بلکہ آگ ہوگی ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ لفظ ” ورد “ انسانوں یا جانورں کے ایسے گروہ کے معنی میں ہے کہ جو پانی کے گھاٹ پر آتے ہیں ،چونکہ یہ گروہ یقینی طور پر پیاسا ہوتا ہے لہذامفسرین نے اس تعبیر کو یہاں پیاسوں کے معنی میں لیاہے ۔
کتنافرق ہے ان لوگوں کے درمیان کہ جنہیںعزّت واحترام کے ساتھ خدا ئے رحمن کی طرف لے جایاجائے گا اور فرشتے ان کے استقبا ل کے لیے دوڑ رہے ہوں گے اور ان پردرودو سلام بھیج رہے ہوں گے اورا س گروہ کے درمیان کہ جنہیں تشنہ کام جانوروں کی طرح جہنم کی آگ کی طرف ہانک رہے ہوں گے جبکہ وہ سرنیچے کیے ہوئے ،شرمسار ، رسوااور حقیر ہوں گے ۔
اوراگروہ یہ تصور کرتے ہوں کہ وہاں شفاعت کے ذریعے کسی جگہ پہنچ سکتے ہیں ، تو انہیں جان لیناچاہیئے کہ ” وہ ہر گز وہاں شفاعت کے مالک نہیں ہوں گے “ ( لایملکون الشفاعة) ۔
نہ تو کوئی اور ان کی شفاعت کرے گا اور نہ وہ بطریق اولیٰ اس بات پرقادر ہوں گے کہ خود کسی دوسرے کی شفاعت کریں ۔
صرف انہی لوگوں کوشفاعت کا اختیارہوگا کہ جو خدائے رحمن کے ہاں کوئی عہد وپیمان رکھتے ہوں گے ۔(الامن اتخذعند الرحمن عھدا ) ۔
صرف یہی لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت حاصل ہوسکے گی ،یاان کامرتبہ و مقام اس سے بھی بالاتر و برتر ہے اور یہ قدرت و اختیار کھتے ہیں کہ ایسے گنہگار وں کی کہ جوشفاعت کے لائق ہیں شفاعت کریں ،
”عھد “ کامعنی کیاہے ؟
مفسرین کااس بارے میں اختلاف ہے کہ مذکورہ بالاآیت جویہ کہتی ہے ”صرف انہی لوگوں کوشفاعت کاختیار ہوگا جوخداکے ہاں کوئی عہد رکھتے ہے کہ :” عہد سے کیامراد ہیں؟
بعض نے توبہ کہاہے کہ : ”عہد “ سے مراد پرودگار پرایمان ، اس کی و حدانیت و یگانگی کااقرار اور خدا کے پیغمبروں کی تصدیق ہی ہے ۔
بعض نے کہاکہ یہاں ” عہد “ سے مراد حق تعالیٰ کی وحداینت کی شہادت ،اور ایسے لوگوں سے بیزاری ہے کہ جوخدا کے مقابلے میں کسی پناہ گاہ اورقدرت کے قائل ہیں ۔اسی طرح ”اللہ “ کے سواکسی اورسے امید ن رکھنا ہے “ ۔
امام صادق علیہ اسلام نے اپنے ایک صحابی کے مذکورہ بالاآیت کی تفسیرکے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا :
من دان بولایةامیرالمومنین والائمةمن بعدہ فھو العھد عنداللہ :
”جوشخص امیرمومنین اورا ن کے بعد آئمہ اہل بیت کی ولایت کاعقیدہ رکھتاہو ، یہ خداکے نزدیک عہدہے (۳) ۔
ایک اورروایت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقو ل ہے :
من ادخل علی مومن سرورا فقد سرنی ومن سرنی فقد اتخذعنداللہ عھد ا ۔
جوشخص کسی مومن کوخوش کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیااس کاعہدا خداکے پاس ہے (۴) ۔
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و اآلہ وسلم سے منقول ہے :
”عہد کی حفاظت پانچوںوقت کی نماز ں کی حفاظت ہے (۵) ۔
مختلف اسلامی میں منابع میں بیان کردہ مذ کورہ بالاروایات کے مطالعہ اور ان میں غورو خوض کرنے سے اور اسی طرح بزرگ اسلامی مفسرین کے ا قوال سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا کے نزدیک عہد ۔ جیسا کہ اس کے لغوی معنی سے معلوم ہوتا ہے ۔ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں پروردگار سے ہر قسم کی کا رابطہ اوراس کی معرفت واطاعت اور اسی طرح اولیا ئے حق سے وابستگی اور ہرقسم کاعمل صالح جمع ہے اگر چہ ہرروایت میں اس کے ایک حصّہ یا ایک واضح روشن مصداق کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
لہذا ایک اور حدیث میں جو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وصیّت کرنے کی کیفیت کے بیان میں نقل ہوئی ہے تقریبا تمام اعتقاد مسائل جمع ہیں ،اس میں آپ فرماتے ہیں :
”مسلمان کو چاہیئے کہ موت سے پہلے اس طرح و صیّت کرے اور کہے :
پروردگار! ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ، ظاہرو باطن کاجاننے والاہے ، تو رحمان و رحیم ہے ،تو واحد و یکتا ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، محمد تیرابندہ اورتیرہ بھیجاہوا ، ”رسول “ ہے ، بہشت حق ہے ، دوزق حق ہے قیامت اور حساب و کتاب حق ہے ، اعمال کی جانچ کے لیے میزان حق ہے ، دین اسی طرح ہے جیسا کہ تونے بیان کیاہے اوراسلام وہی ہے جس کی شریعت تونے مقرر فرمائی ہے ، (حق ) بات ہی ہے کہ جو تو نے کہی ہے ، قرآن اسی طرح ہے کہ جیسے تو نے نازل کیاہے ، توحق اور آشکار خدا ہے ۔پروردگار ا ! محمد کو ہمارے طرف سے بہترین جزا دے اور ان پر اور ان کی آل پردرودو سلام بھیج ۔
پروردگار ا ! مشکلات میں تو ہی میرا سرمایہ اورشد ائد میں تو ہی میرا یاورو مدد گار ہے ۔ توہی میرا والی نعمت ہے ، تو ہ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا معبود ہے ، تو ایک چشم زدن کے لیے بھی مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ  اگر تو مجھے خود میرے حال پرچھوڑ دے گا تو میں برایئوں سے نزدیک اور نیکیوں سے دور ہوجاؤ ں گا ،اے میرے خدا ! توہی قبرمیں میرا مونس بن جااور میرے لیے ایک عہد قرار دے جس میں قیامت کے دن کھلاہوا دیکھوں ۔
اس کے کے بعد پیغمبر اکرم نے فرمایا:
ان حقائق کااعتراف کرنے کے بعد جو کچھ انسان ضروری سمجھے و صیّت کی تصدیق سورئہ مریم ۔ کی اس آیت میں ہے ۔
لایملکون الشفاعة الامن اتخذعندالرحمن عھدا
یہ ہے عہد و وصیت  (۵) ۔
یہ بات صاف طو ر پر ظاہرہے کہ اس سے یہ مرا د نہیں ہے کہ مذکورہ بالامطالب کوعربی یافارسی (یاکسی بھی زبان میں ) اور ادکی طرح پڑھے یالکھے بلکہ خلوص دل کے ساتھ ا ن پرایمان رکھتا ہو ۔ایساایمان کہ جس کے آثار اس کی زندگی کے پورے طرز عمل میں دکھائی دیں ۔


۱۔نوراثقلین ، جلد ۳ ، ص ۳۵۷۔
۲۔ نورالثقلین ،جلد ۳ ، ص ۳۵۹۔
۳۔نوراثقلین ،جلد ۳ ، ص ۳۶۲۔
۴۔ المیزان ، زیربحث آیت کے ذیل میں ، بحوالہ درمنثور ۔
۵۔ مجمع البیان زیربحث آیہ کے ذیل میں ۔
سوره مریم / آیه 88 - 95 سوره مریم / آیه 83 - 87
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma