کیا خدا کے بارے میں شک ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم / آیه 11- 12 سوره ابراهیم / آیه 8- 10

کیا خدا کے بارے میں شک ہے ؟

زیر نظر پہلی آیت شکر گزاری او رکفران نعمت کی بحث کی تائید و تکمیل ہے او ریہ آیت حضرت موسیٰ بن عمران کی زبانی گفتگو کے ضن میں نقل ہوئی ۔ فرمایا گیا ہے : موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یاد دہانی کر وائی کہ اگر تم روئے زمین کے تمام لوگ کافر ہ وجائیں ( اور خدا کی نعمت کاکفران کریں )تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ بے نیاز اور لائق ستائش ہے ۔ ( وَقَالَ مُوسَی إِنْ تَکْفُرُوا اٴَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللهَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ) ۔۱
در حقیقت شکر نعمت اور خدا پر ایمان تمہارے لئے نعمت میں اضافے ، تمہارے تکامل و ارتقاء اور تمہاری عزت و افتخار کا سبب ہے ۔ ورنہ خدا تو ایسا بے نیاز ہے کہ اگر پوری کائنات کافر ہو جائے تو ا س کے دامن ِ کبریا ئی پر کوئی گر دنہیں پڑسکتی کیونکہ وہ سب بے نیاز ہے ۔ یہاں تک کہ وہ تشکر و ستائش کا محتاج بھی نہیں کیونکہ وہ ذاتی طور پر لائق حمد ہے ( حمید) ۔
اگر اس کی ذات پاک میںنیاز و احتیاج ہوتی تو وہ واجب الوجوب نہ ہوتا ۔ لہٰذا اس کے غنی ہونے کا مدہوم یہ ہے کہ تمام کمالات اس میں جمع ہیں جو ایساہے وہ ذاتی طور پر تعریف کے لائق ہے کیونکہ ” حمید“ کامعنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ لائق حمد ہے ۔
اس کے بعد چند آیات میں بعض گزشتہ اقوام کا انجام بیان کیا گیاہے ۔ وہی اقوام کہ جنہوں نے نعماتِ الٰہی پر کفران ِ نعمت کا راستہ اختیار کیا او رہادیان ِ الہٰی کی دعوت پر ان کی مخالفت کی اور کفر کی راہ اپنائی ۔ ان آیات میںان کی منطق اور ان کے انجام کی تشریح کی گئی ہے تاکہ گزشتہ آیت کے مضمون پر تاکید ہو جائے ارشاد ہوتا ہے : کیا تم تک ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی ہے کہ جو تم سے پہلے تھے ( اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُم ) ۔
ہو سکتا ہے کہ جملہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کا آخری حصہ ہو او ریہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی طرف سے مسلمانوں کو خطاب کی صورت میں ایک مستقل بیان ہو ۔ بہر حال نتیجے کے لحاظ سے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : قوم نوح ، عاد اور ثمود جیسی قومیں او روہ کہ جو ان کے بعد تھیں (قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِینَ مِنْ بَعْدِھم ) ۔
وہی کہ جنہیں خد اکے علاوہ کوئی نہیں پہچانتا اور اس کے علاوہ کوئی ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہے ( لاَیَعْلَمُھُمْ إِلاَّ الله) ۔ 2
اس کے بعد کی سر گزشت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :ان کے پیغمبر واضح دلائل کے ساتھ ان کی طرف آئے لیکن انہوں نے تعجب و انکار کی بناء پر اپنے منہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ جن چیزوں کے لئے تم بھیجے گئے ہو ہم ان سے کفر کرتے ہیں ( جَائَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوا اٴَیْدِیَھُمْ فِی اٴَفْوَاھِھِمْ وَقَالُوا إِنَّا کَفَرْنَا بِمَا اٴُرْسِلْتُمْ بِہِ) ۔کیونکہ ” ہم ہر اس چیز کے بارے میں شک رکھتے ہیں کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہو “ اور اس شک کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ہم تمہاری دعوت قبول کرلیں (وَإِنَّا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَیْہِ مُرِیبٍ) ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ انہوں نے پہلے انبیاء کے بارے میں کفر اور بے ایمانی کااظہار کیا لیکن اس کے بعد انہوں نے کہا ہمیں شک ہے او رلفظ ” مریب “ کے ساتھ اپنی بات مکمل کی ، یہ دونوں چیزیں آپس میں کیا مناسبت رکھتی ہیں ؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تردد و شک کا اظہار د رحقیقت عد م ایمان کی علت ہے کیونکہ ایمان کے لئے یقین کی ضرورت ہے اور شک اس میں رکاوٹ ہے ۔
گزشتہ آیت میں چونکہ مشرکین اور کفار نے شک کو بنیاد قرار دیتے ہوئے عدم ایمان کا اظہار کیا لہٰذا بعد والی آیت میںبلا فاصلہ مختصر سی عبارت میں واضح دلیل پیش کرکے ان کے شک کی نفی کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ کیا اس خدا کے وجود میں شک کرتے ہوکہ جو آسمانوں اور زمین کاپیدا کرنے والا ہے ( قَالَتْ رُسُلُھُمْ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔
”فاطر“ در اصل شگاف کرنے والے کے معنی میں ہے لیکن یہاں پیدا کرنے والے کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے کہ جو ایک حساب شدہ پرگرام کے تحت کسی چیز کو پید اکرتا ہے اور پھر اس کی حفاظت کرتا ے کیونکہ اس کے وجود کی بر کت اور نور ہستی سے ظلمت ِ عدم چھٹ جاتی ہے اور شگافتہ ہو جاتی ہے جیسے سپیدہٴ سحر ظلمت ِ شب کا پر دہ چاک کردیتا ہے اور جیسے کھجور کا خوشہ اپنے غلاف کو شگافتہ کردیتا ہے اسی لئے عرب اسے ”فطر“ ( بر وزِ ”شتر“) کہتے ہیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ”فاطر“ جہان کے ابتدائی مادہ کے ٹکڑے میں شگاف کرنے کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ جدید سائنس کہتی ہے کہ مادہٴ عالم مجموعی طو رپر باہم پیو ستہ چیز تی کہ جو بعد میں شگافتہ ہو کر مختلف کرّوں کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔
بہر حال قرآن دیگر اکثر مواقع کی طرح خدا کے وجود اور صفات کو ثابت کرنے کے لئے یہاں نظام ِ عالمِ ہستی اور آسمانوں اور زمین کی خلقت کا ذکر کرتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خدا شناسی کے مسئلے میں ا س سے زیادہ زندہ اور زیادہ روشن کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ اس عجیب و غریب نظام کا ہر گوشہ اسرار سے معمور ہے کہ جو زبان ِ حال سے پکا پکار کر کہتا ہے کہ سوائے ایک قادرِ حکیم اور عالم ِ مطلق کے کوئی بھی ایسی قدرت پیش نہیں کرسکتا ۔ اسی بناء پر جس قدر انسانی علم ترقی کررہا ہے اتنے ہی اس نظام کے دلائل آشکار ہورہے ہیں اور یہ امر ہمیش ہر لمحہ خدا سے نزدیک کرتا ہے ۔
واقعاً قرآن کسی قدر عجائب و غرائب کا حامل ہے کہ جس خدا شناسی اور توحید کی بحث کو اسی ایک جملے میں استفہام ِ انکاری کی صورت میں ذکر کیاہے ۔”افی اللہ شک فاطر السٰموٰت و الارض “
وہ جملہ کہ جس کے لئے تجزیہ و تحلی لاور وسیع بحث کے لئے ہزار ہا کتابیں بھی کافی نہیں ہےں ۔
اس کے بعدمنکرین کے لئے دوسرے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ۔ یہ اعتراض پیغمبرانِ الہٰی کی رسالت کے بارے میں ہے ( کیونکہ انہیں توحید کے بارے میں بھی شک تھا او ردعوت ِ پیغمبر کے بارے میں بھی ) ۔
یہ مسلم ہے کہ دانا و حکیم پر وردگار ا پنے بندوں کو ہر گز رہبر کے بغیر نہیں رہنے دیتا بلکہ ” وہ انبیاء بھیج کر تمہیں دعوت دیتا ہے تاکہ تہیں گناہوں اور آلوگیوں سے پاک کرے اور تمہارے گناہ بخش دے “ (یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ ) ۔3
اور اس کے علاوہ ”تمہیں معین زمانے تک باقی رکھے “ تاکہ تم اپنے کمال اور ارتقاء کی راہ طے کرسکو اور اس زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو (وَیُؤَخِّرَکُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی) ۔
در حقیقت دعوت انبیاء کے دو اہداف تھے ۔ ایک گناہوں کی بخشش یعنی انسا ن کے جسم و روح اور زندگی کی پاکیز گی اور دوسرا مقررہ مدت تک زندگی کہی بقا ۔ اور یہ دونوں در اصل ایک دوسرے کی علت و معلوم ہیں کیونکہ وہی معاشرہ باقی رہ سکتا ہے جو گناہ و ظلم سے پاک ہو۔
تاریخ میںبہت سے ایسے معاشرے تھے جو ظلم و ستم ، ہوس بازی اور طرح طرح کے گناہوں کی بناء پر” جواں مرگ“ کا شکار ہو گئے اور قرآن اصطلاح میں وہ ”اجل مسمی“ تک نہ پہنچ سکے ۔
امام صادق علیہ السلام سے اس سلسلے میں ایک جامع اور جاذب ِ نظر حدیث منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
من یموت بالذنوب اکثر مما یموت بالاجال، ومن یعیش بالاحسان اکثر ممن یعیش بالاعمال
جو لوگ گناہوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں ان کی تعداد طبعی موت مرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے اور وجو نیکی کے باعث زندہ رہتے ہیں ( اور طویل عمر پاتے ہیں ) ان کی تعداد عام عمر کے ساتھ زندہ رہنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ 4
امام صا دق علیہ السلام ہی سے منقول ہے :
ان الرجل یذنب الذنب فیحرم صلٰوة اللیل و ان العمل السیء اسرع فی صاحبہ من السکین فی اللحم ۔
بعض اوقات انسان گناہ کرتا ہے اور نیک اعمال سے مثلاً نما زتہجد سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ( جان لو کہ ) براکام انسان کی تباہی و بر بادی میںگوشت کے لئے چھری سے زیادہ تیز ہوتا ہے ۔ 5
ضمناًاس آیت میں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دعوت ِ انبیاء پر ایمان لانا اور ان کے پروگراموں پر عمل کر نا” اجل معلق“ کو روکتا ہے اور حیات ِ انسانی کو ”اجل مسمی“تک جاری و ساری رکھتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی ایک دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے بد ن کی توانائی کے مطابق اختتام ِ عمر تک پہنچے اور دوسری ’ ’ اجل معلق “ ہے مختلف عوامل یا ر کاوٹوں کی وجہ سے انسانی عمر کا راستے ہی میںختم ہو جا نااور ایسا عام طور پرخود اس کے بغیر سوچے سمجھے کئے گئے اعمال کی وجہ سے اور طرح طرح کے گناہو کے باعث ہوتا ہے ۔ اس کے بارے میں ہم سورہ انعام کی آیہ ۲ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود ہٹ دھرم کفار نے اس حیات بخش دعوت کو قبول نہ کی اکہ جس میں واضح طور پر منطبق ِ توحید موجود تھی ۔ اور اپنے انبیاء کو ایسا جواب دیا کہ جس سے ان کی ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے آثار جھلکتے تھے ۔ کہنے لگے -: تم تو ہم جیسے بشر ہو ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ( قَالُوا إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُنَا ) ۔علاوہ ازین ”تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے روکو کہ جس کی ہمارے آباء اجداد پوجا کرتے تھے ( تُرِیدُونَ اٴَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا ) ۔
بہر حال ان سب امور سے قطع نظر ” تم ہمارے لئے کوئی واضح دلیل لاوٴ“ (فَاٴْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِینٍ ) ۔
لیکن ہم نے با رہا کہا ہے ( اور قرآن نے بھی صراحت کے ساتھ بیان کیاہے ) کہ انبیاء و رسل کا بشر ہونا نہ صرف ان کی نبوت میں مانع نہیں بلکہ ان کی نبوت کی تکمیل کرنے والا امر ہے اور جو لوگ اس امر کی وانبیاء کی نبوت کے انکار کی دلیل سمجھتے تھے ان کا مقصد زیاد ہ تر بہانہ سازی تھا ۔
اسی طرح اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ عام طور پر آنے والی نسل کا علم گزشتگان سے زیادہ ہوتا ہے ان کا آباوٴ اجداد کی راہ و رسم کا سہارا لینا ایک اندھے تعصب ، بے وقعت بے ہودگی اور خرافات کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا یہ تقاضا کہ کوئی واضح دلیل پیش کریں ، اس بناء پر نہ تھا کہ انبیاء کے پاس کوئی واضح دلیل نہ تھی بلکہ ہم با رہا آیاتِ قرآنی میں پڑھتے ہیں کہ بہانہ جو لوگ واضح دلائل اور ”سلطان مبین“ کا انکار کرتے تھے اور ہر وقت نئی دلیل اور کسی نئے معجزے کی فرمائش کرتے رہتے تھے تاکہ اپنے لئے فرار کی راہ پیدا کرسکیں ۔ بہر حال آئندہ آیات میں ہم پڑھیں گے کہ انبیاء ان کا جواب کس طرح دیتے تھے ۔

 

 


۱۔واضح ہے کہ ” ان تکفروا “ جملہ شرطیہ ہے اور اس کی جزاےوٴء محذوف ہے اور ” ان اللہ لغنی حمید“ اس پر دلالت کرتا ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا :ان تکفروا  لا تضروا للہ شیئ
2۔جملہ ”لایعلم الا اللہ “ ممکن ہے پہلے جملے پر معطوف ہو اور واوٴ حذف ہو گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے جملے کے لئے جملہ ٴ وصفیہ کی شبیہ ہو۔
اس میں شک نہیں کہ قوم نوح، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی قوموں کے کچھ حالات ہم تک پہنچے ہیں لیکن مسلم ہے کہ بیشتر حصہ ہم تک نہیں پہنچا کہ جس سے صرف خدا ہی آگاہ ہے ۔ گزشتہ اقوام کی تاریخ میں اس قدر اسرار، خصوصیات اور جزئیات تھیں کہ شاید وہ کچھ کہ جو ہم تک پہنچا ہے ا س کے مقابلے میں جو نہیں پہنچا بہت ہی کم او رنا چیز ہے ۔
3۔اس بارے میں کہ ” لیغفرلکم من ذنوبکم“ میں ”من “ کاکیا مفہوم ہے ، مفسرین میں اختلاف ہے ۔ بعض اسے تبعیض کے معنی میں لیتے ہیں یعنی ”تمہارے بعض گناہوں کو بخش دے گا “۔ لیکن اگر اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ایمان لانا تمام گناہوں کی بخشش کا باعث ہے ، تو یہ احتمال بہت بعید معلو ہوتا ہے ۔ (” الاسلام یجب عما قبلہ “ اسلام ماقبل کے گناہ ساقط کردیتا ہے )بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ ”من“ بدلیت کے معنی میں ہے ، اس کے مطابق اس جملے کامعنی یہ ہو گا : ”خدا تمہیں دعوت دیتا ہے کہ ایمان لانے کے بدلے تمہاے گناہ بخش دے “۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں ”من “ زائدہ ہے اور تاکید کے لئے آیا ہے یعنی ” خد اتمہیں ایمان کی طرف دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے تمام گناہ بخش دے ۔ یہ آخر ی تفسیر تمام تفاسیر سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
4۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۸ ۔
5۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۸ ۔
سوره ابراهیم / آیه 11- 12 سوره ابراهیم / آیه 8- 10
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma