خدا پرست اور دیگر گروہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ایک اہم نکتہ تفسیر

اس آیت میں آیات قرآن کے نزول پر لوگوں کے مختلف ردّ عمل کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ اس میں بتا یا گیا ہے کہ حقیقت کے متلاشی اور حق جو افرد کس طرح جو کچھ پیغمبر پر نازل ہوتا تھا اس پر سر تسلیم خم کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے جب کہ مخالف اورہٹ دھرم افراد اس کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے :جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دے رکھی ہے وہ اس پر خوش ہوتے ہیں جوکچھ تجھ پر نازل ہوتا ہے (و الذین اتیناھم الکتاب یفرحون بما انزل الیک) ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”اٰتیناھم الکتاب“ اور اس قسم کی تعبیر پورے قرآن میں عام طور پر یہود و نصاریٰ اور ان جیسے آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، تو ا س میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہاں بی انہی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے جو یانِ حق تجھ پر ان آیات کے نزول پر مسرور ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ انہیں ان نشانیوں سے ہم آہنگ پاتے ہیں جو ان کے پاس ہیں اور دوسری طرف یہ انکے لئے ان خرافات سے نیز یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے ان عالم نما جاہلوں کے شر سے آزادی اور نجات کا سبب ہیں جنہوں نے انہیں قید و بند میں جکڑ رکھا ہے اور فکری آزادی اور تکامل و ارتقائے انسانی سے محروم رکھا ہے ۔
یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” الذین اٰتینا ھم الکتاب “سے مراد حضرت رسول اکرم کے اصحاب و انصار ہیں بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لئے ایسی تعبیر کا استعمال معمول نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں یہ با ت” بما انزل الیک “ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔۱
۱۔کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ ” ما انزل الیک “ ” الکتاب“ ہی ہوکیونکہ اس صورت میں دونوں قرآن کی طرف اشارہ ہیں حالانکہ قرینہ مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ”الکتاب“ سے مراد اور ہے اور ” ماانزل الیک “ سے مراد کچھ اور ہے ۔
نیز جو کچھ کہا گیا سورہ رعد کا مکی ہونا اس کے منافی نہیں کیونکہ یہودیوں کا اصلی مرکز اگر چہ مدینہ اور خیبر تھے اور عیسائیوں کا اصلی مرکز نجران وغیرہ تھا پھر بھی اس میں شک نہیں کہ وہ مکہ آتے جاتے تھے اور مکہ میں ان کے افکار و نظر یات اور ثقافت کا تھوڑا بہت اثر تھا ۔ اسی بناء پر مکہ کے لوگ ان انشانیوںکے بنا ء پر کہ جو یہودی خداکے آخری پیغمبر کے بارے میں بیان کرتے تھے ان میں سے ایسے پیغمبر کے ظہور کے انتظار میںرہتے تھے ۔ ( اس سلسلے میں ورقہ بن نوفل اور اس قسم کے دیگر افراد کے واقعا مشہور ہیں ) ۔ قرآن مجید کی دیگر سورتوں میں بھی اس بات کے شواہد ہیں کہ اہل کتاب میں سے سچ مومنین پیغمبر اسلام پر آیات ِ قرآن کے نزول سے خوش تھے ۔ سورہ قصص کی آیہ ۵۲ میں ہے :
الذین اتینا ھم الکتاب من قبلہ ھم بہ یوٴمنون
جنہیں ہم نے اس سے پہلے آسمانی کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان رکھتے تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : لیکن احزاب میںسے ایک جماعت ہے کہ جس پر قومی و مذہبی تعصب اور ایسے دوسرے تعصبات کا غلبہ تھا ۔ اسی بناء پر قرآن انہیں ” اہل کتاب “ نہیں کہتا کیونکہ وہ اپنی آسمانی کتب کے سامنے بھی سر تسلیم خم نہیں کئے ہوئے ۔ بلکہ حقیقت میں وہ ” احزاب“ اور مختلف گروہ تھے کہ جو صرف اپنے اپنے گروہ کے راستے پر چلتے تھے ۔ یہ گروہ رہ اس چیز کاانکار کردیتے تھے کہ جو ان کے اپنے میلان ، طریقے او رپہلے سے کئے گئے فیصلوں سے ہم آہنگ نہ ہوتی۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ” احزاب“ مشرکین کی طرف اشارہ ہو کیونکہ سورہ احزاب مین بھی ان کا اس لفظ کے ذریعے ذکر کیا گیا ہے ۔ اصل میں ان کا کوئی دین و مذہب نہ تھا بلکہ وہ بکھرے ہوئے گروہ اور احزاب تھے کہ جو قرآن اور اسلام کی مخالفت میں متحد تھے ۔
عظیم مفسر مر حوم طبرسی اور بعض دوسرے مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ مندرجہ بالا آیت صفتِ رحمن کے ساتھ خدا وند عالم کی توصیف سے بت پرستوں کے انکار کی طرف اشار ہ ہے کہ جب اہل کتاب خصوصاً یہودی اس توصیف سے آشنائی کی بناء پر قرآنی آیات میں لفظ” رحمن “ کی موجودگی پرخوشی کا اظہار کرتے تھے اور مشرکین ِ مکہ کہ جو اس صفت سے نا آشنا تھے ، اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔
آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کی اور اس کی مخالفت او رہٹ دھرمی کی پر واہ نہ کروبلکہ اپنے حقیقی خط اور صراط مستقیم پر قائم رہو اور ” کہو: میں مامور ہوں کہ صرف اللہ کی پرستش کروں کہ جو یکتا و یگانہ خدا ہے اور اس کے لئے کسی شریک کا قائل نہ ہوں میں صرف اس کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میری اور سب کی باز گشت اسی کی طرف ہے “(قل امرت ان اعبد اللہ ولا اشرک بہ الیہ ادعوا و الیہ ماٰب) ۔
یہاںس طرف اشارہ ہے کہ سچے موحد اور حقیقی خدا پرست کا خدا کے فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ اور پروگرام نہیں ہے وہ ان تمام امور کے لئے فرماں بردار ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہوتے ہین اور ان کے بار ے میں کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے کا قائل نہیں ہوتا ۔ ایسا نہیں ہوتاکہ جس چیز کے بارے میں اس کی رغبت ہو اسے قبول کرلے اور جس کے بارے میں میلان نہ ہو اس کی مخالفت کرے اور انکار کردے ۔

 

ایک اہم نکتہ تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma