چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
نعمتوں کے باوجود کفران کیوں؟شیطان کے جال

۱۔ چند الفاظ کا مفہوم:
”استفزز“”استفزاز“ کے مادہ سے تحریک کرنا اور ابھارنا کے معنی میں ہے ۔ اس میں سریع اور سادہ تحریک کا مفہوم پنہان ہے لیکن در اصل یہ لفظ قطع و برید کرنے کے معنی میں ہے ۔ اس لیے جب کوئی کپڑا یا لباس پھٹ جائے تو عرب کہتے ہیں:
تفزز الثوب
تحریک پانے اور برانگیختہ ہونے کے معنی حق سے قطع ہونے اور باطل کی طرف ملتفت ہو جانے کی وجہ سے ہے ۔
”اجلب“”اجلاب“کے مادہ در اصل”جلبہ“ یعنی سخت قسم کی چیخ و پکار کے معنی میں ہے ۔”اجلاب“کے معنی ہے شور و غل مچا کر ہانکنا اور چَلانا ۔ بعض روایات میں ”جلب“سے منع کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰة جمع کرنے پر مامور شخص حقِ شرعی لینے کے لیے چراگاہ میں جائے تو چِلّائے نہیں کہ کہیں چراگاہ کے چوپائے وحشت زدہ ہوجائیں یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ گھڑ سواری کے مقابلے میں شریک کوئی بھی دوسرے کے گھوڑے کے سامنے غُل غپاڑہ نہ کرے تاکہ وہ خود دوڑ لگاتے ۔ (1)
”خیل“دو معانی میں آیا ہے ۔ گھوڑوں کے معنی میں اور گھڑ سواروں کے معنی میں ۔ یہاں البتہ دوسرے معنی میں ہے اور سوار لشکر کی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے برعکس ”رجل“ پیادہ لشکر کے معنی میں ہے ۔
البتہ شیطان کا سوار اور پیادہ لشکر کسی باقاعدہ فوج کے مفہوم میں نہیں ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ خود اس کی اپنی جنس میں سے اور انسانوں میں سے بہت سے افراد گمراہی اور بے راہ روی پھیلانے کے لیے اس کے مددگار ارو ساتھی ہیں ۔اس کے ان مددگاروں میں بعض زیادہ طاقتور ہیں کہ جو سوار لشکر کی طرح ہیں اور بعض نسبتاً سست ہیں کہ جو پیادہ لشکر کی طرح ہیں ۔
۲۔ وسوسے کے لیے شیطانی ذرائع:
مندرجہ بالا آیات میں اگر چہ مخاطب شیطان ہے اور خدا تعالیٰ تہدید آمیز لہجے میں اس سے کہتا ہے کہ تجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرلے مختلف ذرائع سے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ لیکن یہ درحقیقت تمام انسانوں کے لیے تنبیہ اور بیداری کا الارم ہے ۔ انہیں شیطانی ہتھکنڈوں سے آگاہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح وسوسے پیدا کرتا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں شیطانی ذرائع کے چا اہم اور بنیادی حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انسانوں سے فرمایا گیا ہے کہ وہ ان سے خبردار رہیں:
الف۔ شیطانی کا پہلا ہتکھنڈا پراپیگنڈا ہے:
ابھی ہم نے پڑھا ہے:”واستغفزز من استطعت منہم بصوتک“
بعض مفسرین نے اس جملے سے صرف ہوس انگیز گانوں اور موسیقی کا مفہوم لیا ہے لیکن اس کا مفہوم وسیع تر ہے ۔ اس میں سمعی اور صوتی ذرائع سے کیا جانے والا تمام تر گمراہ کن پراپیگنڈا شامل ہے ۔ آج کی دنیا ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کی دنیا ہے ۔ آج کی دنیا وسیع سمعی و بصری کی دنیا ہے ۔ آج کی دنیا میں آواز کے ذریعے کو استعمال کررہے ہیں ۔ یہ لوگ بہت زیادہ دولت اسی راستے پر خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ حق سے گمراہ کرسکیں، وہی راہِ حق کہ جو حریت و استقلال اور ایمان و تقویٰ کی راہ ہے ۔ وہ انسانوں کو بے ارادہ اور کمزور غلاموں میں بدل دینا چاہتے ہیں ۔
ب۔ شیطان کا دوسرا ہتھکنڈا فوجی قوت کا استعمال ہے:
شیطان کا یہ طرز عمل صرف ہمارے زمانے ہی میں نہیں ۔ فوجی طاقت ہمیشہ سے ظالموں اور جابروں کا اہم اور خطرناک ہتھیار رہا ہے ۔ جب بھی وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں فوری طور پر اپنی مسلح طاقتوں کو پکارتے ہیں اور ان علاقوں کی طرف روانہ کردیتے ہیں جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں میں آزادی اور استقلال کی تڑپ پیدا ہورہی ہے اور خطرہ ہے کہ وہ پھر سے آزادی حاصل نہ کرلیں ۔

۱۔ امریکہ نے ایران کے خلاف یہ فوج تیار کی تھی اسے انگریزی میں Rapid Deplyed Army کا نام دیا گیا تھا ۔ (مصحح) ۔
خود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سریع الحرکت فوج (۱)تیار کی گئی ہے جو بالکل ”اجلاب“ کا مفہوم رکھتی ہے ۔ اسی طرح مغرب کی بعض دیگر طاغوتی طاقتوں نے بھی خاص فوج تیار کی ہے تاکہ دنیا کے جس کسی حصے میں بھی ان کے غیر شرعی شیطانی مفادات کو خطرہ ہو اُسے وہاں بھیج سکیں اور حق کی ہر آواز اور حرکت کو دبا سکیں ۔ یہ جاسوس درحقیقت ان کا پیادہ لشکر ہے ۔ یہ طاقتیں اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا اپنے سچے بندوں سے وعدہ ہے کہ شیطان اور اس کی فوج ہرگز ان پر غلبہ حاصل نہیں کرسکے گی۔
ج۔ اقتصادی ہتھکنڈا:
یہ ظاہراً انسانی طرزِ عمل معلوم ہوتا ہے لیکندر حقیقت شیطانی اثر و نفوذ کے لیے مالی و اقتصادی امور میں شرکت کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
بعض مفسرین نے اموال میں شرکت سے صرف سود اور اولاد میں شرکت سے صرف غیر شرعی اولاد مراد لیا ہے ۔ (2) حالانکہ ان کامفہوم بہت وسیع ہے جس میں ہر طرح کا حرام مال اور ہر طرح کی غیر شرعی اولاد وغیرہ شامل ہے ۔
ہم خود اپنے اس زمانے میں دیکھتے ہیں کہ عالمی شیطانی سامراجی انسان دشمن قوتیں کس کس طرح سرمایہ لگاتی ہیں ۔ یہ طاقتیں اقتصادی کمیٹیاں قائم کرتی ہیں کمزور ملکوں میں مختلف قسم کے کارخانے لگاتی ہیں اور پیدا واری مراکز قائم کرتی ہیں پھران کے ذریعے طرح طرح کے خطرناک کھیل کھیلتی ہیں ۔ یہ طاقتیں فنی اور اقتصادی ماہرین کے نام پر ان ملکوں میں اپنے جاسوس بھیجتی ہیں اور ہمدرد بن کر ان ملکوں کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لیتی ہیں ۔ یہ طاقتیں ان ملکوں میں ان ذرائع سے اقتصادی ترقی، استقلال اور خود مختاری پر ضرب لگاتی ہیں اور انہیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں ۔
اسی طرح یہ شیطانی قوتیں اسکولوں، کالجوں، لائبریریوں، ہسپتالوں اور سیاحت کے راستے ان کی اولاد میں شرکت کرتی ہیں ۔ ان ممالک میں بعض افراد کو اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم کے نام پر بلاتی ہیں اور ان ملکوں کے جوانوں کو اپنی تمدن و ثقافت کے رنگ میں پوری طرح رنگ لیتی ہیں اور اس طرح ان کے افکار و نظریات میں شریک ہوجاتی ہیں ۔
لیکن جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے اس قسم کی تفاسیر بعض واضح مصادیق کو بیان کرتی ہیں البتہ آیت کا مفہوم انہی میں منحصر نہیں ہے ۔ تفسیر نور الثقلین ج ۳ ص ۱۸۴ کی طرف رجوع کریں ۔
یہ شیطان برائی کے مراکز بھی قائم کرتے ہیں ۔ انٹر نیشنل ہوٹلوں، جدید تفریحی کلبوں، سینماؤں اور گمراہ کن فلموں کے ذریعے قوموں کا اخلاق تباہ کرتے ہیں ۔ صرف ان ذرائع سے برائیوں ہی کو جنم نہیں دیتے بلکہ غیر شرعی اولاد میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ ان ذرائع سے یہ شیطان ایک بھٹکی ہوئی، بے راہ رو، بے ارادہ، اوباش اور ہوس پرست نسل کو پروان چڑھاتے ہیں ۔
ان کے طور طریقوں پر ہم جتنا گہرا غور کریں گے اتنا زیادہ ان کے خطرناک شیطانی وسوسوں کی گہرائی سے آشنا ہوں گے ۔
د۔ نفسانی تباہی کے شیطانی پروگرام:
مغرورکرنے والے اور طرح طرح کے پُر فریب وعدے، شیطانوں کا ایک اور چلن ہیں ۔ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کے لیے بڑے بڑے ماہرین نفسیات رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا کام لوگوں کو حقائق سے غافل کرنا ہے ۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ عظیم تمدن کا دروازہ تم سے چند قدم دور ہے ۔ کبھی سمجھاتے ہیں کہ تم جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجاؤ گے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ تمہاری قوم بڑی عظیم ہے جو اس پروگرام پر عمل کرکے اوج عظمت تک جا پہنچے گی۔ وہ پسماندہ قوموں اور لوگوں کو انہی تصورات میں لگائے رکھتے ہیں اور یہ سب کام ”وعدہم“کا مصداق ہیں ۔
کبھی وہ اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ تحقیر و تضعیف کرتے ہیں ۔ چھوٹے او ر کمزور ملکوں سے کہتے ہیں کہ تم بڑی عالمی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ تمہارے اور ترقی یافتہ ممالک میں سینکڑوں سالوں کا فرق ہے ۔ اس طرح یہ شیطان انہیں ہمت و کوشش سے روکتے ہیں ۔
یہ قصّہ بہت طویل ہے ۔ شیطان اور اس کے لشکروں کے نفوذ کا کوئی ایک طریقہ نہیں ۔
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ”عباد اللّٰہ“ اور خدا کے سچے بندے ہمت نہیں ہارتے، ان کے وہ جذبے اسی طرح سلامت رہتے ہیں کہ جو وہ ان آیات سے حاصل کرتے ہیں ۔ ان آیات میں وہ خدا کا قطعی وعدہ دیکھتے ہوئے ان شیطانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان سے ذرہ بھر خوف نہیں کھاتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ شیطانوں کا شور و غل جتنا زیادہ ہو اتناہی بے معنی اور کھوکھلا ہوتا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ قوت ایمان اور توکل علی اللہ سے ان سب پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ان کے منصوبوں کو نقش بر آب کہا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
”و کفٰی بربک وکیلاً“
خدا ان کا بہترین محافظ، نگہبان اور یارو مددگار ہے
۳۔ خدا نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟:
اس بارے میں سورہٴ بقرہ کی آیہ ۳۶ کی تفسیر میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔ اسی طرح مختلف طرح کے شیطانی وسوسوں اور لفظ شیطان کے سلسلہ میں ج ۶ ص ۱۱۲ اور ج ۱ ص ۱۶۶ پر بحث کی جا چکی ہے ۔ (اردو ترجمہ)

 

۶۶ رَبُّکُمْ الَّذِی یُزْجِی لَکُمْ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ کَانَ بِکُمْ رَحِیمً-
۶۷ وَإِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاَّ إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ اٴَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنْسَانُ کَفُورًا
۶۸ اٴَفَاٴَمِنتُمْ اٴَنْ یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اٴَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا
۶۹ اٴَمْ اٴَمِنتُمْ اٴَنْ یُعِیدَکُمْ فِیہِ تَارَةً اٴُخْریٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُمْ بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہِ تَبِیعً-

ترجمہ

۶۶۔ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لیے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ۔ وہ تمہارے لیے مہربان ہے ۔
۶۷۔ اور جس وقت تمہیں دریا میں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو اس کے سوا ہر ایک کو بھول جاتے ہو لیکن جس وقت وہ تمہیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو اور انسان (نعمتوں کا)کفران کرنے والا ہے ۔
۶۸۔ کیا تم اس سے مامون ہو کہ وہ خشکی پر (ایک شدید زلزلے کے ذریعے) تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کا طوفان بھیج دے اور (تمہیں اس میں دفن کردے اور) پھر تمہیں کوئی محافظ (اور مددگار) نہ ملے ۔
۶۹۔ یا کیا تم اِس سے مامون ہوکہ وہ پھر تمہیں دریا کی طرف پلٹادے، تمہاری طرف شدید آندھی بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کی وجہ سے غرق کردے یہاں تک کہ کسی ایسے شخص کو بھی پیدا نہ کرے کہ جو تمہارے خون کا مطالبہ کرے ۔



1۔ مفردات راغب اور مجمع البیان کی طرف رجوع کریں ۔
2۔ ان آیات کے بارے میں وارد روایات میں بھی شیطان کے شریک اولاد ہونے کا مفہوم۔ غیر شرعی اولاد یا وہ اولاد جن کا نطفہ مالِ حرام سے بنا اور یا نطفہ ٹھہرتے وقت جن کے ماں باپ یادِ خدا سے غافل تھے، بیان کیا گیا ہے ۔
 
نعمتوں کے باوجود کفران کیوں؟شیطان کے جال
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma