تربیت اور وعظ و نصیحت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
مشرکین کے بارے میں حتمی فیصلہ دو قابل توجہ نکات

گزشتہ آیات میں اس بارے میں گفتگو تھی کہ ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اختیاری ہو نہ کہ اضطراری اور اجباری ۔ اسی مناسبت سے زیر نظر پہلی آیت میں اختیاری ایمان کے حصول کا راستہ بتا یا گیا ہے اور پیغمبر اکرم سے فرمایا گیا ہے : ان سے کہہ دو : صحیح طور پر غو ر و فکر کر لیں اور آسمان و زمین میں دیکھیں کہ کیسا عجیب و غریب اور حیرت انگیز نظام ہے کہ جس کا ہر گوشہ پیدا کرنے والے کی عظمت ۔ قدرت ، علم اور حکمت کی دین میں ہے ( قُلْ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔یہ سب درخشان ستارے اور مختلف آسمانی کرّات کہ جن میں سے ہر ایک اپنے محور اور مدار میں گر دش کر رہا ہے ، یہ عظیم نظام ہائے شمسی اور یہ غول پیکر کہکشائیں اور ان پر کار فرما ایک دقیق ، نظام ، اسی طرح یہ کرّہ زمین اپنے تمام عجائب و اسرار کے ساتھ اور یہ سب طرح کے زندہ موجودات  ان سب کی ساخت پر داخت میں غور کرو اور ان کے مطالعہ سے جہاں، ہستی کے مبداء و موجد سے زیادہ آشنائی پیدا کرو اور اس سے زیادہ قریب ہو جاوٴ۔
یہ جملہ وضاحت کےسا تھ جبر اور سلب ِ اختیار کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایمان جہانِ آفرینش کے مطالعے کا نتیجہ ہے یعنی یہ کام خود تمہارے ہی ہاتھ میں ہے ۔
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : لیکن ان سب آیات اور نشانیوں کے باوجود تعجب کا مقام نہیں کہ ایک گروہ ایمان نہ لائے کیونکہ آیات، نشانیان ، کے الارم ، ڈرانے کے اسباب صرف ان لوگوں کے کام آتے ہیں جو حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن جنھوں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے ہر گز ایمان نہیں لائیں گے ان پر ان امور کا کوئی اثر نہیں ہوتا(وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاَیُؤْمِنُونَ) ۔۱
لفظ ”ما“ کو ” ما تغنی الاٰیات“ میں بعض علما ء ماء نافیہ سمجھتے ہیں ، بعض استفہام انکاری ، نتیجہ کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ماء نافیہ ہو نا چاہئیے ۔
یہ جملہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بارہا قرآن میں آئی اور وہ یہ کہ دلائل ، حق باتیں ،و نصائح تنہا کا فی نہیں ہیں بلکہ مہیا اور آمادہ اسباب بھی نتیجہ حاصل کرنے کی شرط ہیں ۔
اس کے بعد قرآن تہدید آمیز لہجے میں لیکن سوال کے انداز میں کہتا ہے کیا یہ ہٹ دھرم اور بے ایمان لوگ سوائے اس کے کوئی توقع رکھتے ہیں کہ جو انجام گزشتہ سرکش قوموں کا ہوا تھا اور جو دردناک خدائی عذاب میں گرفتار ہو ئے تھے ، اس سے دوچار ہوں ۔ جیسا کہ انجام ، فراعنہ نمرود، شداد اور ان کے اعوان و انصار کا ہوا

( فَھَلْ یَنْتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ اٴَیَّامِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِھِمْ ) ۔
آیت کے آخر میں انھیں خطرے سے خبر دار کرتے ہوئے فرمای اگیا ہے : ” اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو : اب جبکہ تم اس راستے پر چل رہے ہو اور تجدید نظر کے لئے تیار نہیں ہوتو تم انتظار میں رہو اور ہم تمہارے برے اور درد ناک انجام کے انتظار میں ہیں جیسا کہ انجام گزشتہ مستکبر قوموں کا ہوا ( قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنْ الْمُنْتَظِرِینَ) ۔
توجہ رہے کہ” فھل ینظرون“ میں استفہام ِ انکاری ہے یعنی ان کا طرز عمل ہی ایسا ہے کہ گویا وہ ایک برے انجام کے آپہنچنے کے علاوہ کسی کا انتظار نہیں کررہے ۔
لفظ”ایام “ اگر چہ لغت میں ” یوم “ کی جمع ہے جس کا معنی ہے دن لیکن دردناک حوادث کے معنی میں ہے ، کہ جو گزشتہ اقوام کی زندگی میں واقع ہوئے ۔
اس کے بعد اس بناء پر کہ یہ توہم نہ ہو کہ خدا سزا دیتے وقت خشک کے ساتھ تر کو بھی جلا دیتا ہے یہاں تک کہ ایک مومن جو کسی بڑے سر کش باغی گروہ میں ہو اسے نظر انداز کردیتا ہے مزید فرمایا گیا ہے : گزشتہ اقوام کے عذاب کے اسباب فراہم ہونے کے بعد ہم اپنے رسولوں اور ان لوگوں پر ایمان لائے نجات دیتے رہے

( ثُمَّ نُنَجِّی رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا ) ۔
آخر میں فرمایا گیا ہے کہ یہ چیز گزشتہ اقوام ، رسل اور مومنین کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ ہم اس طرح تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو نجات دیں گے اور یہ ہم پر حق ہے ایک مسلم اور تخلف ناپذیر حق (کَذَلِکَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔2

 

۱۰۴۔ قُلْ یَااٴَیّھَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی شَکٍّ مِنْ دِینِی فَلاَاٴَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ وَلَکِنْ اٴَعْبُدُ اللهَ الَّذِی یَتَوَفَّاکُمْ وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ۔
۱۰۵۔ وَاٴَنْ اٴَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِینَ۔
۱۰۶۔ وَلاَتَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَنْفَعُکَ وَلاَیَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنْ الظَّالِمِینَ۔
۱۰۷۔ وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہُ إِلاّھُوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَرَادَّ لِفَضْلِہِ یُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔

تر جمہ

۱۰۴۔ کہہ دو !اے لوگو! اگر میرے دین اور عقیدے کے بارے میں تمہیں شک ہے تو میں ان کی پرستش نہیں کرتا کہ خدا کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو، میں صرف خدا کی عبادت کرتا ہوں کہ جو تمہیں مارے گا اور مجھے حکم دیا گیا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنین میں سے ہوں ۔
۱۰۵۔ اور ( مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ) اپنا رخم اس د ین کے طرف کر کہ جو ہر قسم کے شرک سے خالی ہے اور مشرکین میں سے نہ ہو ۔
۱۰۶۔ اور سوائے خدا کے کسی چیز کو نہ پیکار کہ جو نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاوٴ گے ۔
۱۰۷۔ اور اگر خدا( امتحان کے لئے یا گناہ کی سزا کے طور پر ) تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی اسے بر طرف نہیں کرسکتا اور اگر وہ تیرے لئے بھلائی کا رادہ کرے تو کوئی بھی اس کے فضل کو نہیں روک سکتا اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے ۔

 


۱۔ ”نذر“ نذیر“ کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے ڈرانے والا۔ یہ انبیاء اور خدائی راہنماوٴں کے لئے کنایہ ہے یا پھر یہ انذار کی جمع ہے ۔ یعنی غافلین اور مجرمین کو ڈرانا دھمکانا جو ان ہادِ یان الہٰی کا پروگرام ہے ۔
2۔” کذٰلک حقاً علینا ننج المومنین“ کا جملہ معنوی لحاظ سے تھا :” کذٰلک ننج المومنین و کان حقاً علینا “ یعنی جملہ ”حقاً علینا “ ایک جملہ معترضہ ہے کہ جو ” کذٰلک “ اور ”ننج المومنین “ کے درمیان آیا ہے یہ احتمال بھی ہے کہ ” کذٰلک“ کا تعلق گزشتہ جملے سے ہو یعنی ” ننجی رسلنا والذین اٰمنوا “۔

 

مشرکین کے بارے میں حتمی فیصلہ دو قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma