فیلسوف نماھا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
کامیابی کا راز
تفسیر نمونہمیری پہلی کتاب ”جلوہ حق“

فیلسوف نماھا

حوزہ علمیہ قم میں ایک ایسے جلسہ میں شرکت کی جس میںکچھ علماء و فضلاء موجود تھے اور وہ میرے ہم مباحث بھی تھے ، اس جلسہ میں زمانہ حاضر کی بزرگ شخصیتیں بھی موجود تھیں ۔ انہیں میں سے امام موسی صدراور آج کے بزرگ علماء بھی موجود تھے ۔
وہاں پر کمیونسٹ سے متعلق بحث ہونا تھی اور اس بحث کے بیان ہونے کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے پڑوسی ملک روس کے کمیونسٹی افکار (پہلوی سلسلہ حکومت کے زمانے میں جو دین کے کمزور ہونے کا سبب تھا )بہت تیزی کے ساتھ ایران میں پھیل رہے تھے ”حزب تودہ“اور سارے کمیونسٹوں نے اپنی تہذیبی سر گرمیاں کو وسیع طور سے تمام جگہوں خصوصا یونیورسٹیوں میں پھیلانا شروع کردیا تھا اور کافی تعداد میں ان کے مجلے بھی منتشر ہوتے تھے اس میں سے کچھ کمیونسٹی راہنماؤں کے ترجمے اور کچھ ان کے ایرانی ہوا خواہوں کی تالیفات تھیں ۔
آخر میں ان کی جسارتیںحدسے زیادہ بڑھ گئیں اور وہ منطقی بحثوں کی حدود سے بھی تجاوز کر گئے اور مقدسات مذہب کی شدید توہین کرنے پر کمر بستہ ہوگئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کمزورشدہ اسلام ابھی ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، یہ بحثیں حوزہ علمیہ (دینی مدارس) میں بیان ہونے لگیں اور حوزہ علمیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان امواج کے مقابلے میں سینہ سپر ہوجائے ۔
مرحوم علامہ طباطبائی اور ان کے قوی شاگرد مرحوم علامہ مطہری جیسی شخصیتیں ان امواج کے مقابلے میں کھڑی ہوگئیں اور کتاب ”اصول فلسفہ اور روش رئالیسم“، اس فلسفی اہم کام کا نتیجہ ہے ۔
ہم نے بھی اپنے دوستوں کی طرح ان کے عقاید کی تحقیق کرنا شروع کردی ، ہم نے ہفتہ وار ایک جلسہ رکھا جس سے ان کی کتابوں کے دقیق مطالعہ اورپوری طرح سے آشنائی کے بعد نتائج کو پیش کرتے تھے اور پھر اس پر بحث و گفتگو ہوتی تھی ۔ میں نے اپنے دوستوں سے اجازت طلب کی کہ میٹریالیزم اور کمیونسٹوں کے بارے میںکچھ لکھ کر لاؤں اور جلسہ میں پڑھوں، اگر اس میں کوئی اشکال و اعتراض ہوتو آپ لوگ اس کو بیان کریں تاکہ اس اعتراض کو دور کیا جاسکے، میں نے یہ کام انجام دیا جس کا نتیجہ ”فیلسوف نما ھا“ کتاب کی شکل میں ظاہرہوا ، اس کتاب میں میٹریالیزم اور کمیونسٹوں کے نظریات پر تنقید کی گئی ہے، حاضرین جلسہ میں سے اگر کسی کو میرے مطالب پر اعتراض ہوتا تھا تو میں اس کی اصلاح کرتا تھا اور پھر اس کو ایک داستان کی شکل میںڈھالتا تھا تاکہ وہ لوگوں کو اپنی طرف جذب کرسکے ۔ اور جب یہ کتاب منتشر ہوئی تو یہ میری دوسری کتاب تھی جس کا بہت زیادہ استقبال ہوا ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مرحوم شہید مطہری نے مجھ سے کہا: مجھے آپ کی کتاب ”فیلسوف نما ھا“ پسند آئی لہذا میں نے اس کو سال کی بہترین کتاب تجویز کرنے والی کمیٹی کو دیا(جس میں یونیورسٹی کے تمام اساتید تھے)میرا دل چاہتا ہے کہ یہ یونیورسٹی والے جان لیں کہ ہمارے حوزہ علمیہ میں بھی ایسے ذہین اور مفکر اشخاص موجود ہیں جو یونیورسٹی کے بہترین مفکرین کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
مرحوم شہید مطہری نے یہ کام انجام دیا اور اس کتاب کو اس سال کی بہترین کتاب ہونے کا رتبہ ملااور اسے ایک عالی ترین انعام سے نوازا گیا اور اس سے پہلے سال بھی کتاب ”اصول فلسفہ(و روش رئالیسم)جس میں علامہ طباطبائی(قدس سرہ) اور شہید مطہری(رضوان اللہ)کی بحثیں تھیں اس مقابلہ میں پہونچی اور اسے بھی بہت بڑا انعام(ایوارڈ) ملاتھا ۔اگر چہ بعد میں بدخواہوں نے اس کے بارے میں بہت سی جھوٹی باتیں بنا ڈالیں ۔
مجلہ ٴ مکتب اسلام(طاغوتی دشت میں ایک چشمہ)
شاہ پہلوی کے تاریک دور میں جب فکری انحطاط اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا اس وقت بڑی شدت سے احساس ہوتا تھا کہ کوئی ایسا دریچہ ہو جس سے نور علم کی تابش ہوسکے،لہذا ہم نے بہت سے دلسوز اور ہمدردعالم و فاضل دوستوں کو جمع کیا اور ارادہ کیا کہ عقایدی انحرافات اور اخلاقی مفاسد سے جنگ کے لئے بعض مراجع اور بعض نیک تجار کی مالی مدد سے ایک دینی مجلہ منتشر کیا جائے ۔
یہ مجلہ اس وقت نکلنا شروع ہوا جب ستمشاہی حکومت کے تاریک ایام اپنے پورے زوروں پر تھے اس زمانے میں تقریبا کوئی بھی قابل ملاحظہ دینی مجلہ نہیں تھا جو پورے ایران میں پہنچتا ۔ تہران کے کچھ نیک تاجروں کی مدد سے تقریبا چالیس سال پہلے اس مجلہ نے کام کرنا شروع کیااور چونکہ مسلمان، دینی تعلیمات کے پیاسے تھے اوریہ مجلہ تپتے ہوئے صحرا میں نصیب ہوجانے والے ایک جام کی مانند یا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک مشعل کی طرح تھا لہذا اس کو بہت زیادہ سراہایا گیا یہ مجلہ ایسا مقبول ہوا جس کی ہمیں امید تک نہیں تھی ۔
مجلہ کی تعداد دو ہزار نسخوں سے شروع ہوئی اور پھر بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ ہم ایک لاکھ سے زیادہ مجلے چھاپنے لگے اور ان کو پورے ایران میں بھیجا جانے لگا اس مجلے نے مدارس اور یونیورسٹی سے لے کر اداروں اور بازاروں میں ایک عظیم موج ایجاد کردی تھی ۔
یہ واقعہ مرحوم آیة اللہ العظمی بروجردی کے زمانے میں پیش آیاچونکہ روشن فکری کی تحریک حوزہ اور علماء کے درمیان پیدا نہیں ہوئی تھی لہذا ہم نے اور ہمارے کچھ دوستوں نے سوچا کہ شاید آیة اللہ العظمی بروجردی اس مجلہ کی مخالفت کریں اس وجہ سے ہم لوگ بہت پریشان تھے لہذا ہم نے مجلہ ان کی خدمت میں پیش کیا اوران کے عکس العمل کے منتظر ہوگئے ، ہم لوگ اس سے غافل تھے کہ وہ بزرگ اور قدرتمند مجتہداس سے کہیں زیادہ روشن فکر تھے جس کی ہم اور دوسرے لوگ فکر کررہے تھے ۔
انہوں نے کچھ دوستوںکے ذریعہ پیغام بھیجا: میں نے تمہارے مجلے کے کچھ شماروں کا مطالعہ کیا یہ مجلہ بہت اچھا ہے اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کی حمایت کروں گا، ان کی حمایت ہمارے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی کیونکہ مجلہ ، عام مطبوعات کے طور طریقہ کے برخلاف بغیر کسی امتیاز کے شایع ہوا تھا اور حکومت وقت ایسے مجلہ کو نشر کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، ہم اس انتظار میں تھے کہ بہت جلدی اس کو بند کرنے کا حکم صادر ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوا ۔
جب ظالم حکومت متوجہ ہوئی کہ اسلامی مجلہ بہت تیزی کے ساتھ ایک بڑی قدرت میں تبدیل ہونے والا ہے اور وہ حکومت کے لئے خطرہ ایجاد کرسکتا ہے اور مذہبی فکر کو سب جگہ پر عام کررہا ہے تو انہوں نے بہت شدید ردعمل ظاہر کیا اور مجلہ کو متوقف کردیا اور ہمیں یہ بات معلوم تھی کہ وہ امتیاز نہ ہونے والی دلیل کو بیان کریں گے اور اگر امتیاز کی درخواست کریں گے تو بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے ۔
ہم نے اس بات کو آیة اللہ العظمی بروجردی تک پہنچادیا انہوں نے قم کی پولیس کے اعلی افسر کو بلاکر اس سے کہا : اس مجلہ کو فورا آزاد ہوجانا چاہئے ، ظالم شاہ کی حکومت کے کارندے جانتے تھے کہ آیة اللہ العظمی بروجردی کی دھمکی واقعی ہے لہذا میں نے دیکھا کہ پولیس کا رئیس مجھے تلاش کر رہا ہے اور اس نے مجھ سے کہا : آپ حکم دیں کہ یہ مجلہ بہت جلدی شایع ہوجائے میں اب زبانی کہہ رہا ہوںاور پھر لکھ کر بھی دیدوں گا ہم نے بغیر کسی اجازت کے مجلہ کو دوبارہ شایع کیا لیکن مشکلات ابھی بھی باقی تھیں یہاں تک کہ ان بزرگ مجتہد کے زیادہ فشار کی وجہ سے حکومت نے اس مجلہ کےلئے مجبورا امتیاز بھی صادر کردیا اور سب سے عجیب بات یہ کہ وزارت داخلہ کے شعبہ مطبوعات میں موجود اس مجلے کی فائل پر لکھا تھا:”اس مجلہ کوآیة اللہ العظمی بروجردی کی عنایات حاصل ہیں“ اور یہی بات ہماری مشکلات کا حل بن گئی تھی ۔
اس مجلہ میں ہمارے دوست وہ لوگ تھے جن کا شمار بعد میں بہت بڑے علماء میں ہونے لگا تھا ، امام موسی صدر، مرحوم آیة اللہ شہید مطہری، مرحوم آیة اللہ شہید بہشتی، آیة اللہ شہید مفتح یہاں تک کہ بزرگ اساتید جیسے علامہ طباطبائی نے بھی اس مجلہ میں مقالات لکھ کر اس کے اہداف کو آگے بڑھایا ۔ بعد میں جب ہم نے دوسرے لوگوں سے رابطہ کیا تو ہمیں احساس ہوا کہ انقلاب کی راہ کو ہموار کرنے میں ایک چیز یہی مکتب اسلام مجلہ تھا اس لئے کہ اس وقت کی بڑی شخصیتیں جن کا اس ملک کے عہدہ داروں میں شمار ہوتا ہے جب وہ ہم سے رابطہ کرتے ہیں : تو کہتے ہیں کہ ہم اس مجلہ کو پڑھ کر پروان چڑھے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حوزہ علمیہ قم کی زبان گویا یہی مجلہ تھی یہ مجلہ اب بھی شایع ہوتا ہے(لیکن اب اس کی زحمت ہمارے کچھ دوست اٹھاتے ہیں اور میں بعض مشکلات کی وجہ سے جو اس وقت کے حالات نے میرے لئے فراہم کردی ہیں اس میں ہاتھ بٹانے کی طاقت نہیں رکھتا)البتہ اب یہ مجلہ اتنی زیادہ تعداد میںبھی نہیں چھپتا کیونکہ الحمدللہ اس وقت اس کے جیسے اور مجلے حوزہ علمیہ اور حوزہ علمیہ کے باہر اتنی کثرت سے شایع ہوتے ہیںاور اس کا خلاء ان کے ذریعہ پوراہوجاتا ہے لیکن شاہ کے زمانہ کی تاریکی میں درخشاں اسی مجلہ کا نور تھا جو سب کو روشنی دے رہا تھا ۔

 

تفسیر نمونہمیری پہلی کتاب ”جلوہ حق“
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma