چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
مصر کی بیوی کا عشقِ سوزاں مصر کے محل میں

۱۔  مصر کا نام کیوں نہیں لیا گیا:
زیرِ نظر آیات میں جاذبِ توجہ مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں  مصر کا نام نہیں لیا گیا ہے کہ وہ شخص جس نے مصر سے یوسف کو خریدا لیکن آیت میں یہ بےان نہیں ہوا کہ یہ شخص کون تھا، آئندہ آےات میں ہم دیکھتے ہےں کہ ایک ہی دفعہ اس شخص کے منصب سے پردہ نہیں اٹھتا بلکہ تدریجاََ اس کا تعارف کرواےا گیا ہے مثلا آیہ ۲۵ میں فرمایا گیا ہے:
<والفیا سید ھا لدا الباب
جس وقت یوسف نے زلیخا کے عشق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور بےرونی دروازے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا تو اس عورت کے شوہر کو اچانک دروزے پر دےکھا ۔
جب ان آےات سے گزرتے ہوے آیہ ۳۰ تک پنچتے ہےں تو اس میں ---”امراة العزیز“ (عزیز کی بیوی) کی تعبےر آئی ہے ۔
یہ تدرےجی بیان یا تو اس لے ہے کہ قرآن اپنی سنت کے مطابق ہر بات کو ضراری مقدار کے مطابق بیان کرتا ہے جو کہ فصاحت وبلاغت کی نشانی ہے اور ےا یہ کہ جسے آج کل بھی ادبےات کا معمول ہے کہ ایک داستان بیان کرتے ہوے اسے سر بستہ نکتے سے شروع کیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے میں تجسس پیدا ہوا ور اس کی پوری توجہ اس داستان کی طرف کھنچ جائے ۔
۲۔ علم تعبیرِ خواب اور  مصر کا محل:
دسرا سوال جومذکورہ بالا آیات سے پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ علمِ تعبیرِ خواب اور  مصر کے محل میں حضرت یوسف (علیه السلام) کی موجود گی کا کیا رابطہ ہے کہ اس کی طرف ”لنعلمہ“ کی ”لام“ کہ جو لامِ غایت ہے کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے ۔
لیکن اگر ہم اس نکتے کی طرف توجہ دیں تو ہوسکتا ہے مذکورہ سوال کا جواب واضح ہوجائے کہ خدائے تعالیٰ بہت سی علمی نعمات وعنایات گناہ سے پرہیز اور سرکش ہوا وہوس کے مقابلے میں استقامت کی وجہ سے بخشتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ نعمات کہ جو دل کی نورانیت کا ثمرہ ہیں، ایک انعام ہیں کہ جو خدا اس قسم کے اشخاص کو بخشتا ہے ۔
ابن سیرین تعبیر خواب جاننے میں بڑے مشہور ہیں ، ان کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ کپڑا بیچا کرتے تھے اور بہت ہی خوبصورت تھے، ایک عورت انہیں اپنا دل دے بیٹھی، بڑے حیلے بہانے کرکے انہیں اپنے گھر میں لے گئی اور دروازے بند کرلئے، لیکن انہیں نے عورت کی ہوس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا اور مسلسل اس عظیم گناہ کے مفاسد اس کے سامنے بیان کرتے رہے لیکن اس عورت کی ہوس کی آگ اس قدر سرکش تھی کہ وعظ ونصیحت کا پانی اسے نہیں بجھا سکتا تھا ۔
ابن سیرین کو اس چنگل سے نجات پانے کے لئے ایک تدبیر سوجھی، وہ اٹھے اور اپنے بدن کو اس گھر میں موجود گندگی کی چیزوں سے اس طرح کثیف ، آلودہ اور نفرت انگیز کر لیا کہ جب عورت نے یہ منظر دیکھا تو ان سے متنفر ہوگئی اور انہیں گھر سے باہر نکال دیا کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ابن سیرین جو تعبیرِ خواب کے بارے میں بہت فراست نصیب ہوئی اور ان کی تعبیر سے متعلق کتابوں میں عجیب وغریب واقعات لکھے ہوئے ہیں کہ جو اس سلسلے میں ان کی گہری معلومات کی خبر دیتے ہیں ۔
اس بنا پر ممکن ہے کہ یہ خاص علم وآگاہی حضرت یوسف (علیه السلام) کو  مصر کی بیوی کی انتہائی قوت جذب کے مقابلے میں نفس پر کنٹرول رکھنے کی بنا پر حاصل ہوئی ہو ۔
علاوہ ازیں اس زمانے میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار تعبیرِ خواب بیان کرنے والوں کے مرکز تھے اور یوسف (علیه السلام) جیسا ذہین نوجوان  مصر کے دربارمیں دوسرے کے تجربات سے آگاہیاور علمِ الٰہی سے فیض حاصل کرنے کے لئے روحانی طور پر تیار ہوسکتا تھا ۔
بہرحال یہ نہ پہلا موقع ہے، نہ آخری کہ خدانے جہادِ نفس کے میدان میں سرکش ہوا وہوس پر کامیابی حاصل کرنے والے اپنے مخلص بندے کو علوم ودانش کی ایسی نعمات وعنایات سے نوازا ہو کہ جنہیں کسی مادی ترازو سے نہیں تولا جاسکتا، مشہور حدیث ہے:
العلم نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب من یشاء۔
علم نور ہے خدا جس کے دل میں چاہتا ہے ڈالتا ہے ۔
یہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ یہ وہ علم ودانش نہیں جو استاد کے سامنے زانو تلمذ تہ کرکے حاصل کی جائے یا کسی کو بغیر کسی حساب وکتاب کے مل جائے، یہ تو انعامات ہیں، جہاد بالنفس میں سبقت لے جانے والوں کے لئے ۔
۳۔” بلوغ اشد“کیاہے ؟:
ہم کہہ چکے ہیں کہ ”اشد“ استحکام اور جسمانی وروحانی قوت کے معنی میں ہے اور ”بلوغ اشد“ اس مرحلے تک پہنچنے کے معنی میں ہے لیکن قرآن مجید میں اس کا اطلاق عمرِ انسانی کے مختلف مراحل پر ہوا ہے ۔
بعض اوقات یہ ”سنِ بلوغ“ کے معنی میں آیا ہے، مثلا ہم پڑھتے ہیں:
<وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ ۔
یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے حسن طریقے سے، جب تک کہ وہ حد بلوغ کو نہ پہنچ جائے(بنی اسرائیل: ۳۴)۔
کبھی چالیس سال کی عمرتک پہنچنے کے معنی میں استعمال ہواہے مثلا:
<حَتَّی إِذَا بَلَغَ اٴَشُدَّہُ وَبَلَغَ اٴَرْبَعِینَ سَنَةً ۔
یہاں تک کے بلوغ اشد کے مرحلے تک پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا،(احقاف:۱۵)۔
اور کبھی یہ لفظ بڑھاپے سے قبل کے مرحلے کے لئے آیاہے، ارشاد ہوتا ہے:
<ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا اٴَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُونُوا شُیُوخًا
اس کے بعد خدا تمہیں عالمِ جنین سے بچوں کی شکل میں باہر نکالتا ہے پھر تم جسم وروح کے استحکام کے مرحلے میں پہنچ جاتے ہو اس کے بعد بڑھاپے کے مرحلے میں،(المومن:۶۸)
تعبیرات کا یہ فرق ہوسکتا ہے اس بنا پر ہو کہ روح وجسم کے استحکام کے لئے انسان کئی مراحل طے کرتا ہے اور بلا شبہ اس میں سے ہر مرحلہ ایک حد بلوغ ہے اور چالیس سال کی عمر کے عام طور پر فکر وعقل پختہ ہوتی ہے دوسرا مرحلہ ہے اور اسی طرح انسان کی عمر ڈھلنے لگے اور وہ کمزوری کی طرف مائل ہو تو یہ ایک اور مرحلہ ہے لیکن بہرحال زیرِ بحث آیت جسمانی وروحانی بلوغ کے بارے میں ہے کہ جو حضرت یوسف (علیه السلام) میں جوانی کی ابتدا ہی میں پیدا ہوگیا تھا ، اس سلسلے میں فخرالدین رازی نے ایک بات کی ہے جو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:
چاند کی گردش کی مدت (جس میں وہ محاق تک پہنچتا ہے)۲۷دن ہیں، جب اسے چار حصوں میں تقسیم کریں تو ہر حصہ ۷ دن کا بنتا ہے (جس سے ایک ہفتہ بنتا ہے)۔
اسی لئے دانشمندوں نے بدن انسانی کے حالات کو سات سات سال پر مشتمل چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا دور اس وقت کا ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ضعیف و ناتوں ہو تا ہے جسم کے لحاظ سے بھی اور روھ کے لحاظ سے بھی، لیکن جب وہ سات سال کا ہوجاتا ہے تو اس میں فکر وہوش اور قوتِ جسمانی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔
دوسرا مرحلہ سات سال مکمل ہونے بعد شروع ہوتا ہے اور انسان اپنا تکامل وارتقاء جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے چودہ سال ہورے ہوجاتے ہیں ۔
تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو پندرہ سال کی عمر وہ جسمانی اور روحانی بلوغ کے مرحلے میں پہنچتا ہے، اس میں جسمانی شہوت حرکت میںآتی ہے اور(اور پندہ سال کی تکمیل پر ) وہ مکات ہوجاتاہے ، پھر وہ اپنا تکامل وارتقاء جاری رکھتا ہے یہان تک کہ تیسرا دور ختم ہوجاتا ہے ۔
چوتھا دور ختم ہونے اور ۲۸ سال کی مدت پوری ہونے پر جسمانی رشد ونمو کی مدت ختم ہوجاتی ہے اور انسان ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے ۔
یہ نیا مرحلہ توقف کا مرحلہ ہے اور یہی ”بلوغ اشد “ کا زمانہ ہے اور یہ حالتِ توقف پانچویں دور کے اختتام یعنی ۳۵سال تک جاری رہتی ہے (اور اس کے بعد تنزل کا دور شروع کا دور شروع ہوجاتا ہے )۔(1)
مندرجہ بالا تقسیم اگرچہ ایک حد تک قابلِ قبول ہے لیکن دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اول تو مرحلہ بلوغ دوسرے دور کے اختتام پر نہیں ہے، اسی طرح رشد جسمانی کی انتہا، جیسا کہ آج کل ماہرین فن کہتے ہیں ، ۵۲ سال ہے اور بعض روایات کے مطابق مکمل فکری بلوغ ۴۰ سال میں ہوتا ہے ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر جو کچھ سطور بالا میں کہا گیا ہے ایک ایساہماگیر شمارقانون شمار نہیں ہوتا جو سب اشخاص پر صادق آئے ۔
۴۔ نعمات الٰہی انبیاء کو بھی حساب کتاب سے ملتی ہیں:
آخری نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ ضروری ہے یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں جس وقت قرآن حضرت یوسف (علیه السلام) علم وحکمت دینے کے بارے میں بات کرتا ہے مزید کہتا ہے : ”ہم اس طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں“ یعنی نعماتِ الٰہی انبیاء تک جو بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ملتیں اور ہر شخص کو اس کی نیکو کاری اور اچھائی کی مقدار کے مطابق قبضِ الہٰی کے بحرِ بے کراں سے فیض ملتا ہے اور وہ اسی حساب سے اس سے بہرور ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت یوسف (علیه السلام) کو ان تمام مشکلات کے مقابلے میں صبرواستقامت کرنے کی وجہ سے وافر حصہ نصیب ہوا ۔

۲۳ وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی ھُوَ فِی بَیْتِھَا عَنْ نَفْسِہِ وَغَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللهِ إِنَّہُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ۔
۲۴ وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ۔

ترجمہ

۲۳۔اور جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا اس نے اس سے اپنے مطلب کے حصول کی خواہش کی اور دروازے بند کردئے اور کہا کہ اس چیز کی طرف جلدی آؤ جو تمہارے لئے مہیا ہے،(یوسف نے)کہا : مَیں خدا سے پناہ مانگتا ہوں وہ ( مصر)میرا صاحبِ نعمت ہے اور اس نے مجھے محترم جانا(تو کیا ممکن ہے کہ مَیں اس پر ظلم کروں اور اس سے خیانت کروں)یقینا ۻظالم کامیاب نہیں ہوں گے اور فلاح نہیں پائیں گے ۔
۲۴۔اس عورت نے تو یہ ارادہ کیا اور وہ بھی اگر پروردگار کی برھان نہ دیکھتا تو ارادہ کرتا، ہم نے ایسا اس لئے کیا تاکہ بدی اور فحشاء کو اس سے دور رکھیں کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا ۔


1۔تفسیر فخر رازی،ج ۱۸،ص۱۱۱۔

 

مصر کی بیوی کا عشقِ سوزاں مصر کے محل میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma