چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
بے گناہی کے پاداش میں قیدزوجہ مصر کی ایک اور سازش

۱۔ طاغوت کے پرانے ہتھکنڈے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کی بیوی نے اور مصر کی دوسری عورتوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے مختلف طریقے آزمائے، اظہارِ عشق کیا، شدید محبت ظاہر کی، اور تسلیم محض کا اظہار کیا، پھر لالچ دینے کی کوشش کی اور پھر ڈرایا دھمکایا، دوسرے لفظوں میں انہوں نے شہوت، زر اور زور کے تمام حربے استعمال کئے ۔ یہی ہر خود غرض اور زمانے کے طاغوت کا متفقہ اصول ہے، یہاں تک کہ ہم نے خود بارہا دیکھا ہے کہ وہ مردانِ حق کا جھکانے کے لئے پہلے تو انتہائی نرم دلی اور خوش روئی کا مظاہرہ کررتے ہیں، پھر لالچ اور طرح طرح کی امداد کے ذریعے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کچھ نہ بن پائے تو پھر اسی موقع پر نہایت سخت دھمکیاں دیتے ہیں اور ہرگز کوئی لحاظ نہیں رکھتے کہ یہ تضاد بیانی ہے اور وہ بھی ایک ہی مجلس میں، ان کا یہ طریقہ کس قدر بُرا، تکلیف دہ اور باعث تحقیرہے ۔
ان کے اس عمل کی دلیل واضح ہے، وہ تو اپنے ہدف کے متلاشی ہوتے ہیں لہٰذا ان کے لئے ذریعہ اہمیت نہیں رکھتا ، دوسرے لفظوں میں وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ہر ذریعے سے فائدہ اٹھانا جائز سمجھتے ہیں ۔
اس دروان کمزور اور کم رُشد افراد پہلے ہی مراحل میں یا آخری مرحلہ میں جھک جاتے ہیں اورہمیشہ کے لئے ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں لیکن اولیائے حق نور ایمان کے زیرِسایہ حاصل کردہ عزم وشجاعت سے ان مراحل میں آگے نکل جاتے ہیں اور تمام تر قاطعیت سے اپنے سازش ناپذیر ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور آخری سانس تک کمال کی طرف رواں دواں رہتے ہیں ۔
۲۔ تقویٰ یہ نہیں کہ-
بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب تک وہ گڑھے کے کنارے ہوتے ہیں تو اپنے تئیں بہت پاک دامن قرار پاتے ہیں اور تقویٰ وپارسائی کی ڈینگیں مارتے ہیں اور زوجہ  جیسے آلودہ افراد انہیں ”ضلال مبین“ میں دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ان کا اپنا پاؤں گڑھے میں جاپڑتا ہے تو پہلے ہی پاؤں پر وہ پھسل جاتے ہیں، یہ لوگ عملی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ ان کی باتیں زبانی دعویٰ سے زیادہ کچھ نہ تھیں ۔
زوجہ  تو کئی برس یوسف کے ساتھ رہنے کے بعد ان کے عشق میں گرفتار ہوئی لیکن اسے طعنے دینے والیاں تو پہلی نشست میں ہی مبتلائے عشو ہوگئیں اور ترنج بین کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں ۔
۳۔یوسف محفلِ زنان میں کیوں آئے؟
یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے وہ یہ کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے زوجہ  کی بات کیوں مانی اور اس بات پر کیوں آمادہ ہوگئے کہ زوجہ  مصر کی محفل میں قدم رکھیں کہ جو گناہ کے لئے برپا کی گئی تھی یا وہ ایک گنہگار کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے تھی ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس محل میں یوسف (علیه السلام) کی حیثیت ایک غلام اور بردہ کی تھی، وہ مجبور تھے کہ وہاں خدمت کریں ہوسکتا ہے زوجہ  نے خدمت کے بہانے ہی سے ایسا کیا ہو کہ انہیںکھانے کے برتن یا پینے کی کوئی چیز لانے کے بہانے محفل میں لے گئی ہو جب کہ حضرت یوسف (علیه السلام) اس منصوبے اور سازش سے آگاہ نہ تھے ۔
۴۔ ”یدعوننی الیہ” اور ”کیدھن“ کا مفہوم
”یدعوننی الیہ“ کا معنی ہے ”جس چیز کی یہ عورتیں مجھے دعوت دیتی ہیں“ اور”کید ھن“ کامعنی ہے”ان عورتوں کا منصوبہ“ ان الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مصر کی ہوس باز عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لینے اور یوسف (علیه السلام) کی فریفتہ ہونے کے بعد باری باری خود بھی وہی کام کیا جووجہ  نے کیا تھا اور انہوں نے بھی یوسف کو دعوت دی کہ وہ ان کے سامنے یا زوجہ  کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور یوسف (علیه السلام) نے ان سب کو ٹھکرادیا ۔
یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ  کی بیوی اس گناہ میں اکیلی نہ تھی اور کئی ایک اس کی شریک گناہ تھیں ۔
۵۔ یوسف (علیه السلام) خدا کی پناہ میں
جب انسان مشکلات میں گھرا ہوا ور کسی مصیبت کے کنارے تک پہنچ جائے تو اسے صرف خدا کی پناہ لینا چاہیئے اور اسی سے مدد طلب کرنا چاہیئے اگر اس کا لطف وکرم اور نصرت ومدد نہ ہوتو کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا، یہ وہ سبق ہے جو حضرت یوسف (علیه السلام) جیسے پاک دامن بزرگوار نے ہمیں دیا ہے، وہی ہیں جو کہتے ہیں:پروردگارا! اگر تُو ان کے منحوس منصوبوں سے نجات نہ دے تو مَیں بھی ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور اگر تونے مجھے ان کی ہلاکت خیز یوں میں تنہا چھوڑ دے تو طوفانِ حوادث مجھے اپنے ساتھ لے جائے ، تُو ہے کہ میرا حافظ ونگہبان ہے نہ کہ میری طاقت اور تقویٰ۔
لطف الٰہی سے وابستگی کی یہ حالت بنداگانِ خدا کو لامحدود طاقت اور عزم عطا کرنے کے علاوہ اس کے الطافِ خفی سے بہرہ ور ہونے کا سبب بنتی ہے، وہ الطاف کہ جن کی تعریف وتوصیف ناممکن ہے ان کاصرف مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرھ ان کی تصدیق ہوسکتی ہے، ایسے ہی لوگ اس دنیا میں بھی لطفِ الٰہی سے سائے میں ہیں اور اُس جہان میں بھی لطفِ پروردگار سے ہمکنار ہوں گے، ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مروی ہے:
سبعة یظلھم اللّٰہ فی ظل عرشہ یوم لایظل الا ظلہ: امام عادل، وشاب ننشا فی عبادة اللّٰہ عزوجل، ورجل قلبہ متعلق بالمسجد اذا خرج منہ حتیٰ یعود الیہ، ورجلان کانا فی طاعة اللّٰہ عز وجل فاجتمعا علیٰ زلک وتفرقا، ورجل ذکر اللّٰہ عزوجل خالیا ففاضت عیناہ ، ورجل دعتہ امراة ذات حسن وجمال فقال انی اخاف اللّٰہ تعالیٰ، ورجل تصدیق بصدقة فاخفاھاحتیٰ لا تعلم شمالہ ماتصدیق بیمینہ!
جس روز عرش ِالہٰی کے سائے علاوہ کوئی سائی نہ ہوگا اس دن اللہ تعالیٰ سات طرح کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا:
امام عادل،وہ جوان کی جس نے ابتدائے عمر ہی سے خدا کی بندگی میں پرورش پائی ہو،وہ شخص کہ جس کا دل مسجد اور عبادت ِالٰہی کے مرکز سے بندھا ہو، جب وہ اس سے نکلتا ہو تو اس کے خیال میں رہتا ہو یہاں تک کہ اس کی طرف لوٹ آتاہو،وہ لوگ جو فرمانِ خدا کی اطاعت میں مِل جُل کر کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا ہوتے وقت ان کا روحانی رشتہ اتحاد اسی طرح برقرار رہتا ہو،وہ شخص کہ جو پروردگار کا نام سنتے وقت جس کی آنکھوں سے(احساسِ مسئولیت سے یا گناہوں کے خوف سے ) آنسو جاری ہوجاتے ہوں،وہ شخص کہ جسے حسین وجمیل عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ کہے کہ مَیں خدا سے ڈرتا ہوں، اوروہ شخص جوضرورت مندوں کی مدد کرتا ہو اور اپنے صدقے کو مخفی رکھتا ہو کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔(1)

 

۳۵ثُمَّ بَدَا لَھُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَاٴَوْا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّہُ حَتَّی حِینٍ۔
۳۶ وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیَانِ قَالَ اٴَحَدُھُمَا إِنِّی اٴَرَانِی اٴَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی اٴَرَانِی اٴَحْمِلُ فَوْقَ رَاٴْسِی خُبْزًا تَاٴْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ نَبِّئْنَا بِتَاٴْوِیلِہِ إِنَّا نَرَاکَ مِنَ الْمُحْسِنِینَ۔
۳۷ قَالَ لَایَاٴْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِہِ إِلاَّ نَبَّاٴْتُکُمَا بِتَاٴْوِیلِہِ قَبْلَ اٴَنْ یَاٴْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَھُمْ بِالْآخِرَةِ ھُمْ کَافِرُونَ۔
۳۸ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِی إِبْرَاھِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا اٴَنْ نُشْرِکَ بِاللهِ مِنْ شَیْءٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللهِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَشْکُرُون۔

ترجمہ

۳۵۔جب (وہ یوسف کی پاکیزگی کی )نشانیاں دیکھ چکے تو انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اسے ایک مدت تک قید خانے میں رکھیں ۔
۳۶۔اور دونوجوان اور اس کے ساتھ قید خانے میںداخل ہوئے ام میں سے ایک نے کہا: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ شراب کے لئے (انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں روٹیاں اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے ان میں سے کھارہے ہیں، ہمیں ان کی تعبیر بتاؤ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم نیکو کاروں میں سے ہو۔
۳۷۔یوسف نے کیا: اس سے پہلے کہ تمہارے کھانے کا راشن تم تک پہنچے مَیں تمہیں تمہارے خواب کی تعبیر سے آگاہ کردوں گا، یہ وہ علم ہے کہ جس کی تعلیم میرے پروردگارنے مجھے دی ہے، مَیں نے ان لوگوں کے دین کو ترک کر رکھا ہے جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں(اسی لئے مَیں ایسی نعمت کے لائق ہوا ہوں)
۳۸۔مَیں نے اپنے آباء ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کی پیروی کی ہے، ہمارے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ کسی کوخدا کا شریک قرار دیں، یہ خدا کا ہم لوگوں پر فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے ۔

 

 


1۔ سفینة البحار، ج۱،ص ۵۹۵(ظل)۔

 

بے گناہی کے پاداش میں قیدزوجہ مصر کی ایک اور سازش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma