لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 6 - 8 بے بنیاد آرزوئیں

لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیں :۔

اس اس میں شک نہیں کہ امید وآرزو یا عربوں کی تعبیر میں ” امل “ انسان کے چرخ حیات کی حرکت کا عامل ہے یہاں تک کہ اگر اسے اہل دنیا کے دلوں سے صرف ایک دن کے لئے اٹھالیں تو نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے اوربہت کم افراد میں فعالیت ، سعی و کوشش اور جوش ِ عمل پیدا ہو ۔
اس سلسلے میں پیغمبر اکرم سے یہ مشہور حدیث منقول ہے :
الامل رحمة لامتی ولو لا الا مل لا رضعت والدة ولدھا ولاغرس غارس شجرا ۔
امید میری امت کے لئے سایہ ٴ رحمت ہے اگر نورامید نہ ہوئی تو کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلائے ، اور کوئی باغبان پودانہ لگائے ۔ 1
یہ حدیث بھی اسی عمل کی طرف اشارہ ہے لیکن حیات و حرکت کا عامل جب حد سے گذر جائے اور دور دراز کی آرزو کی شکل اختیار کرے تو انحراف و بد بختی کا بد ترین عامل ہے یہ بالکل آبِ باراں کی طرح کہ جو سببِ حیات ہے لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو غرقابی اور نابودی کا باعث ہوجائے ۔
یہی وہ ہلاکت خیز آرزو ہے جس کا ذکر زیر بحث آیات میں آیا ہے اور اسے کدا و حق و حقیقت سے بے خبری کا باعث شمار کیا گیا ہے ۔ یہ دور دراز کی آرزوئیں اور لمبی چوڑی امیدیں ہیں جو انسان کو اس طرح اپنے میں مشغول رکھتی ہیں اور عالم تخیل میں مستغرق کردیتی ہیں کہ انسان زندگی اور اس کے اصلی اہداف و مقاصد سے بالکل بیگانہ ہو جاتا ہے ۔
ایک مشہور حدیث کہ جو نہج البلاغہ میں حضرت علی (علیہ السلام) سے منقول ہے وہ بھی اس حقیقت کو وضاحت سے بیان کرتی ہے :
ایھا الناس ان اخوف ما اخاف علیکم اثنان: اتباع الھوی و طول الامل، اما اتباع الھوٰی فیصد عن الحق ، و اما طول الامل فینسی الاٰخرة۔
اے لوگو!خوفناک ترین چیزیں کہ جن کا مجھے تمہارے بارے میں اندیشہ ہے وہ دو ہیں ۔ ہوا و ہوس کی پیروی اور دور دراز کی آر زئیں ، کیونکہ ہوا و ٴ ہوس کی پیروی تمہیں حق سے باز رکھے گی اور دور دراز کی آرزو آخرت کو بھلا دے گی ۔ 2
یہ حقیقت ہے کہ کتنے ہی باصلاحیت اور لائق افراد ہیں کہ جوآرزوئے درازکے دا م میں گرفتاری کے زیر اثر ضعیف اور مسخ شدہ وجود بن چکے ہیں کہ جس کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے معاشرے کے لئے مفید نہیں رہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات بھی پامال کر چکے ہیں اور ہر قسم کی ترقی اور کمال سے محروم ہو گئے ہیں ۔ جیسا کہ دعائے کمیل میں ہے ۔
وحبسنی عن نفعی بعد املی
طویل آرزو نے مجھے اپنے حقیقت ِ منافع سے محروم کردیا ہے ۔
اصولی طور پر آرزو جب حد سے گذر جاتی ہے تو ہمیشہ انسانوں کو رنج و تعب میں مبتلا کردیتی ہے پھر وہ رات دن کو شش کرتا ہے اور اپنے گمان میں سعادت و خوشحالی کی طرف جارہا ہوتا ہے حالانکہ اسے بد بختی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ایسے افراد اکثر اوقات اس حالت میں جان دے دیتے ہیں ان کی درد ناک اور غم انگیز اندگی کے ان کے لئے باعثِ عبرت ہے کہ جو دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان رکھتے ہیں ۔

* * *



۱۔سفینة البحار ۔ج۱ ،ص۳۰(مادہ ”امل“) ۔
2۔ نہج البلاغہ ،۴۲۔

 

سوره حجر / آیه 6 - 8 بے بنیاد آرزوئیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma