نماز اور صبر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
نماز کی انتہائی اہمیتظالموں پر بھروسہ نہ کرو

ان آیات میں اسلامی احکام میں سے دو اہم ترین نشاندہی کی گئی ہے جو در حقیقت روحِ ایمان اور رکنِ اسلام ہیں ۔
پہلے نماز کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: نماز کو دن کے دو اطراف میں اور اوائل شب میں قائم کرو (وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّھَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ) ۔
طَرَفِی النَّھَارِ“ (یعنی دن کے دوطرف)، ظاہراً یہ تعبیر صبح اور مغرب کی نماز کے بارے میں ہے جو دن کے دو اطراف میں قرار پائی ہیں اور ”زُلف“ کہ جو ”زُلفہ“ کی جمع ہے نزدیکی کے معنی میں رات کے ابتدائی حصّوں پر ہے کہ جو دن کے قریب بولا جاتا ہے اس بناء پر بہ لفظ نمازِ عشاء پر منطبق ہوگا، روایاتِ اہلِ بیت(علیه السلام) میں بھی یہی تفسیر وارد ہوئی ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تین نمازوں (فجر، مغرب اور عشاء) کی طرف اشارہ ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے صرف تین نمازوں فجر، مغرب اور عشاء کا ذکر کیوں ہوا ہے اور ظہر ومصر کی نمازوں کے بارے میں گفتگو نہیں کی گئی ہے؟
اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مفسّرین نے ”طَرَفِی النَّھَارِ“ کا مفہوم اس قدر وسیع لیا ہے کہ اس میں فجر،ظہر، عصر اور مغرب سب کو شامل کرلیا ہے اور ”زلفاً من اللّیل“ کی تعبیر کہ جو نماز عشاء کے لئے ہے اس کے ساتھ پانچ نمازوں کی گنتی پوری کرلی ہے ۔
لیکن انصاف یہ ہے کہ ”طرفی النہار“ کے الفاظ ایسی تفسیر کی تاب نہیں رکھتے خصوصاً اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ صدر اوّل کے مسلمان پابندی سے نماز ظہر کو اول وقت میں اور نماز عصر کو درمیانے وقت میں (زوال اور غروب آفتاب کے درمیان) انجام دیتے تھے ۔
یہاں جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آیاتِ قرآن میں پانچوں نمازوں کا ذکر ہوا ہے مثلاً:
<اٴَقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل/۷۸)
کبھی تین نمازوں کا ذکر ہے جیسے محلِ بحث آیت اور کبھی صرف ایک نماز کا تذکرہ ہے، مثلاً:
<حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَقُومُوا لِلّٰہِ قَانِتِینَ (البقرہ/۲۳۸)
اس بناء پر ضروری نہیں کہ ہر موقع پر تمام پانچ نمازوں کا ایک ساتھ ذکر ہو۔ خصوصاًیہ کہ کبھی مناسبات کا تقاضا ہوتاہے کہ صرف نماز ظہر (صلوٰة الوسطیٰ) کی اہمیت کے پیش نظر اسی کا ذکر کیا جائے اور کبھی فجر، مغرب، اور عشاء ہی کے ذکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کبھی خستگی اور تکان کی وجہ سے یا نیند کی بناء پر ہوسکتا ہے یہ نمازیں معرضِ فراموشی میں چلی جائیں ۔
اس کے بعد روزانہ نماز نمازوں کے لئے خصوصاً اور تمام عبادات، اطاعات اور حسنات کے لئے عموماً فرمایا گیا ہے: نیکیاں برائیوں کو برطرف کردیتی ہیں (إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ) اور یہ ان کے لئے تذکر اور یادہانی ہے جو توجہ رکھتے ہیں (ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ) ۔
یہ آیت قرآن کی دیگر آیات کی طرح بتاتی ہیں کہ نیک اعمال کی تاثیر یہ ہے کہ وہ بُرے اعمال کے اثرات کو برطرف کردیتے ہیں، سورہٴ نساء کی آیت ۳۱ میں ہے:
<إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ
”اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمھارے چھوٹے گناہوں کو چھپادیں گے“۔
اور سورہٴ عنکبوت کی آیہ۷ میں ہے:
<وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّئَاتِھِمْ
”وہ لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیئے ہم ان کے گناہوں کو چھپادیں گے ۔
اسی طرح اطاعت اور نیک اعمال کے ذریعے گناہوں کے اثرات زائل ہونا ثابت کیا گیا ہے ۔
نفسیاتی طور پر بھی اس میں شک نہیں کہ ہر گناہ اور بُر عمل انسانی روح میں ایک طرح کی تاریکی پیدا کردیتا ہے اور اگر اسے جاری رکھا جائے تو اس کے پیہم اور تہ بہ تہ اثرات انسان کو ایک وحشتناک صورت میں مسخ کردیتے ہیں ۔
لیکن نیک اعمال کہ جن کا سرچشمہ رضائے الٰہی ہوتا ہے روحِ انسانی کو ایک لطافت بخشتے ہیں کہ جو اس سے آثار گناہ دھودیتے ہیں اور ان تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتے ہیں ۔
إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ“ چونکہ نماز کے حکم کے بعد فوراً ٰآیا ہے اس لئے اس کا ایک واضح مصداق روزانہ نماز ہے اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ روایات میں اس کی تفسیر صرف روزانہ کی نماز ہوئی ہے تو وہ اس کے منحصر ہونے کی دلیل نہیں بلکہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے یہ ایک واضح قطعی مصداق بیان کیا گیا ہے ۔

 

نماز کی انتہائی اہمیتظالموں پر بھروسہ نہ کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma