چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
پھر بہانہ سازی قیامت کے بارے میں کافروں کا تعجب

۱۔ خلقت ِ نو کے بارے میں تعجب کیوں؟ قرآن کی مختلف آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی مشکلات میں سے ایک مشرک قوموں کے سامنے معادِ جسمانی کے اثبات کا مسئلہ تھا کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ اس بات پر تعجب کرتے تھے کہ کس طرح انسان مٹی ہونے کے بعد دوبارہ حیات کی طرف پلٹ آئے گا ۔ یہ جو محل بحث آیات میں ہے :
ء اذا کنا تراباً ء انّا لفی خلق جدید
کیا جب ہم مٹی ہو جائیں تو دوبارہ حیات ِ نو پائیں گے۔
ایسی تعبیرات تھوڑے بہت فرق کے ساتھ قرآن کی سات دیگر آیات میں موجود ہیں ، جو یہ ہیں :
مومنون ۔۳۵۔ مومنون ۸۲ نمل ۔۶۷ صافات ۔۵۳ ق ۳ اور واقعہ ۔۴۷
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اعتراض ان کی نگاہ میں بہت ہی اہم تھا ۔ تبھی تو ہر جگہ اسی کا سہارا لیتے تھے لیکن قرآن مجید بہت ہی مختصر عبارتوں میں انہیں دو ٹوک اور قاطع جواب دیتا ہے ۔ مثلا ً سورہ ٴ اعراف کی آیہ ۲۹ میں :
کمابداء کم تعودون
جیسا کہ ابتداء میں تمہیں پیدا کیا گیا ہے اسی طرح پھر لوٹا ئے جاوٴ گے۔
چند الفاظ میں یہ ایک دندان شکن جواب ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے :
وھو اھوان علیہ
تمہاری بازگشت تو تمہارے آغاز سے بھی سادہ اور آسان ہے ۔ ( روم ۔۲۷)
کیونکہ ابتداء میں تم کچھ بھی نہیں تھے لیکن اب کم از کم بوسیدہ ہڈی یا مٹی کی صورت میں تو تم موجود ہو۔
بعض مقامات پر قرآن لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر وسیع کائنات زمین و آسمان میں عظمت قدرتِ خدا کا مشاہدہ کرواتا ہے او رکہتا ہے : کیا وہ ذات جو یہ سب کرات ، کہکشائیں ، ثوابت اور سیارے پیدا کرسکتی ہے اس کے اعادہ پر قادر نہیں ہے ۔(یٰسٓ۔۸)
۲۔کیا خدا ستمگر وں کو بخش دیتا ہے :مندرجہ بالاآیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ پر ور دگار لوگوں کے ظلم کے باوجود صاحبِ مغفرت و بخشش ہے۔ مسلم ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ خد ااپنی عفو و بخشش ان ظالموں کے شامل حال کرتا ہے جو اپنے ظلم پر اصرار کرتے ہیں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ظالموں کو بھی اس وسیلے سے بازگشت اور اپنی اصلاح کا امکان فراہم کرے ورنہ دوسرے جملے میں ان کے انجام کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ” تیرا پر ور دگار شدید العقاب ہے “۔
ضمنا ً اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہانِ کبیرہ ( کہ جن میں سے ایک ظلم ہے ) بھی قابل بخشش ہیں ( تمام تر شرائط کے ساتھ ) یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات اس غلط بات کا دو ٹوک اور قاطع جواب دیتی ہے جو قدیم زمانے سے معتزلہ کے حوالے سے نقل ہو ئی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ گناہاں کبیرہ کبھی بھی نہیں بخشے جائیں گے ۔
بہر حال پروردگار کی ” وسیع مغفرت“ اور اس کے ” شدیدعقاب“ کا ذکر در حقیقت سب کو میانہ راہ پر اور خوف و رجا کے درمیان لے آتا ہے کہ جس کا اہم عامل انسان کی تربیت ہے کہ نہ بالکل رحمتِ الہٰی سے مایوس ہو جائے چاہے اس کا جرم سنگین بھی ہو اور نہ ہی کبھی اپنے آپ کو اس کی سزا سے مامون سمجھے چاہے اس کا گناہ خفیف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم  سے روایت ہے :
لولا عفو اللہ وتجا وزہ ما ھنا احد العیش ، ولولا وعید اللہ و عقابہ لاتکل کل واحد
اگر خدا کی عفو و بخشش نہ ہوتی تو زندگی ہر گز کسی کے حلق میں گوارانہ ہوتی اور اگرخدائی تہدیدیں اور سزائیں نہ ہوتیں تو ہر شخص اس کی رحمت کے نام پر جو چاہتا انجام دیتا۔1
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ گناہ انجام دیتے ہوئے بڑے غرور سے کہتے ہیں کہ ” خد اکریم ہے “ در حقیقت انہوں نے خدا کے کرم پر بھروسہ نہیں کیا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اصل میں وہ پروردگار کی سزا اور عذاب سے بے اعتنائی کرتے ہیں ۔


۷۔وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْہِ آیَةٌ مِنْ رَبِّہِ إِنَّمَا اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ۔
ترجمہ
۷۔ اور وہ جو کافر ہو گئے کہتے ہیں کہ اس کے پر وردگار کی طرف سے اس پر آیت( اور معجزہ) کیوں نازل نہیں ہوا۔ تُوتو صرف ڈرانے والاہے اور ہر گروہ کے لئے ہدایت کرنے والا ہوتا ہے ( اور یہ تو سب بہانے ہیں نہ کہ حقیقت کی جستجو)۔

 


1۔ مجمع البیان ص ۲۷۸ جلد ۵ و ۶ زیر بحث آیت کے ذیل میں ، تفسیر قرطبی جلد ۶ ص ۳۱۴۔

 

پھر بہانہ سازی قیامت کے بارے میں کافروں کا تعجب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma