عدم تحریف ِ قرآن کے دلائل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
روایات تحریف عدم تحریف ِقرآن

عدم تحریف ِ قرآن  کے دلائل


۱۔ حافظان قرآن : عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ دلائل و براہین موجود ہیں ان میں زیادہ واضح اور روشن زیر بحث آیت اور قرآ ن کی کچھ اور آیات کے علاوہ اس عظیم آسمانی کتاب کی تاریخ بھی ہے ۔
مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد ہانی ضروری ہے کہ وہ ضعف اقلیت کہ جس نے تحریف ِ قرآن کا احتمال ذکر کیا ہے ، وہ صرف قرآن میں کمی کے سلسلے میں ہے ۔ ورنہ کسی نے بھی یہ احتمال پیش نہیں کیا کہ موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔( غو ر کیجئے گا )
یہاں سے گذر کر اگر ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ قرآن مسلمانوں کے لئے کچھ تھ قانون ِ اساسی ، زندگی کا دستور العمل ، حکومت کاپروگرام ، مقدس آسمانی کتاب اور رمز عبادت  سب کچھ تو قرآن تھا  تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ۔
قرآن ایک ایسی کتاب تھی کہ پہلے دور کے مسلمان ہمیشہ نمازوں میں ، مسجدوں میں،گھرون میں ، میدان جگ میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکتب کی حقانیت پر استدلال کرنے کے لئے اسی سے استفادہ کرتے تھے یہان تک کہ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن عورتوں ک اھق مہر قرار دیتے تھے  اور اصولی ور پر  تنہا وہ کتاب کہ جو تمام محافل کا موضوع تھی اور ہر بچے کو ابتدائے عمر سے جس سے آشنا کیا جاتا تھا اور جو شخص بھی اسلام کا کوئی درس پڑھنا چاہتا اسے اس کی تعلیم دی جاتی تھی جی ہاں وہ قرآن  یہی قرآن مجید ہے ۔
کیا اس کیفیت کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ شخص کویہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آسمانی کتاب میں تغیر و تبدل ہو گیا ہو  خصوصاًجبکہ ہم نے اسی تفسیر کی جلد اول کی ابتداء میں ثابت کیا ہے کہ قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں اسی، موجود ہ صورت میں خود زمانہ پیغمبر میں جمع ہو چکا تھا اور مسلمان سختی سے اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے کو اہمیت دیتے تھے ۔اصولی طور پر اس زمانے میں افراد کی شخصیت زیادہ تر اس بات سے پہچانی جاتی تھی کہ انھیں قرآن کی آیات کس حد تک یا د ہیں ۔
قرآن کے حافظوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تواریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ایک جنگ میں قرآن کے چار سو قاری مارے گئے تھے ۔ ۱
”بئر معونہ“ مدینہ کی نزدیکی آبادیوں میں سے تھی ۔ یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہو گی تھی ۔یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہوگئی ۔ اس جنگ میں اصحاب پیغمبر میں سے قاریانِ قرآن کی ایک کثیر جماعت نے شربت ِ شہادت نوش کیا یہ تقریباًستّر افرد تھے ۔۲
ان سے اور ان جیسے دیگر واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ و قاری اور معلمین قرآن اس قدر زیادہ تھے کہ صرف ایک میدان ِ جنگ میں ان میں سے اتنی تعداد نے جام ِ شہادت نوش کیا اور تعداد ایسی ہونا چاہئیے تھی کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن مسلمانو کے لئے صرف قانون اساسی نہیں ہے بلکہ ان کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے ۔ خصوصاًابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے پاس ا س کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی اور تلاوت و قراٴت اور حفظ و تعلیم تعلّم قرآن کے ساتھ مخصوص تھاقرآن ایک تروک کتاب نہ یہ گھر ی امسجد کے کسی کونے میں فراموشی کے گرد و غبار کے نیچے پڑی ہوئی نہ تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کردیتا ۔
حفظ قرآن کا مسئلہ ایک سنت اور ایک عظیم عبادت کے عنوان سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان تھا اور ہے یہاں تک کہ قرآن ایک کتاب کی صورت میںبہت زیادہ پھیل گیا اور تمام جگہوں پر پہنچ گیا بلکہ آج بھی چھاپہ خانے کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد جبکہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ قرآن ہی چھپتا اور نشر ہوتا ہے پھر بھی حفظ قرآن کے مسئلے نے ایک قدیم سنت اور عظیم افتخار کے طور پر اپنی اہمیت و حیثیت کو محفوظ رکھا ہے اور ہر شہر و دیار میں ہمیشہ ایک جماعت حافظِ قرآن تھی اور آج بھی ہے ۔
اس وقت حجاز اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں ”تحفظ القراٰن الکریم “ یا دوسرے ناموں سے ایسے مدارس موجود ہیں ، جہاںطالب علموں کو پہلے مرحلے میں قرآن حفظ کرایاجاتا ہے ۔ سفرمکہ کے دوران اس شہر مقدس میں ان مدارس ک بر براہوں سے جو ملاقات ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے ان مدارس میں بہت سے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں مشغول تحصیل ہیں ۔ جاننے والوں میں سے ایک شخص نے بتا یا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباًپندرہ لاکھ حافظان قرآن موجود ہیں ۔
جیسا کہ دائرة المعارف فرید وجدی نے نقل کیا ہے کہ جامعة الازھر مصر کی یونیورسٹی میں داخلے کی ایک شرط پورے قرآن کا حفظ ہونا ہے اس کے لئے چالیس میں سے کم کم بیس نمبر رکھے گئے ہیں ۔
مختصر یہ کہ خود آنحضرت کے حکم و تاکید سے کہ جو بہت زیادہ روایات میں آئی ہے حفظ ِ قرآن کی سنت زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک ہر دور میں جاری و ساری ہے ۔ کیا ایسی حالت میں تحریف ِقرآن کے بارے میں کسی احتمال کا امکان ہے ؟
۲۔ کاتبان وحی : ان تمام امور کے علاوہ کاتبانِ وحی کا معاملہ بھی غور طلب ہے یہ وہ افراد تھے جو آنحضرت کے حکم اور تاکید سے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہونے کے بعد انھیں لکھ لیتے تھے ان کی تعداد چودہ سے لے کر تنتالیس تک بیا ن کی گئی ہے ۔
ابو عبد اللہ زنجانی اپنی نہایت قیمتی کتاب”تاریخ قرآن “ میں لکھتے ہیں ۔
کان للنبی کتاباًیکتبون الوحی وھم ثلاثة و اربعون اشھر ھم الخلفاء الاربعة و کان الزمھم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیہ السلام
۔
پیغمبر کے مختلف کاتب اور لکھنے والے کہ جو وحی لکھا کرتے تھے اور وہ تنتالیس افراد تھے کہ جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربعہ تھے ۔ لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طاللب علیہ السلام ۔3
وہ کتاب کہ جسے اس قدر لکھنے والے تھے کیسے ممکن ہے کہ تحریف کرنے والے اس کی طرف ہاتھ بڑھاسکتے ۔
۳۔ تمام رہبران اسلام نے اسی قرآن کی دعوت دی ہے : یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلام کے عظیم پیشواوٴں کے کلمات کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ابتدائے اسلام سے باہم بیک زبان لوگوں کو اسی موجودہ قرآن کی تلاوت ، مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے اور یہ امر خود نشاندہی کرتا ہے کہ یہ آسمانی کتاب اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر بعد تک تحریف ناپذیرمجموعہ کی صورت میں موجود ہی ہے ۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات اس دعویٰ کے زندہ گواہ ہیں ۔
خطبہ ۱۳۳ میں آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں :۔
وکتاب اللہ بین اظھر کم ، ناطق لایعیالسانہ، و بیت لاتھدم ارکانہ ، و عزلاتھزم اعوانہ۔
اور اللہ تمہارے درمیان ایسا ناطق ہے جس کی زبان کبھی گنگ نہیں ہوتی ۔ یہ ایسا گھر ہے جس کے ستون کبھی منہدم نہیں ہوتے اور یہ ایسا سرمایہٴِ عزت ہے کے انصارکبھی مغلوب نہیں ہوتے ۔
خطبہ ۱۷۶میں فرماتے ہیں :۔
و اعلموا ان ھٰذا القراٰن ھو الناصح الذی الیغش والھادی الذی لایضل ۔
جان لو کہ یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو اپنی نصیحت میں کبھی خیانت نہیں کرتا او ر ایسا ہادی ہے جوکبھی گمراہ نہیں کرتا ۔ نیز اسی خطبے میں ہے :
وما جالس ھٰذا القراٰن احد الاقام عنہ بزیادة او نقصان،زیادة من ھدی ، او نقصان من عمی ۔
کوئی شخص اس قرآن کا ہم نشین نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پاس زیادتی یا نقصان کے ساتھ اٹھتا ہے ۔ ہدایت کی زیادتی یاگمراہی کی کمی ۔
اسی خطے کے آخر میں ہے :
ان اللہ سبحانہ لم یعظ احداًبمثل ھٰذا القراٰن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین۔
خدا نے کسی کو اس قرآن جیسی وعظ و نصیحت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ خدا کی محکم رسی اور اس کا قابل اطمینان وسیلہ ہے ۔خطبہ ۱۹۸ میں ہے :۔
ثم انزل علیہ الکتاب نوراً لاتطفاٴ مصابیحة، و سراجاً لایخبوتوقدہ، و منھا جا لا یضل نھجہ و فرقاناً لایخمد بر ھانہ
اس کتاب کے بعد خدا نے اپنے نبی پر ایک کتاب نازل کی  وہ کتاب جو خاموش نہ ہونے والا نور ہے اور جو ایسا چراغ پر فروغ ہے کہ جس میں تاریکی آہی نہیں سکتی اور یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والے گمراہ نہیں ہوسکتے اور یہ حق کی باطل سے جدائی کا ایسا سبب ہے جس کی برہان خاموش نہیں ہوتی ۔
ایسی تعبیرات حضرت علی السلام اور دیگر پیشوایانِ دین کے کلمات و ارشادات میں بہت زیادہ ہیں ۔
فرض کریں کہ اگر دست تحریف اس آسمانی کتاب کی طرف بڑھا ہوتا تو کیا پھر بھی ممکن تھا کہ اس کی طرف دعوت دی جاتی ۔ اور اسے راہ کشا ، حق کی باطل جدائی کا ذریعہ ، نہ بجھنے والانور ، خاموش نہ ہونے والا چراغ، خدا کی محکم رسی اور اس کا امین و قابل اطمینان وسیلہ قرار دے کر تعارف کروایا جاتا ۔
۴۔ آخری دین اور ختم نبوت کا تقاضا :۔ اصولی طور پر پیغمبر اسلام کی خاتمیت قبول کرلینے کے بعد اور یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ دین اسلام آخری خدائی دین ہے اور قرآن کا پیغام دنیا کے خاتمے تک بر قرار رہے گا کس طرح یہ باور کیا جا سکتا ہے خدا اسلام اور پیغمبر خاتم کی اس واحد سند کی حفاظر نہیں کرے گا ۔
اسلام کے ہزاروں سال کے بعد باقی رہنے ، جاوداں ہونے اور آخری دنیا تک رہنے کے ساتھ کیا تحریف ِ قرآن کاکوئی مفہوم ہو سکتا ہے ؟
۵۔ روایات ِ ثقلین :۔ روایات ثقلین کہ جو طرق معتبر و متعدد ہ سے پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہےں قرآن کی اصالت اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہنے پر ایک ایک اور دلیل ہیں کیونکہ ان روایات کے مطابق پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :
میں تمہارے درمیان میں سے جارہاہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تماہرے لئے بطور یاد گار چھوڑے جارہاہوں، پہلی اور دوسری میری اہل بیت ۔ اگر تم نے ان کا دامن نہ چھوڑا ، تو ہ رگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ ۱
۱۔حدیث ثقلین متواتر احادیث میں سے ہے یہ حدیث اہل سنت کی بہت سے کتب میں صحابہ کی ایک جماعت کی وساطت سے پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے ان صحابہ میں ابو سعید خدری ، زید بن ارقم ، زید بن ثابت، ابو ہریرہ ،حذیفہ بن اسید ، جابر بن عبد اللہ انصاری ، عبد اللہ حنطب، عبدبن حمید، جبیر بن مطعم ، ضمرہ اسلمی ، ابوذر غفاری ، ابو رافع اور ام سلمہ وغیرہ شامل ہیں ۔
کیا ایسی با ت کسی ایسی کتاب کے لئے صحیح ہے جو تحریف کا شکار ہو گئی ہو ۔
۶۔ قرآن جھوٹی اور سچی روایات کے لئے کسوٹی ہے :ان سب پہلووٴں سے قطع نظر قرآن کا تعارف سچی اور جھوٹی روایات و احادیث کو پرکھنے کے لئے معیار کے طور پر کروایا گیا ہے بہت سے روایات کہ جو منابع اسلام میں آئی ہیں ان میں سے کہ جو حدیث کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں شک کرو اسے قرآن کے سامنے پیش کرو، جو حدیث کے موافق وہ حق ہے اور جو حدیث اس کے مخالف ہے وہ باطل اور غلط ہے ۔
فرض کریں کہ قرآن میں کمی کے لحاظ سے ہی تحریف ہوتی تبب بھی ہر گز ممکن نہ تھا کہ اس کا تعارف حق و باطل کو پرکھنے کی کسوٹی کے طور پر کر وایا جاتا ۔

 

 

۱۔ البیان فی تفسیر القرآن ص ۲۶۰ بحوالہ منتخب کنزالعمال ۔
۲۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۵۷۔
3۔تاریخ القرآن ص۳۴۔
روایات تحریف عدم تحریف ِقرآن
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma