مشرکین کے بارے میں حتمی فیصلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
آخری بات تربیت اور وعظ و نصیحت

یہ آیات او ربعد کی چند آیات سب کی سب توحید سے مربوط شرک کے خلاف جنگ اور حق کی طرف دعوت دینے کے بارے میں ہیں ۔ یہ آیات اس سورہ کی آخری آیات میں سے ہیں اور در حقیقت یہ اس سورہ کی توحیدی مباحث کی فہرست یا خلاصہ ہیں اور بت پرستی کے خلاف جنگ کے لئے تاکید ہیں ، جس کا ذکراس سورہ میں بار ہا آیا ہے ۔
آیات کا لب ولہجہ نشاندہی کرتا ہے کہ مشرکین بعض اوقات اس وہم میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اپنے عقائد میں بتوں کے بارے میں نرمی سے کام لیں ، کسی طرح سے انھیں قبول کرنے کے قائل ہو جائیں اور خدا کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ کسی طرح سے انھیں بھی تسلیم کرلیں ۔ قرآن اس قدر حتمی اور قطعی فیصلے کے ساتھ کہ جتنا فرض کیا جا سکتا ہے اس بنیاد توہم کو ختم کرتا ہے اور ان کی فکر کو ہمیشہ کے لئے راحت پہنچا تا ہے کہ بتوں کے بارے میں کسی قسم کی صلح اور نرمی کا کوئی معنی نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے ۔ صرف اللہ ، نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ ۔
پہلے پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو مخاطب کرکے : ” کہہ دو ! اے لوگو! تم میرے عقیدے کے بارے میں کوئی شک و تردد رکھتے ہو تو آگاہ رہو کہ میں ان کی کبھی عبادت قبول نہیں کروں گا جن کی خدا نے علاوہ تم عبادت کرتے ہو ( قُلْ یَااٴَیّھَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی شَکٍّ مِنْ دِینِی فَلاَاٴَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ) ۔
صرف ان کے معبودوں کی نفی پر قناعت نہیں کی گئی بلکہ مزید تاکید کے لئے ہر قسم کی عبادت خد اکے لئے ثابت کرتے ہوئے بات جاری ہے : لیکن میں ایسے خدا کی عبادت کرتا ہوں کہ جو تمہیں موت دے گا ( وَلَکِنْ اٴَعْبُدُ اللهَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ ) ۔
پھر تاکید مزید ہے : یہ صرف میری چاہت نہیں ہے بلکہ ” یہ خدا کا فرمان ہے جو اس نے مجھے دیا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لانے والوں میں سے رہوں“
( وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ) ۔
یہ جو خدا کی صفات میں سے صرف قبض روح او رمارنے کا ذکر ہوا ہے تو یہ یا تو اس بناء پر ہے کہ انسان جس چیز پر چاہے شک کرے لیکن وہ موت پر شک نہیں کرسکتا او ریا اس وجہ سے ہے کہ انھیں سزا اور ہلاکت خیز عذاب کی طرف متوجہ کیاجائے کہ جس کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔ اس طرح سے پھر یہ کنایةً خدا کے غضب کی ایک دھمکی ہے ۔
شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں اپنا عقیدہ قطعی طور پر بیان کرنے کے بعد اب اس کے لئے دو دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک دلیل فطرت کے حوالے سے ہے اور دوسری عقل و خرد کے حوالے سے ۔
”کہہ دو : مجھےے حکم دیا گیاہے کہ اپنا رخ مستقیم اور سیدھے دین کی طرف رکھو کہ جو ہر لحاظ سے خالص اور پاک ہو “ ( وَاٴَنْ اٴَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا) ۔
یہاںبھی صرف اثباتی پہلو پر قناعت نہیں کی گئی بلکہ تاکید کے لئے نفی کا پہلو بھی بیان کیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : اور ہر گز مشرکین میں سے نہ ہونا (وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ) ۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے ” حنیف“ اس شخص کو کہتے ہیں جو انحراف اور ٹیڑھے پن سے راستی ، استقامت اور سیدھے پن کی طرف جھکے یا دوسرے لفظوں میں انحراف اور ٹیڑھے دینوں اور طور طریقوں سے آنکھیں بند کرلے اور خدا کے سیدھے اور مستقیم دین کی طرف متوجہ ہو وہی دین جو فطرت کے مطابق ہے اور فطرت سے اسی مطابقت کی وجہ سے صاف ستھرا او رمستقیم ہے ، اس بناء پر تو حید کے فطری ہونے کی طرف اشارہ اس میں پنہاں ہے کیونکہ انحراف وہ چیز ہے جو فطرت کے خلاف ہو ( غور کیجئے گا ) ۔
فطرت کے راستے شرک کے بطلان کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ایک واضح عقلی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکم دیا گیا ہے کہ ” خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت نہ کرجو نہ فائدہ پہنچاسکتی ہیں اور نہ نقصان ۔ کیونکہ اگر تونے ایسا کام کیا تو ظالموں میں سے ہو جائے گا “ اپنے اوپر ظلم کرے گا اور ا س معاشرے پر بھی جس سے تیرا تعلق ہے ۔ ( وَلاَتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَنْفَعُکَ وَلاَیَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنْ الظَّالِمِینَ) ۔
کون سی عقل اجازت دیتی ہے کہ انسان ایسی چیزوں او رموجودات کی عبادت کرے کہ جو کسی قسم کا فائدہ اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور انسانی تقدیر میں جن کا تھوڑا سا بھی اثر نہیں ہے ۔
یہاں بھی صرف نفی کے پہلو پر بس نہیں کیا گئی بلکہ مثبت پہلو کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے : اگر تمہیں خدا کی طرف سے ناراحتی اور نقصان پہنچے ( چاہے سزا کے طور پر ) ، اس کے علاوہ کوئی بھی اسے بر طرف نہیں کرسکتا( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہُ إِلاّھُوَ) ۔اسی طرح ” اگر خدا چاہے کہ تمجے بھلائی پہنچے تو کوئی بھی اس کے فضل و رحمت کوروک نہیں سکتا “ ( وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَرَادَّ لِفَضْلِہِ ) ۔
” وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ( اور اہل سمجھے) خیر اور نیکی تک پہچاتا ہے ( یُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ) ۔کیونکہ اس کی بخشش اور رحمت سب پر محیط ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے ( وَھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ) ۔


۱۰۸۔ قُلْ یَااٴَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ اھْتَدَی فَإِنَّمَا یَھْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیلٍ۔
۱۰۹۔ وَاتَّبِعْ مَا یُوحَی إِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتَّی یَحْکُمَ اللهُ وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ ۔

ترجمہ

۱۰۸۔ کہہ دو: اے لوگو! تمہارے پر وردگار کی طرف سے حق تمہاری جانب آیا ہے ( اس کے زیر سایہ) ہدایت یافتہ اپنے لئے ہدایت پا تا ہے اور جو شخص گمراہ ہو جائے تو وہ اپنے نقصان میں گمراہ ہوا ہے او رمیں تم پر ( مجبور کرنے کے لئے ) مامور نہیں ہوں ۔
۱۰۹۔ اور جو کچھ تم پروحی ہوتی ہے اس کی پیروی کر اور صبر کر ( اور استقامت دکھا ) تاکہ خدا ( کامیابی کا ) حکم صادر کرے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔

 

 

آخری بات تربیت اور وعظ و نصیحت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma