گزشتگان کے واقعات کے مطالعہ کے چار اثرات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند قابل توجّہ نکاتچندنکات

ان آیات کے ساتھ ہی سورہٴ ہود اختتام پذیر ہوتی ہے، ان آیات میں اس سورہ کی تمام مباحث کا کلّی نتیجہ بیان ہوا ہے، اس سورہ کا چونکہ زیادہ حصّہ انبیاء کے بارے میں اور گزشتہ اقوام کے عبرتناک واقعات کے بارے میں ہے لہٰذا یہاں ان داستانوں کے گراں بہا نتائج کو چار عنوانات کے تحت بطور خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: ہم نے انبیاء کے مختلف واقعات تجھ سے بیان کئے ہیں تاکہ تیرے دل کو مضبوط کریں اور تیرے ارادے کو تقویت دیں (وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ) ۔
لفظ ”کلا “ان سرگزشتوں کے تنوع اور ان کی مختلف اقسام کی طرف اشارہ ہے، ان میں سے ہر ایک میں انبیاء سے ایک قسم کی روگرانی، ایک قسم کے انحرافات اور ایک قسم کے عذاب کی طرف اشارہ ہے، یہ تنوع انسانی زندگی کے مختلف زاویوں اور گوشوں پر کئی طرح سے واضح روشنی ڈالتا ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کے لئے تثبیتِ قلب اور ان کے ارادے کو تقویت بخشنا (کہ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے)بلکہ ایک فطری امر ہے کیونکہ سخت ہٹ دھرم اور نہایت بے رحم دشمنوں کی مخالفتیں خواہ نہ خواہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کے دل پر اثر ڈالتی تھیں کیونکہ آپ بھی انسان اور بشر تھے لیکن اس بناء پر کہ ناامیدی اور یاس کی تھوڑی سی گرد بھی آپ کے قلبِ پاک پر نہ پڑے اور آپ کا آہنی ارادہ ان مخالفتوں اور کارشکنیوں سے کمزور نہ ہو خدا تعالیٰ آپ سے انبیاء کے واقعات، ان کے کام کی مشکلات، ہٹ دھرم قوموں کے مقابلے میں ان کی استقامت وپامردی اور بالآخر کامیابی کے واعات یکے بعد دیگرے بیان کرتا ہے تاکہ رسول الله کا قلب وروح اور اسی طرح مومنین کے جو اس عظیم جنگ اور معرکے میں آپ کے دوش بدوش شریک تھے اور روز قوی تر ہوتے رہیں ۔
اس کے بعد ان واقعات کا بیان کرنے کے دوسرے نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: ان واقعاتِ انبیاء میں زندگی سے مربوط حقائق ہیں، ان میں کامیابی اور ناکامی کے عوامل تمام تر تجھے بیان کردیئے گئے ہیں (وَجَائَکَ فِی ھٰذِہِ الْحَقُّ) ۔ (۱)
ان واقعات کے بیان کا تیسرا اور چوتھا نتیجہ جو واضح ہوکر سامنے آتا ے یہ ہے کہ ”مومنین کے لئے وعظ ونصیحت اور تذکر ویاد دہانی ہے“ (وَمَوْعِظَةٌ وَذِکْریٰ لِلْمُؤْمِنِینَ) ۔
یہ جاذبِ نظر ہے کہ موٴلف المنار نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے کہ اس آیت میں ایجاز واختصار کا ایسا معجزہ ہے کہ گویا گزشتہ تمام واقعات کا اعجاز اس نے اپنے اند رسمولیا ہے اور چند مختصر سے الفاظ کے ذریعے اس میں اس کے تمام فوائد بیان کردیئے گئے ہیں ۔
بہرحال یہ آیت دوبارہ تاکید کرتی ہے کہ قرآن کے تاریخی واقعات کو معمولی نہ سمجھا جائے اور ان سے سننے والوں کی ضیافتِ طبع کے لئے استفادہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ زندگی کے ہترین دروس کا مجموعہ ہیں، ان میں انسانوں کے آج اور کل کے تمام زاویوں اور پہلووٴں سے راہ گشائی کی گئی ہے ۔
اس کے بعد حضرت پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ تم بھی دشمن کی طرف سختیوں اور ہٹ دھرمیوں کے مقابلے میں وہی کچھ کہو جو بعض پیغمبر اُن کے جواب میں کہتے تھے، فرمایا: وہ کہ جو ایمان لائیں گے ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تمھارے بس میں ہے وہ انجام دو اور گنجائش نہ چھوڑاور جو کچھ ہماری طاقت ہوگی ہم بھی انجام دیں گے (وَقُلْ لِلَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنَّا عَامِلُونَ) ۔ تم انتظار میں رہو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں تاکہ دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے اور کون ہزیمت اٹھاتا ہے (وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ) ۔
تم ہماری شکست کے خیالِ خام میں رہو اور ہم تمھارے لئے خدا کے واقعی عذاب کے انتظار میں ہیں کہ جو یا ہمارے ہاتھوں تمھیں پہنچے گا یا براہِ راست خدا کی طرف سے ۔
ایسی دھمکیاں جو ”امر“ کی صورت میں ذکر ہوئی ہیں قرآن کے دیگر مقامات پر بھی ہیں ۔ مثلاً:
<اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ
جوچاہو کرو خدا تمھارے اعمال سے آگاہ ہے ۔ (حم سجدہ/۴۰)
نیز یہ بہت سے مفسّرین نے کہا ہے کہ مشار الیہ سورہ ہے، ہم نے جو کچھ کہا ہے اس سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ سورہ کا زیادہ تر حصّہ جو گزرچکا ہے گزشتہ انبیاء کے حالات کے بارے میں ہی تھا ۔
شیطان کے بارے میں ہے:
<وَاسْتَفْزِزْ مَنْ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَاٴَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ
اپنی آواز سے انھیں حرکت میں لے آوٴ اور اپنا سوار اور پیدا لشکر ان کی طرف بھیجو۔ (بنی اسرائیل/۶۴)
واضح رہے کہ امر کے یہ تمام صیغے کسی کام پر ابھارنے کے لئے بلکہ وہ سب کے سب دھمکی کا پہلو رکھتے ہیں ۔
اس سورہ کی آخری آیت توحید (توحیدِ علم ، توحیدِ افعالی اور تح۔وحیدِ عبادت) بیان کررہی ہے جیسا کہ اس سورہ کی ابتدائی آیات علم ِ توحید کے بارے میں تھیں ۔
درحقیقت اس آیت میں توحید کے تین پہلووٴں کی نشاندہی کی گئی ہے:
پہلا: پروردگار کی توحیدِ علمی، آسمانوں اور زمینوں کے غیبی اسرار کے ساتھ مخصوص ہیں اور وہی ہے جو تمام آشکار ونہاں بھیدوں سے باخبر ہے (وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔ اور اس کے غیر کا علم محدود علم اور زمین وآسمان کے طول وعرض میں موجود تمام چیزوں کے بارے میں وہ علم ذاتی پروردگار کی ذاتِ پاک کے ساتھ مخصوص ہے ۔
دوسرا: یہ کہ تمام امور کی باگ ڈور اس کے قبضہٴ قدرت میں ہے اور تمام چیزوں کی بازگشت بھی اسی کی طرف ہے (وَإِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاٴَمْرُ کُلُّہُ) ۔ اور یہ توحیدِ افعالی کا مرحلہ ہے ۔
تیسرا: یہ کہ اب جبکہ لامحدود اوربے پایاں قدرت اس کی ذات پاک سے مخصوص ہے اور ہر چیز کی بازگشت اس کی طرف ہے لہٰذا صرف اس کی پرستش کرو (فَاعْبُدْہُ) ۔ اور اس پر توکل کرو (وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ) ۔ اور یہ توحیدِ عبادت کا پہلو ہے ۔
اور چونکہ نافرمانی وسرکشی گناہ ہے لہٰذا اس سے بچو کیونکہ ”جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے (وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ) ۔

 

چند قابل توجّہ نکاتچندنکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma