سواری ۔انسان کے لیے اولین نعمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
انسان گلشن حیات کا بہترین پھول سوره اسراء آیت 70- 72

سواری ۔انسان کے لیے اولین نعمت :
یہ نکتہ قا بلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے سب سے پہلے خشکی اور دریا میں اس کی آمد ورفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ممکن ہے یہ اس بناء پر ہو کہ طبیات اور مختلف قسم کے رزق سے حرکت اور سفر کے بغیر فائدہ اٹھانا ممکن نہیںاور صفحہٴ زمین پر اس سفر کے لیے انسان کو سواری کی ضرورت ہے ۔یہ بجا کہا جاتا ہے کہ حرکت میں برکت ہے ۔
یا پھر اس بنا ء پر ہے کہ خدا تعالیٰ اس زمین پر انسانی حکمرانی کو بیان کر نا چاہتا ہے ۔دریا ہو یا صحرا انسان کا اقتدار مو جود ہے ۔اس زمین پر دیگر موجود کا تسلط محدود اور ایک حصے پر ہے ۔ یہ صرف انسان ہے جو پورے کرہ خاکی پر حکومت کرتا ہے ۔ دریا، صحرا، اونچائی، اترائی اور ہوا سب میں انسان کی حکومت ہے ۔
۲۔ خدا کی طرف سے انسان کی عزت و تکریم:
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو عزت بخشی۔ یہ ایک سربستہ سی بات ہے ۔ اللہ نے انسان کو کس چیز سے عزت بخشی اس سلسلے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس اعطاء سے مراد عقل و نطق کی قوت،مختلف استعدادیں اور ارادے کی آزادی ہے ۔
بعض سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد انسان کی موزوں جسامت اور قامتِ راست ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ اس اعطاء سے انگلیاں مراد ہیں جن کے ذریعے انسان بہت سے ظریف اور دقیق کام انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح لکھنے کی قدرت رکھتا ہے ۔
بعض کا خیال ہے کہ اس سے انسان کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تقریباً واحد موجود ہے جو اپنی غذا اپنے ہاتھ سے کھا سکتا ہے ۔
بعض سمجھتے ہیں کہ یہ انسان کی اس سربلندی کی طرف اشارہ ہے کہ وہ روئے زمین کی تمام موجودات پر تسلط رکھتا ہے ۔
بعض کا خیال ہے کہ اس عطاء کی طرف اشارہ ہے کہ انسان معرفت الٰہی پر اور اس کے فرمان کی اطاعت پر قدرت رکھتا ہے ۔
لیکن یہ واضح ہے کہ یہ سب نعمتیں انسان میں جمع ہیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے متضاد نہیں ہے ۔
لہٰذا اس عظیم مخلوق کو خدا نے جو گرامی قدر بنایا اور عزت عطا کی ہے وہ ان تمام نعمات اور ان کے علاوہ دیگر نعمات کی بنیاد پر ہے ۔ مختصر یہ کہ انسان دیگر مخلوقات پر بہت سے امتیازات رکھتا ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بلند تر اور جاذب نظر زیادہ ہے ۔
انسان کے جسمانی امتیازات کے علاوہ انسان ایسی روح کا حامل ہے جو کمال حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ صلاحتیں اور بہت توانائی رکھتی ہے ۔
۳۔”کّرمنا“اور ”فضّلنا“میں فرق:
اس سلسلے میں مختلف نظریات بیان کیے گئے ہیں:
بعض کا کہنا ہے کہ ”کرّمنا“ ان نعمات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذاتاً انسان کو دی ہیں جبکہ ”فضّلنا“ان فضائل کی طرف اشارہ ہے جو انسان نے توفیق الٰہی سے کسب کیے ہیں ۔
یہ احتمال بھی بہت صحیح معلوم ہوتا ہے کہ”کرّمنا“ مادی پہلوؤں کی طرف اشارہ ہو اور ”فضّلنا“روحانی پہلوؤں کی طرف کیونکہ لفظ ”فضّلنا“ عام طور پر قرآن میں اسی معنی میں آیا ہے ۔
۴۔ آیت میں ”کثیر“کا مفہوم
بعض مفسّرین کا خیال ہے کہ زیرِ بحث آیت تمام اولادِ آدم پر فرشتوں کی برتری کی دلیل ہے، وہ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن اس آیت میں کہتا ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری عطا کی ہے، لہٰذا اس کا واضح مطلب ہے کہ ایک گروہ ایسا ہے کہ جس سے انسان افضل نہیں ہے اور یہ گروہ فرشتوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔
لیکن خلقتِ آدم اور فرشتوں کا ان کے سامنے سجدہ وخضوضع کرنے اور آدم(ص) کی طرف سے انھیں علمِ اسماء کی تعلیم کی طرف توجہ کی جائے تو اس امر میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ انسان فرشتوں سے افضل وبرتر ہے لہٰذا ”کثیر“ یہاں پر ”جمیع“ کے معنی میں ہوگا ۔
عظیم مفسّر طبرسی نے مجمع البیان میں کہا ہے کہ قرآن میں عرب محاورات میں بہت معمول ہے کہ یہ لفظ ”جمیع“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ طبرسی کہتے ہیں کہ اس جملے کا معنی یہ گا:
”انّا فضلناھم علیٰ من خلقنا وھم کثیر“
ہم نے انسان کو ان سب پر فضیلت عطا کی ہے جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے اور یہ مخلوقات کثیر ہیں ۔
شیاطین کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
<وَاٴَکْثَرُھُمْ کَاذِبُونَ (شعراء/۲۲۳)
واضح ہے کہ شیطان تو سب جھوٹے ہیں نہ کہ ان میں سے اکثر۔
بہرحال اس معنی کو خلاف ظاہر سمجھیں تو خلقتِ انسان کے بارے میں موجود آیات ہماری مذکورہ بات کے لئے واضح قرینہ ہیں ۔
۵۔ انسان کیوں افضل ہے؟
اس سوال کا جواب کوئی پیچیدہ نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ہی وہ واحد موجود ہے جس میں مختلف مادی ومعنوی اور جسمانی وروحانی قوتیں اور توانائیاں موجود ہیں، یہی انسان متضاد چیزوں میں رہ کر پرورش پاسکتا ہے، صرف انسان ہی ہے جو کمال وارتقاء اور پیشرفت کی لامحدود صلاحیت رکھتا ہے
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث بھی اس مدعا پر ایک گواہ ہے آپ(ص) فرماتے ہیں:
الله نے عالم کو تین قسم کا پیدا کیا ہے: فرشتے، حیوان اور انسان۔ فرشتے عقل رکھتے ہیں اور ان میں شہوت وغضب کی قوت نہیں ہے ۔ حیوان شہوت وغضب کا مجموعہ ہیں لیکن انسان دونوں کا مجموعہ ہے تاکہ معلوم ہو کہ کونسی قوت غالب آتی ہے ۔ اگر اس کی عقل شہوت پر غالب آجائے تو بہ فرشتوں سے افضل ہے اور اگر اس کی شہوت اس کی عقل پر غالب آجائے تو یہ حیوانات سے پست تر ہے ۔ (۱)
یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ تمام انسان فرشتوں سے افضل ہیں جبکہ بہت سے لوگ بے ایمان، شریر اور ستمگر ہیں اور ایسے لوگ مخلوقِ خدا میں سے پست ترین شمار ہوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں کیا زیرِ بحث آیت میں لفظ ”بنی آدم“ سب انسانوں کے لئے ہے یا ان میں سے صرف ایک گروہ کے لئے ۔
اس سوال کا جواب ایک جملے میں دیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ:
جی ہاں! تمام انسان برتر ہیں لیکن بالقوة واستعداد کے لحاظ سے ۔ یعنی سب یہ مقام اور اہلیت رکھتے ہیں، البتہ اس سے استفادہ نہ کریں اور اپنے مقام سے گرجائیں تو یہ کام خود ان سے مربوط ہے ۔
انسان کی تمام موجودات پر برتری اگرچہ روحانی اور انسانی حوالے سے ہے تاہم نامناسب نہیں کہ ہم علماء کے بقول بعض حوالوں سے جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی افضل جانیں ۔ (اگرچہ بعض پہلووٴں سے انسان کمزور نظر آتا ہے) ۔
کتاب ”انسان موجود ناشناختہ“ کا موٴلف الیکسرکارل کہتا ہے:
انسانی بدن غیرمعمولی استحکام ار قابلیت کا حامل ہے، یہ ہر قسم کے حادثے میں استقامت دکھاتا ہے، اسی طرح بھوک، بے خوابی، تکان، بہت زیادہ غصّے، درد، بیماری، دُکھ، مشقّت اور روح وبدن میں موجود حیرت انگیز اعتدال کی حفاظت کے موقع بہت عجیب وغریب فکری وجسمانی توانائی کی وجہ سے وہ صنعت وتمدن میں اس مقام پر آپہنچا ہے اور تمام جانداروں پر اپنی برتری ثابت کرچکا ہے ۔ (۲)
اگلی آیت میں انسان کے لئے ایک اور خدائی نعمت کی طرف اشارہ ہے، نیز اس نعمت کے بعد انسان پر جو سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔
پہلے مسئلہ رہبری اور انسانی سرنوشت میں اس کی تاثیر کو بیان گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے امام اور ہبر کے ساتھ پکاریں گے ( یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ اٴُنَاسٍ بِإِمَامِھِمْ) ۔
یعنی وہ لوگ کہ جنھوں نے ہر زمانے میں انبیاء اور ان کے اوصیاء کی رہبری کو قبول کیا ہے اپنے ان پیشواوٴں کے ساتھ ہوں گے اور جنھوں نے شیطان، آئمہ ضلال اور جابر وظالم پیشواوٴں کی رہبری کو اختیار کیا ہے وہ ان کے ساتھ محشور ہوںگے ۔
خلاصہ یہ کہ رہبری اور پیروی کا جو رشتہ اس جہان میں ہوگا وہ پوری طرح اُس جہان میں منعکس ہوگا ۔ اسی بنیاد پر اہلِ نجات اور اہلِ عذاب ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے ۔
اگرچہ بعض مفسّرین نے چاہا ہے کہ یہاں ”امام“ کا وسیع مفہوم ہے اور اسی میں ہر پیشوا شامل ہے چاہے وہ انبیاء ہوں یا آئمہ ہدیٰ یا علماء اور کتاب وسنت اور اسی طرح آئمہ کفر وضلال بھی لہٰذا وہاں ہر شخص اس رہبر کی صف میں ہوگا جس کا یہاں طریقہ اپنایا ہوگا ۔
انسان کے کمال وارتقاء کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعبیر سب انسانوں کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے اور اسے خبردار کرتی ہے کہ رہبر کے انتخاب میں بہت زیادہ غور غور و فکر سے کام لےے اور اپنی فکر و نظر اور زندگی کی مہار ہرکسی کے سپرد نہ کردے ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہاں لوگ دوحصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ”جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ افتخار اور سرور کے ساتھ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ذرہ بھر ظلم نہ ہوگا“(فَمَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَاٴُوْلٰئِکَ یَقْرَئُونَ کِتَابَھُمْ وَلَایُظْلَمُونَ فَتِیلًا) ۔ (3)
”لیکن جو لوگ اس جہاں میں کور دل تھے وہ آخرت میں بھی اندھے ہوں گے“( وَمَنْ کَانَ فِی ھٰذِہِ اٴَعْمَی فَھُوَ فِی الْآخِرَةِ اٴَعْمَی) ۔اور فطری امر ہے کہ دل کے یہ اندھے سب سے زیادہ گمراہ ہوں گے ( وَاٴَضَلُّ سَبِیلًا) ۔وہ نہ اس دنیا میں راہِ ہدایت پائین گے اور نہ آخرت میں بہشت و سعادت کی راہ۔ کیونکہ انہوں نے خود سے اپنی آنکھیں تمام حقائق کے سامنے بند کررکھی ہیں ۔ انہوں نے حق کا چہرہ دیکھنے کے لیے آنکھیں نہ کھولیں ۔ آیات خدا اور جو کچھ یاعث ہدایت و عبرت تھا اس سے آنکھیں چرائے رکھیں اور خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے انہوں نے اپنے آپ کو محروم رکھا اور دارِ آخرت چونکہ اس جہاں کا عکس العمل ہے تو کیا تعجب کی بات ہے کہ یہ کور دل وہاں عرصہ محشر میں نابینوں کی صورت میں پیش ہوں ۔

انسان گلشن حیات کا بہترین پھول سوره اسراء آیت 70- 72
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma