قیامت یقینی ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
تمام مخلفین سے منطقی طرزِ عملچند اہم نکات

گزشتہ آیات توحید سے متعلق اور شرک کے خلاف مبارزہ کے بارے میں تھیں لیکن زیرِ نظر آیات میں معاد اور قیامت کے بارے میں گفتگو ہے اور ہر مقام پر اس گفتگو سے مسئلہ توحید کی تکمیل ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ عقائدِ اسلامی میں سے بنیادی ترین مبداء ومعاد کا عقیدہ ہے یہی عقیدہ انسان کی عملی اور اخلاقی طور پر تربیت کرتا ہے، یہ عقیدہ آلودگی اور گناہ سے بچاتا اور ادائیگی فرض کی دعوت دیتا ہے اور انسان کو تکامل وارتقاء کے راستے پر جاتا ہے ۔
ان آیات میں منکرین معاد کے تین سوالات یا تین اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: انھوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوکر منتشر ہوگئیں تو کیا ہمیں نئے سرے سے تخلیق کیا جائے گا (وَقَالُوا اٴَئِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا) ۔ (۱)
کیا اصولی طور پر اس بات کا امکان ہے کہ بوسیدہ اور ذرہ ذرہ ہوکر بکھر جانے والی ہڈیاں نئے سے جمع ہوں اور اس کے بعد پھر انھیں لباسِ حیات عطا ہوجائے، بوسیدہ اور پراکندہ ہڈیاں کہاں اور ایک زندہ طاقتور اور عقلمند انسان کہاں ۔
معاد کے بارے میں قرآن کی دیگر بہت سی تعبیرات کی طرح یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ رسول الله اپنی گفتگو میں ہمیشہ معادِ جسمانی کی بات کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بکھر جانے کے بعد یہ جسم پھر پلٹ آئے گا، ورنہ اگر معادِ روحانی کی بات ہوتی تو مخالفین کے ایسے اعتراضات کے کوئی معنی نہ تھے ۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: کہہ دو: کہ بوسیدہ اور خاک شدہ ہڈی سے لباسِ حیات عطا کرنا تو آسان کام ہے ”تم پتھر یا لوہا بن جاوٴ“ تو پھر بھی خدا قادر ہے کہ تمھارے بدن کو لباسِ حیات پہنادے (قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا) ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مخلوق پتھر اور لوہے سے بھی سخت تر ہو اور زندگی سے بہت دُور ہو اور اس لحاظ سے تمھاری نظر میں زیادہ بڑا کام ہو تو خدا قادر ہے کہ اس کے بدن پر جامہٴ حیات پہنادے (اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ) ۔
واضح رہے کہ ہڈیاں بوسیدہ ہوکر خاک ہوجاتی ہیں اور مٹی میں ہمیشہ آثارِ حیات ہوتے ہیں، نباتات خاک ہی سے اُگتے ہیں، زندہ موجودات خاک ہی میں پرورش پاتے ہیں اور انسانی وجود کی اصل بھی خاک ہے، مختصر یہ کہ خاک زندگی کات دروازہ ہے لیکن پتھر، لوہا یا وہ موجودات جو ان سے زیادہ سخت ہیں ان کا فاصلہ زندگی سے بہت زیادہ ہے، نباتات کبھی بھی ہو اور جو کچھ بھی ہوجاوٴ تمھاری طرف زندگی لوٹادینا اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ۔
پتھر بوسیدہ ہوکر خاک میں بدل جاتے ہیں اور پھر مٹھی کے سینے سے زندگی پیدا ہوجاتی ہے، لویا بھی بوسیدہ ہوکر پراکندہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کرہٴ خاکی کے دوسرے موجودات سے مل کر تمام مبداء حیات بن جاتا ہے ۔
اس زمین میں ہم جس موعود کا بھی تصور کریں، وہ معدنیات میں سے ہو یا معدنیات سے مشابہ کسی چیز سے، انسانی بدن کی عمارت میں ساعمتال ہوتا ہے، یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ اس عالم کے تمام ذرّات میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ موجودِ زندہ میں تبدیل ہوجائے اگرچہ ان میں سے بعض کسی مرحلے میں زندگی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں مثلاً مٹی اور بعض نسبتاً دور ہوتے ہیں مثلاً پتھر اور لوہا ۔
ان کا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اچھا اگر ہم مان لیں کہ یہ بوسیدہ اور منتشر ہڈیاں پھر زندگی حاصل کرسکتی ہیں تو یہ کام انجام دینے کی قدرت کسی میں ہے؟ وہ یہ اس لئے کہتے تھے کیونکہ وہ اس تبدیلی کو ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل امر سمجھتے تھے ۔ ”وہ کہتے تھے کہ کون انھیں اٹھائے گا“ (فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا) ۔
اس سوال کا جواب قرآن اس طرح دیتا ہے: ان سے کہو کہ وہی جس نے پہلی مرتبہ تمھیں پیدا کیا تھا (قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ) ۔
اگر ”وہ قابل“ کی قابلیت میں تمھیں شک ہے تو سوچو کہ تم پہلے بھی تو خاک تھے، پھر اب کیا رکاوٹ ہے پھر خاک بننے کے بعد تمھیں زندگی دے دی جائے، اگر ”فاعل“ کی فاعلیت میں شک ہے تو وہی خدا جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا وہ پھر بھی یہ کام کرسکتا ہے کیونکہ:
حکم الامثال فیما یجوز وفیما لایجوز واحد-
ہم مثل چیزوں کے جائز اور ناجائز فیصلہ ایک جیسا ہوتا ہے ۔
آخر میں ان کا تیسرا اعتراض بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ تعجب اور انکار کرتے ہوئے اپنا سر ہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیامت کب برپا ہوگی (فَسَیُنْغِضُونَ إِلَیْکَ رُئُوسَھُمْ وَیَقُولُونَ مَتیٰ ھُوَ) ۔
”فَسَیُنْغِضُونَ“”انغاض“ کے مادہ سے کسی مقابل شخص کی جانب تعجب سے سربلانے کے معنی میں ہے ۔
اس اعتراض سے ان کی مراد یہ تھی کہ فرض کریں یہ مادہ خاکی انسان میں تبدیل ہونے کے مقابل ہے اور یہ بھی مان لیں کہ خدا میں یہ قدرت ہے لیکن یہ تو ایک ادھار والے وعدے سے زیادہ بات نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی، اگر ہزاروں یا لاکھوں سال بعد ہوتی تو ہماری آج کی زندگی میں اس کا کیا اثر ہوگا،نقد بات کرو ادھار بات چھوڑو۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: ان سے کہہ دو: اس کا زمانہ قریب ہے (قُلْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَرِیبًا) ۔
قیامت کی گھڑی قریب ہی ہے کیونکہ اس عالم کی مجموعی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو دوسرے جہاں کی بے پایاں زندگی کے مقابلے میںتو جلدی گزر جانے والے ایک لمحے سے زیادہ نہیں ہے ۔
اس سے قطع نظر اگر قیامت ہمارے چھوڑے اور محدود معیار کے مطابق دور بھی ہوتو بھی قیامت کا آستانہ۔ یعنی موت۔ ہم سب کے قریب ہے ۔ کیونکہ موت قیامت صغریٰ ہے:
”اذا مات الانسان قامت قیامتہ“
جب انسان کو موت آجاتی ہے تو اس کے لیے قیامت واقع ہوجاتی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ موت قیامت کبریٰ نہیں ہے لیکن اس کی یاد تو دلاتی ہے ۔
ضمنی طور پر ”عَسیٰ “ کی تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہو کہ کوئی شخص دقیقاً قیامت کی تاریخ نہیں جانتا اور یہ ان علوم میں سے ہے جو ذاتِ پروردگار سے مخصوص ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اس سے آگاہ نہیں ۔
اگلی آیت میں قیامت کی متعین تاریخ ذکر کیے بغیر اس خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: زندگی کی طرف یہ بازگشت اس دن ہوگی جس دن تمہیں قبروں سے پکارا جائے گا اور تم چاہو یا نہ چاہو اس کی دعوت پر لبیک کہو گے اور خدا کی حمد و ثناء کرتے ہوئے زندگی کی طرف پلٹ آوٴ گے

(یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ ) ۔
اور وہ ایسا دن ہے کہ تم موت اور قیامت کے درمیان کے فاصلہ(دور ِبرزخ) کو کم سمجھو گے اور خیال کرو گے کہ برزخ میں تو تم تھوڑی سی مدت ہی رہے ہو

( وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیلًا) ۔ اگر چہ یہ طولانی ہو لیکن عالم بقاء کی انتہا عمر کے مقابلے میں چند جلدی سے گزر جانے والے لمحات سے زیادہ نہیں ہے ۔
بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہ دنیال میں توقف کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ دن کہ جب تم جان لوگ کہ دنیاوی زندگی کوئی زیادہ طولانی نہ تھی چند مختصر سی گزر گھڑیاں تھیں ۔

 

۵۳ وَقُلْ لِعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنزَغُ بَیْنَھُمْ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا
۵۴ رَبُّکُمْ اٴَعْلَمُ بِکُمْ إِنْ یَشَاٴْ یَرْحَمْکُمْ اٴَوْ إِنْ یَشَاٴْ یُعَذِّبْکُمْ وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ وَکِیلًا
۵۵ وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلیٰ بَعْضٍ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
۵۶ قُلْ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَایَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُمْ وَلَاتَحْوِیلًا
۵۷ اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلیٰ رَبِّھِمْ الْوَسِیلَةَ اٴَیُّھُمْ اٴَقْرَبُ وَیَرْجُونَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُونَ عَذَابَہُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُورًا

 

ترجمہ

۵۳۔ میرے بندوں سے کہدو : ایسی بات کریں کہ جو زیادہ اچھی ہو کیونکہ شیطان (ناموزوں باتوں کے ذریعے) ان کے درمیان فتنہ وفساد کھڑا کردیتا ہے ۔ شیطان ہمیشہ انسان کا کھلا ہوا دشمن۔
۵۴۔ تمھارا پروردگار (تمھاری نیتّوں اور اعمال کو) تم سے زیادہ جانتا ہے اگر وہ چاہے (اور تمھیں اس لائق سمجھے) تو اپنی رحمت تمھارے شاملِ حال کردے اور اگر چاہے تو عذاب اور ہم نے تجھے ان پر وکیل نہیں بنایا (کہ تیرے لئے لازم ہو کہ جبراً ایمان لے آئیں) ۔
۵۵۔ وہ تمام لوگ کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ان کے حالات سے تیرا پروردگار زیادہ آگاہ ہے (اور اگر ہم نے تجھے دوسرے نبیوں پر فضیلت عطا کی ہے اور ہم نے داوٴد کو زبور عطا کی ہے ۔
۵۶۔ ان سے کہہ دو: تم نے خدا کے علاوہ جو (اپنے معبود) بنا رکھے ہیں انھیں پکار کر دیکھو، وہ تمھاری کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں ۔
۵۷۔ وہ تو وہ ہیں جو خود اپنے پروردگار سے (تقرّب کا) وسیلہ طلب کرتے ہیں، ایسا وسیلہ جو زیادہ قریب ہو اور یہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ سب تیرے پروردگار کے عذاب سے بچنے کی فکر میں اور وحشت زدہ ہیں ۔

 


۱۔ رفاف، بروزن کرات۔

 

تمام مخلفین سے منطقی طرزِ عملچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma