۲۔”تمثل “ کیا ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 13
سوره مریم / آیه 22 - 26 ۱۔روح خداسے کیا مراد ہے ؟

۲۔”تمثل “ کیا ہے ؟

 
”تمثل “ اصل میں مادہ مثول سے اسی شخص یا چیز کے سانے کھڑاہونے کے معنی میں ہے ، اس ممثل اس چیز کو کہتے کہ جو کسی دوسرے کی شکل میں ظاہر ہو ۔ اس بناپر ’تمثل لھا بشراٰسویا‘ کامفہوم یہ ہے کہ وہ خدائی فرشتہ انسانی شکل میںظاہر ہوا ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ اس گفتگو کایہ معنی نہیں ہے کہ جبرئیل صورت اور سیرت کے اعتبار سے بھی ایک انسان میں بد ل گیا تھا کیونکہ اس قسم کا انقلاب اور تبدیلی ممکن نہیں ہے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ (ظاہر ) انسان کی شکل میں نمود ار ہوا ، اگر چہ اس کی سیرت وہی فرشتے جیسی تھی ،لیکن حضرت مریم (علیه السلام) کو ابتدائی امر میںچونکہ یہ خبرنہیں تھی لہذاانہوں نے یہی خیال کیا تھا کہ ان کے سامنے ایک انسان ہے جو باعتبار صورت بھی انسان ہے ۔
اور بااعتبار سیرت بھی انسان ہے ۔
اسلامی روایات اور تواریخ میں ” تمثل “ اس لفظ کے وسیع معنی میں بہت نظر آتا ہے ۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ : جس دن مشرکین مکہ وارالندرہ میں جمع ہوئے تھے اور پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نابود کربے کے لیے سازش کررہے تھے ابلیس ایک خیراندایش و و خیرخواہ بوڑھے آدمی کے لباس میںظاہر ہوااور سردار ن قریش کو بہکانے میں مشغول ہو گیا ۔
یادوسری روایات یہ ہے کہ دنیا اور اس کی باطنی حالت حضرت علی علیہ السلام کے سامنے ایک حسین و جمیل دلربا عورت کی شکل میں ظاہر ہوئی ، لیکن وہ آپ پر کچھ بھی اثر نہ کرسکی یہ واقعہ مفصل اور مشہور ہے ۔
تیسری روایات میں یہ بھی ہے کہ انسان کامال ع اولاد اور عمل موت کے وقت مختلف اور مخصوص چہروں میں اس کے سامنے مجسم ہوتے ہیں ۔
چوتھے یہ کہ انسان کے اعمال قبرمیں اور قیامت کے دن مجسم ہو کر ظاہر ہوں گے اور ہر عمل ایک خاص شکل میںظاہر ہوگا ان تمام مواقع پر تمثل کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز یا کوئی شخص ظاہری طورپر دوسرے کی شکل میں نمودارپو تا ہے نہ یہ کہ اس کاباطن یا اس کی ماہیت ہی تبدیل ہوجاتی ہے (۱) ۔


۱۔تفسیرالمیزان ، جلد ۱۴، ص ۳۷ ۔
سوره مریم / آیه 22 - 26 ۱۔روح خداسے کیا مراد ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma